دیوانگی، فرزانگی
جاوید ہاشمی بیک وقت دِل دیوانہ اور دماغ دانشورانہ لے کر پیدا ہوئے، لیکن وہ اپنے دماغ کی کم اور دِل کی زیادہ مانتے ہیں۔ اُن کی زندگی بھر کی سیاست کا تعارف یہ ہے کہ وہ بے خطر ’’آتشِ نمرود‘‘ میں کود پڑتے ہیں، عقل اُنہیں روکنے اور خطرات سے دُور رکھنے میں ہمیشہ ناکام ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی عملی سیاست کا زیادہ تر عرصہ پاکستان کی جیلوں میں گزرا۔ پاکستان کے زندہ سیاست دانوں میں سے کوئی ایک بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ جتنی بار جاوید ہاشمی نے اپنے وطن کے بندی خانوں کو ’’رونق‘‘ بخشی، کوئی اور سیاست دان اِتنی دفعہ جیل گیا ہو ۔ سیاست میں اختلاف رائے کی وجہ سے جتنے مقدمات جاوید ہاشمی کے خلاف قائم کئے گئے، اُتنی تعداد میں اور کسی سیاست دان کے خلاف جھوٹے مقدمات شاید ہی درج کئے گئے ہوں۔ پولیس تھانوں میں بھی جبرو تشدد کا شاید ہی کوئی حربہ ہو جو جاوید ہاشمی کے خلاف استعمال میں نہ لایا گیا ہو، لیکن جاوید ہاشمی کے جنون اور دیوانگی کا راستہ ایسے حربوں سے روکنا ممکن ہی نہیں۔ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ حکومتی جبر و تشدد کے تازیانوں نے جاوید ہاشمی کی رفتار کو ہمیشہ تیز ہی کیا ہے۔
جاوید ہاشمی اپنے جنون کی شورشوں کے باعث جب جنرل پرویز مشرف کے سیاہ ترین دور میں بغاوت کے مقدمے میں گرفتار ہو کر جیل میں گئے تو اُن کی یہ مدتِ قید خاصی طویل تھی۔ اس عرصے میں جاوید ہاشمی کی لکھی ہوئی دو کتابیں شائع ہو کر مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر چکی ہیں۔ جیل ہی کے دور میں ان کی لکھی ہوئی ڈائری، جسے آپ ایک زِندانی کا روزنامچہ بھی کہہ سکتے ہیں، اب ایک تیسری کتاب کی صورت میں اشاعت کے مراحل میں ہے۔ یہ جیل کے اندر کے احوال نہیں ہیں، بلکہ جو قیامتیں ایک فوجی ڈکٹیٹر کے عہد میں ہمارے وطنِ عزیز پر گزر رہی تھیں، انہیں ایک مدبر سیاست دان جاوید ہاشمی نے جیل کی آہنی دیواروں کے پیچھے اپنی قید و بند کے دوران جس طرح محسوس کیا، اُسے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کر دیا۔ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا ہے کہ یہ روداد قفس نہیں، بلکہ رودادِ چمن ہے، جسے قفس میں بیٹھ کر ضمیر کے قیدی نے تحریر کیا ہے۔ جاوید ہاشمی کا موضوع اور اندازِ بیان ایسا ہے کہ اسے پڑھنے والے ہر شخص کی زبان پر غالب کا یہ مصرع بے ساختہ آ جائے گا۔مَیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دِل میں ہے۔
جاوید ہاشمی جب پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے۔ اِس زمانے میں ایک نعرہ بہت مشہور تھا، ’’ایک بہادر آدمی ہاشمی ہاشمی‘‘۔۔۔ یہ محض ایک نعرہ نہیں تھا، بلکہ حقیقت میں سیاسی زندگی میں جاوید ہاشمی کا مستقل طور پر جو جرأت مندانہ کردار رہا ہے،یہ نعرہ بھرپور طور پر اس کی عکاسی کرتا ہے۔ جاوید ہاشمی فطری طور پر ایک مرد حُر اور مردِ میدان ہیں۔ وہ جیل میں بھی طویل عرصے تک رہے، مگر ان کی فطرت میں حق گوئی و بیباکی اور بغاوت کا جو جوہر ہے، وہ کبھی ماند نہیں پڑا۔ جیل کی صعوبتوں سے جاوید ہاشمی کے اعصاب شل نہیں ہوئے، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیل میں جاوید ہاشمی کے اعصاب کچھ اور توانا ہو گئے ہیں۔ مَیں نے خود کئی مرتبہ اُن سے جیل میں ملاقات کی۔ ہر بار میرا یہ احساس تھا کہ جاوید ہاشمی جیل میں(ہم جو جیل سے باہر ہیں) ہمارے مقابلے میں زیادہ آزاد ہیں۔ شاید یہ شعر اصغر گونڈوی کا ہے:
بنا لیتا ہے موجِ خونِ دل سے اِک چمن اپنا
وہ پابندِ قفس جو فطرتاً آزاد ہوتا ہے
ویسے بھی جو لوگ اپنے وطن پر قربان ہو جانے کا جذبہ اپنے دِلوں میں رکھتے ہیں، اُن کے لئے قفس، حلقہ ہائے دام اور رنجِ اسیری بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مَیں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر جنرل پرویز مشرف کے دورِ آمریت میں جاوید ہاشمی کو جلاوطنی یا اپنے مُلک میں طویل ترین عرصے تک قید میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لینے کی پیشکش ہوتی تو جاوید ہاشمی پاکستان میں عمر قید قبول کر لیتا، لیکن جلاوطنی کی شرط پر آزادی کی پیشکش ہر گز منظور نہ کرتا۔ جاوید ہاشمی کی یہی دیوانگی ہم جیسے لوگوں کے دِلوں میں اُن کے احترام میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے۔ جاوید ہاشمی کی دیوانگی نے ہمیشہ ان کو مشکلات ہی میں مبتلا کیا ہے، لیکن وطن کو اور ہمارے عظیم تر قومی مفادات کو جب بھی ضرورت پیش آئی ہے۔ ہاشمی صاحب کی دیوانگی ہی ہمارے لئے خضر راہ ثابت ہوئی تھی:
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں
عمران خان اور طاہر القادری کی دھرنے کی سیاست نواز شریف کے خلاف نتیجہ خیز بھی ثابت ہو سکتی تھی، اگر جاوید ہاشمی کی دیوانگی عمران خان اور طاہر القادری کے راستے کی دیوار نہ بنتی۔ یہ جاوید ہاشمی ہی کی دیوانگی تھی، جس کے بعد عمران خان کے ’’امپائر‘‘ کو انگلی کھڑی کرنے کا حوصلہ نہ ہُوا۔ جاوید ہاشمی نے اپنی قومی اسمبلی کی سیٹ ہی نہیں،اپنے سیاسی مستقبل کو بھی داؤ پر لگا دیا، لیکن قومی سیاست کو کسی بڑے سانحہ سے بچا لیا۔ اس پس منظر میں جاوید ہاشمی کی دیوانگی کو اگر فرزانگی کا نام دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ قوم کے لئے اچھے دِنوں کی امید اگر رکھی جا سکتی ہے تو ایسا جاوید ہاشمی جیسے نابغۂ روزگار سیاست دان کی دیوانگی ہی سے ممکن ہے جو حقیقت میں فرزانگی ہے۔ اگر ہمیں جاوید ہاشمی جیسے چند دیوانے اور میسر آ جائیں، جنہیں اپنی ذاتی سیاست کے مقابلے میں قومی مفاد عزیز ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے مُلک کی تقدیر بدل نہ جائے۔ تبدیلی یہ نہیں کہ نواز شریف کی جگہ عمران خان آ جائے۔ تبدیلی یہ ہے کہ ہمیں اپنی ذات، اپنے مال، اپنی اولاد اور اپنے تجارتی مفادات سب کچھ فراموش کر کے صرف اپنے مُلک و قوم کی بہتری کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ مَیں ایک مثال دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہمارے سیاست دانوں کو اپنے اپنے سیاسی مفادات کی پرواہ نہ ہوتی تو ہم کب کے پاکستان کے قومی مفاد میں کالا باغ ڈیم تعمیر کر چکے ہوتے، لیکن ہمیں اپنی اپنی سیاست عزیز ہے۔ قومی اور ملکی مفادات ہمارے سیاست دانوں کی پہلی ترجیح نہیں۔ یہ اگر فرزانگی ہے تو مَیں اسے جہالت سے بدتر سمجھتا ہوں۔ ہمیں اپنے تخت و تاج خطرے میں پڑتے ہوئے نظر آئیں تو ہم اپنے قومی مفادات بھی بیچ دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں جاوید ہاشمی کا دم غنیمت ہے جو تخت و تاج والوں کا ساتھ چھوڑ کر حزبِ اختلاف کی سیاست قبول کر لیتے ہیں، لیکن حزب اختلاف میں شامل اگرکوئی جماعت جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کسی سازش کا حصہ بننے پر آمادہ ہو جاتی ہے، تو جاوید ہاشمی وہاں بھی ہمیں اپنی سیاست کی قربانی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اب جاوید ہاشمی اگر دوبارہ مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو جائیں تو شاید انہیں نواز شریف اپنی جماعت میں پہلے جیسا مقام دینے کے لئے آمادہ نہ ہوں، دوسری کسی جماعت میں جانے کے لئے شاید جاوید ہاشمی خود راضی نہ ہوں۔ اگر عقل و دانش کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو جاوید ہاشمی لمحۂ موجود میں ایک ’’ناکام‘‘ سیاست دان ہیں۔ جاوید ہاشمی کو ایسی ہر ناکامی منظور ہے، کیونکہ وہ اپنے اندر کے باضمیر آدمی اور اپنے من میں ڈوب کر فیصلہ کرنے کی اپنی عادت کو کبھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ اُس کی دیوانی میں جو فرزانگی ہے، وہی جاوید ہاشمی کا اصلی حُسن ہے۔ ہماری دُعا ہے کہ ہاشمی کے اس حُسن کو کبھی گہن نہ لگے۔ دُنیا کی نظروں میں چاہے وہ ایک ناکام سیاست دان ہی کیوں نہ ہوں، ہمارے خیال میں جب تک ہاشمی کے ہاتھوں میں ان کے ضمیر کا پرچم سر بلند رہے گا۔ہاشمی سے ان کا مقام کوئی نہیں چھین سکتا۔ میری نظر سے اگر کوئی دیکھے تو جاوید ہاشمی پاکستان کے موجودہ سیاست دانوں میں کامیاب ترین سیاست دان ہیں، کیونکہ انہوں نے اگر اپنی پوری سیاسی زندگی میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں وزارت قبول کرنے کی ایک غلطی کی تھی تو پھر اُسی دور میں انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے کئی سیاسی فیصلوں سے کھل کر اختلاف کیا اور اس اختلاف رائے کی بھاری قیمت بھی ادا کی۔ اس کی تفصیلات جاننے کے لئے آپ کو جاوید ہاشمی کی پہلی کتاب ’’ہاں، مَیں باغی ہُوں‘‘ کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت ہی میں اور پھر بعد کے ادوار میں بھی جاوید ہاشمی کی سیاست میں قربانیوں کی طویل تاریخ ہے، جس کو بیان کرنے کے لئے مجھے افتخار عارف کے ایک شعر کا حوالہ دینا پڑے گا:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
جاوید ہاشمی کی سیاست میں آشفتہ سری اور دیوانگی کے زیادہ واقعات کے موجود ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سیاست میں مشکل فیصلے کرنے اور زمانے کے سرد طاقوں پر چراغ جلانے کے لئے خونِ دِل کی ضرورت پڑتی ہے اور اپنے لہو سے دیے جلانا دیوانوں ہی کا کام ہے، یہ فرزانوں کے بس کی بات نہیں۔ فیض احمد فیض نے شاید ایسی ہی صورت حال کے حوالے سے کہا تھا:
بجز دیوانگی واں اور چارہ ہی کہو کیا ہے
جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی