پارلیمنٹ بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ
کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے حملے کے بعد بہت سارے سوچنے سمجھنے والے حلقوں میں پارلیمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان شروع ہونے والے مقابلے کو سنجیدگی کے ساتھ لیا جا رہا ہے، سب کوعلم ہے کہ کون سی سیاسی جماعت کہاں کھڑی ہے، میاں نواز شریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں، کہنے والے کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سی پیک منصوبے کا مکمل کریڈٹ مانگ رہی ہے ،سیاسی حکومت دینے سے انکاری ہے اور وزیراعظم کا یہ بیان اسی اختلافی فضا میں کریڈٹ بچانے کی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے کہ چین نے سی پیک منصوبے کے لئے ان کی حکومت آنے کاانتظارکیا، بات کوئٹہ کے سول ہسپتال سے پیچھے نکلے گی توپچھواڑے کے تباہ حال ویرانے میں بہت دور تک جائے گی لہٰذا ماضی کی راکھ کو نہ کریدنا ہی عقل مندی ہے کہ کہیں کوئی چنگاری شعلہ ہی نہ بن جائے۔ اس وقت بعض پارلیمنٹ کے ارکان کی جانب سے مولانا محمد خان شیرانی کے بعد محمود خان اچکزئی کی تقریر ڈسکس ہو رہی ہے اور کیا دلچسپ اتفاق ہے کہ دونوں کا تعلق بلوچستان سے ہے۔وہ بھی بول رہے ہیں جو بحران پید ا کرنے میں ماضی کے فیصلہ سازوں کے عملی طور ریکروٹنگ ایجنٹ رہے اور وہ بھی بول رہے ہیں جنہیں محرومیوں کے سانپ ڈستے ہیں تو ان کے الفاظ میں زہر بھر جاتا ہے اور پھر فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ جب وہ اقتدار میں تھے تب مسائل کی درست نشاندہی کر رہے اور ان کے حل کی درست راہ دکھا رہے تھے یا اب وہ ایسا کر رہے ہیں؟
جہاں کچھ جماعتیں اور افراد کھل کر اینٹی اسٹیبلشمنٹ رائے کا اظہار کر رہے ہیں وہاں مسلم لیگ نون کی قیادت آدھا تیتر آدھا بٹیر یا کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتی ہے ، اسٹیبلشمنٹ کو ابھی تک تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی گول مول حمایت حاصل ہے ۔ تحریک انصاف کے قائد کو ان کے ساتھی ابھی تک امید دلا ئے ہوئے ہیں کہ ماضی کسی بھی وقت دہرایا جا سکتا ہے جس نے ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کو لیڈر بنایا، جب ان کے بت بنائے جا سکتے ہیں تو آپ کے کیوں نہیں تراشے جا سکتے۔ جماعت اسلامی کا المیہ کچھ مختلف قسم کا ہے، وہ ترکی میں جمہوریت جبکہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی ترجمانی کرتی ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ سراج الحق ہر ملاقات میں اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پھر کہیں نہ کہیں ، کچھ نہ کچھ ایسا ہوجاتا ہے کہ تاثر زائل کرنے کی تمام کوششیں ہی زائل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ پیپلزپارٹی پرو اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے مگر وہ اس کے ذریعے اگر کوئی مقصد حاصل ہوتا ہو تو وہاں بسا اوقات فیصلہ کرنے میں مشکل کا شکار ہوجاتی ہے کیونکہ وہ ایک بڑی جماعت ہے لہذا اس کے مفادات بھی بڑے ہیں ۔ کوئٹہ دھماکے کے بعد اختلافات بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں،یہ درست کہ محمود خان اچکزئی کے الفاظ آسانی سے ہضم نہیں کئے جا سکتے کہ صرف ’ را‘ پر الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، تخریب کار ایجنسیوں کے پے رول پر ہیں مگرتاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم محض رائے، تشریح اور صورتحال کے حل پر اختلافات کی بنیاد پر کسی کو غدار ڈیکلئیر نہیں کریں گے۔ سیاستدانوں پر مفاد پرستی کے ساتھ کرپشن کا الزام بھی دھرا جا سکتا ہے مگر ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہمارا کون سا طبقہ مفاد پرست اور کرپٹ نہیں ہے دوسرے یقینی طور پر کرپشن اور غداری سنگین سہی مگر ایک دوسرے سے بہت مختلف الزامات ہیں ۔ اگر کرپشن کو غداری قرار دینا ہے تو پھر پاکستانیت کا نعرہ لگانے والے بڑے بڑے ناموں کو بھی محب وطن ہونے کی فہرست سے نکالنا ہو گا۔
