یوم آزادی اور خواتین کی ذمہ داریاں
ناصرہ عتیق
ہرسال یوم پاکستان پر اس مملکت خداداد کی عمر میں ایک برس کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کی عمر اس سال 68 برس کی ہوگئی ہے۔ 1947ء میں یہ ملک دو حصوں پر مشتمل تھا، مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان۔ 1971ء میں ایک سانحہ عظیم رو نما ہوا جس کے نتیجہ میں پاکستان صرف مغربی پاکستان تک محدود ہو گیا۔
میری پیدائش قیام پاکستان کے بعد کی ہے لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کے قیام کی تاریخ کا ایک ایک باب میرے دل پر رقم ہے۔ جیسے میں خود آگ، خون، قربانی اور دربدری کے روح فرسا مراحل سے گزری ہوں۔ اس بارے میں جس قدر میں سوچتی ہوں، اسی قدر اس ملک سے محبت میرے رگ و پے میں اترتی چلی جاتی ہے۔ میں ان عورتوں کے بارے میں سوچتی ہوں جو تقسیم اور ہجرت کی افراتفری اور حالات کے وحشیانہ پن میں بے گناہ ماری گئی تھیں۔ جو بچ گئی تھیں وہ مُردوں سے بدتر تھیں۔ آج تو شاید ہی کوئی زندہ ہو جو بٹوارے کے گھاؤ لئے ہوئے ہو۔ میرا جی چاہتا ہے کہ یوم آزادی پر ان سے لپٹ کر روؤں۔
میرا پیارا پاکستان ہر یوم آزادی پر تجدید عہد چاہتا ہے۔ عہد اس بات کا اس ملک کا ہر فرد اس ملک کی بہتری، سلامتی اور ترقی کے لئے بے لوث اور بے غرض نیت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرے گا۔
آزادی کے دن کی بے ثمر گہماگہمی پر مجھے اعتراض نہیں ہے۔ صبح سے شام تک کی ہاو ہو سے بھی کوئی غرض نہیں ہے۔ بے ہنگم ٹریفک، بدتمیزی، شور شرابہ اور بغیر سائلنسر موٹر سائیکلوں کی دوڑیں بھی اس وقت ذہنی اذیت نہیں دیتیں جب میں ننھے ننھے بچوں کو پاکستانی جھنڈے لہراتے اور لڑکیوں اور خواتین کو سبز قمیضوں اور سفید شلوار دوپٹوں میں ملبوس دیکھتی ہوں۔ تب میرا دل ایک فرحت بخش طمانیت سے بھر جاتا ہے۔
اس ملک کی نمود اور بہبود کے حوالے سے خواتین پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پڑھی لکھی اور بہترین مائیں ہی ایک زبردست قوم کو تشکیل دیتی ہیں۔ بچوں کی تعلیم ماؤں کی گود ہی سے شروع ہوتی ہے۔ ملک کا پر امید اور روشن مستقبل تعلیم یافتہ اور دانش مند خواتین ہی سے وابستہ ہے۔ وہ عورتیں جو صرف اپنی ذات، اپنے ماحول تک محدود ہیں اور جو علم کی افادیت اور اپنے کردار کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں، کسی بھی طور، معاشرے میں اپنا حصہ بٹا نہیں سکتیں اور نہ ہی ایک ایسی نسل کی پرورش کر سکتی ہیں جو وقت آنے پر اپنی دھرتی کا سونا ثابت ہو۔
یوم آزادی پر ہمیں کھوکھلے نعرے اور بے روح بھاشن نہیں چاہیں۔ اس وقت پاکستان کو باتوں کی نہیں عمل کی ضرورت ہے۔ اپنے ذہنوں سے کجی اور کرپشن اور اپنے فرائض کی ادائیگی کو لاتعلقی اور لاپرواہی سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر آنے والے یوم آزادی کا سورج ایک نئی روح اور ایک نئی تازگی کے ساتھ طلوع ہونا چاہئے۔ اس ملک کو وجود میں آئے 68 برس ہو رہے ہیں۔ یہ ملک ایک ایٹمی قوت بن چکا ہے اس کے سرکاری دفاتر میں اب کاغذوں کو ببول کے کانٹوں کی بجائے سٹیپلز سے اکٹھا کرتے ہیں۔ ملک میں موٹر وے پر گاڑیاں فراٹے بھرتی ہیں۔ گلی کوچوں میں صفائی کرنے والا بھی موبائیل فون پر رابطہ استوار رکھتا ہے لیکن ان ساری ظاہری ترقیوں کے باوجود ہم اپنے اندر وہ توانائی نہیں پاتے جو ایک باشعور اور ترقی یافتہ قوم کا خاصہ ہے۔ ہم گھونگھے کی رفتار سے رینگ رہے ہیں۔ جس قدر بلند بانگ نعرے ہم بلند کرتے ہیں اسی قدر ہمارے اندر سناٹا اترتا جاتا ہے۔ کبھی ذرا سی دیر کے لئے رک کر ہم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
یہ سب کچھ ہمارے ساتھ اس لئے ہو رہا ہے کہ ہم سچائی، عزت نفس، خود اعتمادی اور توکل سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔ ہم اسی صورت ان خوبیوں کو پا سکتے ہیں اگر ہم یوم آزادی اس طرح منائیں کہ جس طرح منانے کا حق ہے۔ یوم آزادی پر زبانی جمع خرچ نہیں کرتے بلکہ اپنے قول و فعل سے اپنی آزادی کا احساس دلایا جاتا ہے۔
میں ایک بار پھر خواتین سے مخاطب ہونا چاہوں گی۔ یوم آزادی خواتین کی بھرپور توجہ مانگتا ہے انہیں اس دن سے لاتعلق نہیں رہنا چاہئے۔ یہ دن سیر و تفریح اور چٹ پٹے کھانے پکانے کے ساتھ ساتھ ان سے ادائیگئ شکر کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ ان پر یہ دن واضح کرتا ہے کہ وہ ایک آزاد ملک میں آزادی کی نعمتوں سے فیض یاب ہیں۔
اس ملک کی خواتین کی ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنے حلقۂ اثر میں ان قربانیوں کا ذکر کریں جن کے عوض انہیں یہ خطۂ زمین عطا ہوا ہے۔ وہ اپنے کردار اور اپنی شخصیت کو اس طرح ضابطے میں لائیں کہ ان کی پیروی میں ان کی اولاد اور احباب اس ملک کے مخلص اور محنتی شہری بن سکیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے فرائض سے نیک نیتی کے ساتھ سبکدوش ہوں۔ پاکستان اپنے باسیوں سے جُہد مسلسل کی اُمید رکھتا ہے بالخصوص خواتین سے جو اس ملک کا ایک کثیر حصہ ہیں۔