جن کو بوتل میں بند کرنے کی تیاریاں
پنجابی کی ایک مثال ہے کہ ”دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے، سجناں وی مر جاناں“.... ہماری قوم پر تازہ آنے والی اگست کی چودہ تاریخ اس حد تک خوفناک بنا دی گئی ہے کہ اس سے ایک طرف حکومتی انتظامیہ کو اپنے کمرے چھوڑ کر ”میدان“ میں آنا پڑ رہا ہے تو دوسری طرف چینلوں کے ارکان، یعنی میڈیا کے اینکر صاحبان ہیں رات دن اس قدر رونا پیٹنا کیا جا رہا ہے کہ شاید آصف علی زرداری صاحب اپنا ”سرے محل“ لاٹری میں نہیں، بلکہ انقلاب زریں کے لئے زیادہ کام کرنے والے ”ٹی وی“ اینکر کے نام الاٹ ہی نہیں، بلکہ تحفہ میں عنایت فرما دیں گے۔ دوسری جانب ہمارے ان اینکر صاحبان ہی کی بدولت ہمارے ملک میں کام کرنے والے سینکڑوں سفارت خانوں میں کام کرنے والے لوگ پریشان ہیں کہ کہیں مصر کے شہر قاہرہ کے تحریر سکوائر جیسا ہی اکٹھ یہاں نہ ہو جائے، حالانکہ کہاں مصر کا تحریر اسکوائر اور کہاں اسلام آباد جو کہ معرض وجود میں ہی ساٹھ کی دہائی میں آیا اور جس کی تعمیر کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔
رہا قاہرہ میں تحریر اسکوائر تو وہاں 11فروری 1946ءکو انگریز (برطانیہ) حکمرانوں کے خلاف مظاہرے میں پہلی بار تاریخ رقم کر دی گئی تھی اور انگریز وہاں دو درجن کے قریب لاشیں گرا کر اپنا اقتدار مصر سے ختم کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔اسی تحریر اسکوائر میں پھر دوسری تاریخ اسی دن یعنی گیارہ فروری کو ہی 64برس بعد 2010ءمیں رقم کی گئی ،جب قاہرہ کی بڑھتی ہوئی آبادی،اس کی ترقی اور اس کے حجم نے 33ملین(تین کروڑ تیس لاکھ) کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا انسانوں کا ایک سمندر وہاں جمع کر لیا اور بات یہ طے ہوئی کہ ان مظاہرین کا یہ دھرنا صدر حسنی مبارک کے استعفے کے بعد ہی ختم کیا جائے گا۔ان گنت لاشیں گریں، سینکڑوں کمانے والے اپنے گھروں کو واپس نہ پہنچ سکے اور نہ ہی آج تک ان کی لاشیں ملیں۔انہیں زمین کھا گئی یا آسمان یا حسنی مبارک کا ”انڈرگراﺅنڈ سسٹم“ یہ آج تک پتہ نہیں چل سکا۔البتہ حسنی مبارک اس دنیا کے عظےم ترین انسانی مظاہرے کے نتیجہ میں مستعفی ہو گئے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
ہمارے دانش ور حضرات آنے والے دنوں میں اسلام آباد میں شیخ چلی کی جو داستانیں گھڑ رہے ہیں، ان کے لئے صرف اس قدر عرض ہے کہ تحریر اسکوائر کی 1946ءسے 2010ءتک کی تاریخ پر نگاہ دوڑالیں۔ انہیں یہ مقام ہزاروں اہم اور بڑے مظاہروں کی تاریخ بتائے گا،تفصیل بتائے گا،شہادتوں کا ذکر بتائے گا اور کتنی اہم جانیں مختلف سیاسی پارٹیوں اور ان کے حامیوں نے یہاں قربان کیں ، ان سب کی ہولناک تصویر بھی دکھائے گا۔خدا کے لئے عقل کے ناخن لیں، پاکستان اور مصر کے معاملات یکسر مختلف ہیں۔وہاں آمریت سے ہٹ کر جمہوریت کا کوئی تصور ہی نہیں، جبکہ پاکستان میں آصف علی زرداری حکومت اور پرویز مشرف کے دور میں بنائی جانے والی حکومت(خواہ آپ اسے آدھی جمہوریت مانیں)اپنے اپنے ادوار مکمل کرکے جا چکی ہیں اور 1999ءکے جزوی مارشل لاءکو بھی اب 15برس گزر چکے ہیں، لہٰذا ہمارے ملک کے حالات کو ہرگز مصر سے مت ملائیں۔جنرل پرویز مشرف نے 1999ءمیں سرے سے کوئی ایک بھی فوجی عدالت نہیں بنائی تھی، بلکہ ان کے تمام کام اس وقت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان بخوشی کرنے کے لئے تیار تھے۔
پرویز مشرف نے میڈیا کو محض اس لئے آزاد نہیں کیا تھا اور نئے نئے چینلوں کی فراوانی سے اجازت نہیں دی تھی، بلکہ وہ میڈیا کی اس حالت سے پریشان تھے کہ بطور آرمی چیف وہ سرکاری ڈیوٹی پر سری لنکا میں تھے تو انہیں برطرف کر دیا گیا، لیکن کسی نے اس پر نہ لکھا،اسے آپ ریٹائرمنٹ مانیں،برطرفی مانیں یا علیحدگی ،بہرحال ان تمام معاملات کے لئے مجوزہ ضابطوں میں طور طریقے موجود ہیں۔پرویز مشرف نے میڈیا پر سنسر لگانے کی بجائے اپنے بعض ساتھیوں سے مشورہ کیا۔ان کے وہ ساتھی جنرل خالد مقبول سمیت آج بھی زندہ ہیں، جنہوں نے میڈیا سے بدلہ لینے کی ٹھانی،جس طرح آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“،ٹھیک اسی طرح میڈیا سے انتقام لینا ہو تو ان کے لئے بھی اخبارات کے ڈیکلریشن عام کر دیں اور چینلوں کو فروٹ بیچنے والے یا پراپرٹی ڈیلروں کے ہاتھوں میں تھما دیں۔باقی کام یہ ”سورما“ (مَیں نے کسی جانور کا نام لکھنے کی جسارت نہیں کی) آپس میں ہی لڑلڑ کر ازخود کر لیں گے اور نہ صرف یہ کہ اپنے حکمرانوں کے چہرے بگاڑ دیں گے ، بلکہ اصل میں یہ سب کرتے کرتے اپنے ہی چہرے کالے سیاہ کر لیں گے،اپنی پہچان کھو دیں گے ۔
میڈیا خطرناک حد تک بے قابو ہو چکا ہے اور آسمانوں میں اس کی بربادی کے مشورے جاری ہیں.... کیوں نہیں ان کے کرتا دھرتا سرمد علی، مجیب الرحمن شامی اور ضیاءشاید سمیت ان معاملات پر غور کرتے۔آج تک تو انہوں نے میڈیا کی مادر پدر آزادی پر کسی قسم کے ”چیک اینڈ بیلنس“ کا کوئی ضابطہ نہیں بنایا اور افسوسناک حالت تو یہ ہے کہ اب اے پی این ایس ہو یا سی پی این ای نہ تو مالکان کی آپس کی کسی لڑائی کا فیصلہ کراتی ہے اور نہ ہی کارکن صحافیوں کے معاملات پر کبھی ٹائم فریم کے مطابق کوئی ”حرف آخر“ سامنے آتا دکھائی دیتا ہے۔آخر میڈیا کی اس تمام تر تباہی کی ذمہ داری بھی آپ آنے جانے والے حکمرانوں پر ڈالیں گے۔ فوجی حکمرانوں پر ڈالیں گے یا پھر ”تقدیر“ اور ”حالات“ کا رونا ٹھیک اُسی طرح روئیں گے،جس طرح پاکستان کے 20کروڑ عوام آج روتے دکھائی دیتے ہیں۔
کوئی مانے یا مانے،کوئی اس خادم کی سنے نہ سنے۔ آج پرویز مشرف نے اپنی برطرفی کا بدلہ لے لیا ہے۔ میڈیا کا جو جن انہوں نے بوتل سے باہر نکالا تھا، وہ پھر اندر بند ہونے والا ہے۔ہو سکے تو میڈیا اس کا ادراک کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے خلاف یہ سازش کہیں امریکہ، یورپ سے نہ آئی ہو، بلکہ یہیں تیار کی گئی ہو۔ان کے اپنے ہی بھائی بندوں نے تیار کی ہو اور اس میں بعض ان جیسے چند سیانوں کی صلاح بھی شامل ہو، جنہوں نے پرویز مشرف کے دور میں میڈیا کی مادر پدر آزادی کے مشورے دیئے تھے اور جن کا مقصد یہی تھا کہ یہ ”جن“ زیادہ دیر بوتل سے باہر رہنے کے قابل ہی نہیں، لہٰذا اسے جب باہرسے ”ٹھونگے“ پڑیں گے تو یہ خود ہی واپس بوتل میں آ جائے گا۔ فرانس یا برطانیہ کی جس میڈیا یا جمہوریت کی بات آج کی جاتی ہے ، اس کے پروان چڑھنے میں 200 برس سے زیادہ کا وقت لگا ہے اور کسی بھی ایسے درخت کے پھلنے پھولنے اور پھل دینے کا اس سے کم وقت کبھی لگ ہی نہیں سکتا۔شوق سے نیا نظام لائیں۔ حکمران بھی یہی ہوں گے، حکم بھی آج جیسے ہی ہوں گے، نتائج بھی یہی ہوں گے،کوئی الہٰ دین کا چراغ نہ بجلی کے ریٹ کم کرے گا، نہ تیل، پٹرول، گیس کے اور نہ ہی روٹی والی اشیاءکے۔نتیجہ صرف میڈیا کا خاتمہ اور سنسرشپ کا نفاذ ہوگا۔ہیرو پرویز مشرف ہوگا اور اس کے ہم خیال بھی ہیرو ہوں گے۔