میں جانتا ہوں کہ ہمارے کچھ دوست پاک فوج کے سربراہ کے ساتھ ساتھ کمانڈر سدرن کمانڈ کی ملاقاتوں کو بھی ایک جمہوریت کے لئے ایک خطرے کے طور پر بیان کر رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ جن سٹیک ہولڈرز اور متاثرہ گروہوں سے وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور دیگر سیاسی عہدید اروں کو ملاقاتیں کرنا چاہئے تھیں وہ فوجی حکا م کے ساتھ رپورٹ ہو رہی ہیں اور اس طرح رائے عامہ ہموار کی جار ہی ہے۔ مجھے اپنے ان دوستوں کی خدمت میں دو باتیں عرض کرنی ہیں، پہلی یہ کہ اگر پارلیمنٹ اور سیاست کے ایوانوں سے براہ راست اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایاجائے تو وہ اپنی تربیت اور حکمت کے مطابق اس پر ردعمل ظاہر کریں گے۔ سب سے موثر اور آئینی ردعمل یہی ہو سکتا ہے کہ وہ متاثرین سے خود رابطہ کریں، ان کے دکھ کو بانٹیں اور اپنے بارے دئیے جانے والے تاثر کی نفی کریں اور دوسرے کیا وزیراعظم ،وزیراعلیٰ اور دیگر سیاسی رہنماوں کو اس امر سے روکا گیا کہ وہ کوئٹہ میں قیام کریں، سٹیک ہولڈرز اور متاثرین سے ملاقاتیں کریں، مرحومین کے جنازے پڑھیں، لواحقین کے آنسو اپنے دامن سے پونچھیں۔
رکن پارلیمنٹ نعیمہ کشور کا فقرہ دو طرح سے رپورٹ ہو سکتا ہے، ایک یہ کہ لوگ یعنی ارکان اسمبلی ہاوس میں نہیں آتے اس لئے فرشتے پالیسیاں بنا رہے ہیں اور دوسرے یہ کہ فرشتے پالیسیاں بنا رہے ہیں اس لئے لوگ ایوان میں نہیں آتے مگر ان دونوں فقروں کا جواب ایک ہی ہے۔ موجودہ دور میں بہت سارے مسائل کے حل کی راہ نکلنے اور بہت سارے منصوبے شروع ہونے کے باوجود ابھی سیاسی قوتوں کو عوام کے اندر اپنا اعتماد بحال کرنے کے لئے بہت سارے نتائج دینا ہوں گے۔ دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کم ہوئی ہیں ختم نہیں ہوئیں، مہنگائی اور بے روزگاری کا جن ابھی تک بوتل سے باہر ہے اور اس وقت تک باہر رہے گا جب تک عام آدمی کو روزگار کی سہولتیں نہیں ملیں گی ۔ اس صورتحال میں پہلا کام تو یہ ہے کہ سیاستدان اسٹیبلشمنٹ پر حملے کرنے کی بجائے تندہی سے چپ چاپ کام کرتے رہیں اور جب وہ عوام کویقین دلانے میں کامیاب ہوجائیں کہ سیاسی اور جمہوری ادوارمارشل لاوں سے بہتر ہوتے ہیں تو پھرانہیں کسی سے کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔ میں پاکستان کے قیام کے فوری بعد سے سیاستدانوں کی کارکردگی دیکھتا ہوں تو مایوسی ہوتی ہے،وہ آئین بنانے میں ناکام رہ جاتے ہیں، وہ فوج کے سربراہ کو حکومت میں شریک کرکے خود کو مضبوط بنانے کی غلط کوشش کرتے ہیں ۔ اس دور میں سیاست کی بنیادوں میں رکھی گئی کمزوری عمارت بلند ہونے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے اور جب بوجھ بڑھتا ہے تو عمارت ڈھے جاتی ہے۔
پارلیمنٹ کے اندر او ر باہر ایک غیر ضروری بحث شروع کر دی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ اس کے ذریعے رائے عامہ کو جمہوریت کے حق میں کرنے کا سوچ رہے ہوں مگر یہ کوشش اپنا ردعمل بھی ظاہر کرسکتی ہے۔ میاں نواز شریف ابھی تک اردوان نہیں بنے اور نہ ہی ان کی اپوزیشن جماعتوں نے اس معیار کی سیاسی اورجمہوری بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے جس طرح ترکی کی اپوزیشن نے کیا، مجھے ایک پروپیگنڈے کے جواب میں مشورہ دینے دیں کہ اگر حکومت کچھ دوستوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سے پراکسی وار لڑ رہی ہے تو اس جنگ کو فوری طور پر روک دے۔ پاکستان کے معروضی حالات میں پراکسی وار کبھی بھی لڑنے والے کو فائدہ نہیں دیتی بلکہ الٹا گلے پڑ جاتی ہے، ہماری اسٹیبلشمنٹ نے جو پراکسی وارز لڑیں وہ آج اسی کے نتائج کا سامنا کر رہی ہے اور یہاں بھی فی الوقت اس کے مثبت نتائج ملنے کی امید کم ہی ہے۔