بھارت میں جنسی کنیزوں کی تعدا د میں اضافہ ، عصمت فروشی کے مراکز میں پھنسی خواتین نے آزادی کیلئے نریندر مودی کو خط لکھ دیا

بھارت میں جنسی کنیزوں کی تعدا د میں اضافہ ، عصمت فروشی کے مراکز میں پھنسی ...
بھارت میں جنسی کنیزوں کی تعدا د میں اضافہ ، عصمت فروشی کے مراکز میں پھنسی خواتین نے آزادی کیلئے نریندر مودی کو خط لکھ دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نئی دہلی (آئی این پی ) بھارت میں جنسی کنیزوں کی تعدا د میں اضافہ ، عصمت فروشی کے مراکز میں پھنسی خواتین نے آزادی کے لئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ دیا ، جمہوریت کے علمبردار ہونے کا دعوی کرنے والا بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ افراد غلامی کی زندگی گذار رہے ہیں تاہم اس ملک نے جدید دور کی غلامی کے خاتمے کے لیے کچھ اقدامات نہیں کئے ،دنیا بھر میں لگ بھگ 4 کروڑ 60 لاکھ افراد غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور دنیا میں غلامی کی زندگی بسر کرنے والوں کی 40 فی صد تعداد بھارت میں ہے ،بھارتی غلاموں کی گنتی ایک کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ ہے، بھارت میں جنسی کنیز بنائی جانے والی لڑکیوں ا ور عورتوں کی تعداد دو کروڑ تک ہے اور ان میں سے آدھی خواتین کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ایک 29 سالہ بھارتی خاتون نے، جسے اپنے لڑکپن میں جنسی کنیز کے طور پر فروخت کر دیا گیا تھا، وزیر عظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا ہے جس میں یہ زور دیا گیا ہے کہ وہ ان سینکڑوں عورتوں کو، جو عصمت فروشی کے مراکز میں پھنسی ہوئی ہیں اور ہر روز جنسی زیادتی کے عمل سے گذرتی ہیں، اس جہنم سے نکالنے میں مدد دیں۔

ہندی زبان میں لکھے گئے دو صفحات پر مشتمل خط میں خاتون نے خود کو تاوی کے نام سے متعارف کرایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے بہلا پھسلا کر اغوا گیا اور پھر ممبئی کے عصمت فروشی کے مرکز میں پہنچا دیا گیا۔تاوی کا کہنا ہے کہ جب وہ وہان پہنچی تو اس کی عمر 17 سال تھی وہ 23 سال کی عمر میں یہاں پھنسی رہی، حتی کہ پولیس نے اسے بازیاب کر کے اس اذیت سے نجات دلائی۔یہ خط ان دنوں بھارت کے میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہے۔بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ افراد غلامی کی زندگی گذار رہے ہیں۔

حالیہ عرصے میں اس ملک نے جدید دور کی غلامی کے خاتمے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں۔تاوی نے خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ مجھے مدد ملی اور میں اس جنہم سے باہر نکل آئی۔ میرے جیسی بہت سی لڑکیاں اب بھی یہ عذاب بھگت رہی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ کسی مدد کے بغیر اس قید سے نکل سکے۔ میں نے ان لڑکیوں کی مدد کے لیے وزیر عظم کو خط لکھا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں لگ بھگ 4 کروڑ 60 لاکھ افراد غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

سن 2016 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اکثر واقعات میں مزوروں کو قرض دے کر پھانس لیا جاتا ہے اور ان کے پاس اپنے قرض چکانے کے لیے سوائے غلامی کے کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔دنیا بھر میں غلامی کی زندگی بسر کرنے والوں کی 40 فی صد تعداد بھارت میں ہے ۔ بھارتی غلاموں کی گنتی ایک کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ ہے۔ان میں سے اکثریت کا تعلق غریب اور دیہاتی گھرانوں سے ہے۔ انہیں اچھی ملازمت یا شادی کا جھانسا دے کر پھانسا لیا جاتا ہے، لیکن اس کہانی کا اختتام گھریلو ملازم، یا ٹائلٹ صاف کرنے والے کارکن یا ٹیکسٹائل مزور کے طور پر فروخت کیے جانے سے ہوتا ہے اور زیادہ تر لڑکیوں کو جسم فروشی کے اڈوں پر پہنچا دیا جاتا ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ خواتین کی کتنی تعداد کو جنسی کنیزیں بنایا جاتا ہے لیکن ایک مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں ان کی تعداد دو کروڑ تک ہے اور ان میں سے آدھی خواتین کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔تاوی جو اب ممبئی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتی ہیں نے بتایا کہ میں انسانی اسمگلنگ کا نشانہ بنی ہوں۔ میری زندگی دوزخ بن گئی تھی۔ مجھے مارا پیٹا جاتا تھا اور جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ میں سوچا کرتی تھی کہ ایک روز میں اسی قحبہ خانے میں مر جاؤں گی اور مجھے باہر نکلنا نصیب نہیں ہو گا۔ لیکن جب مجھے مدد ملی تو میں وہاں سے نکل آئی ۔ اب بھی بہت سی عورتیں اور لڑکیاں مدد کی منتظر ہیں ۔ میری وزیر عظم سے درخواست ہے کہ ان کی مدد کی جائے۔ایک سرکاری عہدے دار نے، جس نے یہ خط نریندر مودی تک پہنچایا تھا، کہا ہے کہ وزیر عظم نے خط کا جواب دینے کا وعدہ کیا ہے۔