احتجاج کو پُرتشدد نہ ہونے دیں
لاہور سمیت صوبے کے کئی شہروں میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے پُرتشدد احتجاج کیا اور اُن کی پولیس کے ساتھ خونریز جھڑپیں بھی ہوئیں، جس کی وجہ سے لاہور اور بھیرہ میں تین پولیس اہلکار جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے، مشتعل مظاہرین نے 10پولیس گاڑیوں کو آگ لگا دی، جھڑپوں میں عوامی تحریک کے بھی درجنوں کارکن زخمی ہوئے، سینکڑوں کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں۔ ہزاروں کارکنوں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر لئے گئے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ کا علاقہ میدانِ جنگ بنا رہا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا، بھیرہ میں پولیس کی گاڑیوں پر پٹرول بموں سے حملے کئے گئے، لاہور سمیت کئی شہروں میں پولیس نے کنٹینر لگا کر آمدو رفت کے راستے بند کر دیئے تھے۔ تاہم ہفتے کو شام6بجے کے بعد آئی جی پنجاب کے حکم پر کنٹینر ہٹانے کا کام شروع کر دیا گیا۔ پٹرول پمپ بند رہے، جس کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لاہور میں فیصل ٹاؤن اور جوہر ٹاؤن سمیت متعدد علاقوں میں موبائل فون سروس بند رہی۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا مشہود کا کہنا ہے کہ قافلوں سے اسلحہ برآمد ہوا، 300پولیس والوں کو چھریاں ماری گئیں۔ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ میں ایک زیر سماعت مقدمے میں جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دیئے کہ پولیس پر تشدد کر کے اسلحہ چھیننا کون سا انقلاب ہے۔ فاضل جج نے (ماڈل ٹاؤن میں) کنٹینر لگانے کے خلاف دو درخواستیں خارج کر دیں اور قرار دیا کہ درخواست گزار بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا کیس ثابت نہیں کر سکے، فاضل جج نے کنٹینر ہٹانے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم بھی دیا۔
کئی دِنوں سے مختلف حلقوں کی جانب سے ایسے خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ جس انداز میں جذباتی تقریریں کی جا رہی ہیں، اس ماحول میں احتجاج پُرامن نہیں رہ سکے گا، چنانچہ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، عوامی تحریک کے کارکنوں نے کئی شہروں میں پُرتشدد مظاہرے کئے، جس کی وجہ سے لاہور میں دو اور بھیرہ میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے، پولیس کی گاڑیوں کو جلایا گیا اور نجی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا، اگر رانا مشہود کے اس بیان میں مبالغہ نہیں کہ 300پولیس والوں کو چھریاں ماری گئیں، تو اس سے معاملات کی سنگینی کا انداز ہ ہوتا ہے، ظاہر ہے جو لوگ گھروں سے چاقو یا چھریاں لے کر نکلے تھے اور جنہوں نے ان سے300پولیس والے زخمی کر دیئے۔ انہوں نے یہ کارروائی آناً فاناً نہیں کر دی، انہوں نے کسی جگہ بیٹھ کر اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی ہو گی، پھر کہیں سے چاقو اورچھریاں خریدی ہوں گی اور بعد میں لوگوں کے حوالے کی ہوں گی کہ جائیں جا کر پولیس والوں کو زخمی کریں۔ یہ ہدایات کوئی قائد ہی دے سکتا ہے، جس کی بات مانی بھی جاتی ہو۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس خالد محمود خان نے جب یہ ریمارکس دیئے کہ پولیس پر تشدد کر کے اسلحہ چھیننا کون سا انقلاب ہے؟تو اُن کے سامنے معاملے کی سنگینی واضح ہو گی، پورے معاملے کا جائزہ لے کر ہی انہوں نے کنٹینر لگانے کے خلاف درخواستیں خارج کیں اور کنٹینر ہٹانے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا، پولیس نے دو روز قبل کنٹینر لگا کر اگرراستے بند کئے، تو اس سے اردگرد رہنے والے شہریوں کو مشکلات کا سامنا تو ضرور کرنا پڑا ہو گا، لیکن بعد میں حالات سے ثابت ہو گیا کہ پولیس کا یہ اقدام بعض اطلاعات کی بنیاد پر درست تھا۔ اگر لوگوں کو بلا روک ٹوک آنے دیا جاتا تو ممکن تھا تشدد کا سلسلہ وسیع تر ہو جاتا، اب تو تین پولیس والے جاں بحق ہوئے ہیں یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی تھی، کنٹینر لگانے کے معاملے پر لاہور ہائی کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ درخواست گزار اس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا کیس ثابت نہیں کر سکے۔
جائز حدود میں رہتے ہوئے اور دوسروں کو تکلیف پہنچائے بغیر پُرامن احتجاج کا حق ہر کسی کو ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی احتجاج کا حق استعمال کر سکتی ہیں، کرتی رہتی ہیں اور لمحہ موجود میں پوری شدت کے ساتھ کر بھی رہی ہیں، لیکن اس احتجاج کو پُرامن رکھنا، احتجاج منظم کرنے والوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، بدقسمتی سے اس ذمہ داری کو نبھانے سے پہلو تہی کیا جاتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ چند درجن یا چند سو لوگ کسی سڑک پر دو چار ٹائر جلا کر ٹریفک بند کر دیتے ہیں اور اس طرح ہزاروں لاکھوں شہریوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں، دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ چند درجن یا چند سو لوگوں نے ہزاروں لاکھوں شہریوں کے حق پر ڈاکہ ڈالا اور ان کا راستہ روکا اور جب بند ٹریفک کھلوانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جوابی کارروائی کی تو شور مچا دیا گیا کہ انہوں نے زیادتی کی ہے۔ یہ حقوق و فرائض کی ادائیگی کا معاملہ ہے، احتجاج کا حق مسلم ہے، لیکن اگر ایک فرد کا احتجاج کسی دوسرے فرد کے حقوق کو متاثر کرتا ہے تو ایسے احتجاج پر قد غن لگانا قانون کا عین تقاضا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس فرق کو نہیں سمجھا جا رہا، تازہ پُرتشدد احتجاج میں دیکھا گیا ہے کہ پولیس کو خواہ مخواہ اشتعال دلایا گیا اور کسی قسم کی کارروائی سے گریزاں پولیس کو مشتعل کر کے جوابی کارروائی پر مجبور کیا گیا، بھیرہ میں جہاں 10گاڑیاں جلائی گئیں، اب اگر ان گاڑیوں کو جلانے پر مقدمات درج کر کے قانونی کارروائی کی جائے گی تو کون اسے ناجائز قرار دے گا؟
احتجاج جب تک پُر امن رہتا ہے اُس وقت تک اس احتجاج پر تشدد کا جواز نہیں ہوتا اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے نکتہ چینی کا ہدف بننا پڑتا ہے۔ 17جون کو ماڈل ٹاؤن میں پولیس نے جو کارروائی کی، کسی حلقے نے اس کا دفاع نہیں کیا، گلو بٹ نے اگر ڈنڈے مار مار کر گاڑیاں توڑیں تو اس کے حامیوں نے بھی اس کی مذمت کی، لیکن اگر یہی کام کوئی دوسرا گلو بٹ کرے گا تو کیا اس کام کی تحسین کی جائے گی؟ جو کام قابلِ مذمت ہے، اُس کی ہر ذی شعور مذمت کرے گا، ایسا تو نہیں ہو سکتا اور نہ ہونا چاہئے کہ ایک گلو بٹ کی مذمت کی جا رہی ہو اور ایسے ہی کام پر کسی دوسرے گلو بٹ کی تحسین کی جا رہی ہو، پولیس پر تشدد کرنا اور کسی اِکا دُکا پولیس والے کو پکڑ کر زخمی کر دینا یا پھر مار ڈالنا کوئی کارنامہ نہیں اور اس کام کے لئے کسی کو انگیخت کرنے کی بھی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
14 اگست کے لانگ مارچ میں ابھی تین دن باقی ہیں، تحریک انصاف کے کارکن اس کی تیاریاں کر رہے ہیں اور انتظامیہ بھی جوابی کارروائیاں کر رہی ہے، ہماری دونوں سے درخواست ہے کہ امن وامان کا مسئلہ پیدا نہ کریں، نہ ہونے دیں، احتجاج کو پُرامن رکھیں اور لانگ مارچ میں بھی فسادیوں کو گھسنے نہ دیں، فسادی اگر اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئے تو پھر یہ سلسلہ بہت پھیل جائے گا اور اسے پُرامن رکھنا ممکن نہیں ہو گا، لانگ مارچ کرنے والے اس پہلو پر توجہ دیں گے تو امید ہے وہ صورت حال پیدا نہیں ہو گی،جو گزشتہ دو تین دن سے کئی شہروں کی سڑکوں پر نظر آ رہی ہے، جس کی وجہ سے اُن عوام کے لئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں جن کے حقوق کے نام پر لانگ مارچ کیا جا رہا ہے۔ پٹرول پمپوں کی بندش سے جہاں شہریوں کے لئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں وہاں کاروبار بھی متاثر ہوتے ہیں، پٹرول پمپ تو براہ راست متاثرہ فریق ہے جو بھی کام پٹرول کے ذریعے چلتے ہیں وہ سارے بھی رک جاتے ہیں، حتیٰ کہ خوردو نوش کی اشیا بھی اُن مقامات پر نہیں پہنچ پاتیں جہاں ان کی اشد ضرورت ہے، اس لئے ہماری گزارش ہے کہ جو بھی احتجاج کا حق استعمال کر رہا ہے وہ اپنے اس حق کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرے اور دوسروں کے حقوق کا بھی خیال ر کھے، جو ان کے حق کی طرح ہی محترم ہیں ۔اشتعال کی فضا پیدا نہ کی جائے اور صبرو تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے، تشدد سے تشدد پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ دائرہ وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے، جو سیاسی تحریکیں تشدد کی راہ اپناتی ہیں وہ زود یا بدیر ناکام ہو جاتی ہیں۔ ان کا وقتی جوش و جذبہ کسی کام نہیں آتا، اشتعال اور تشدد کا راستہ بند کرنا ضروری ہے اور صبرو تحمل کا مظاہرہ کر کے ہی مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