سو ثالثی ہوگئی؟

سو ثالثی ہوگئی؟
 سو ثالثی ہوگئی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مودی نے وہ کر دکھایا جو اس کے مقاصد میں اولیت کا حامل تھا، کشمیر صرف ایک خوبصورت وادی ہی نہیں یہ برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب کی ایک منفرد اکائی ہے۔ سندھ، پنجاب اور بنگال ایک مخلوط طرز زندگی اور معاشرتی رنگا رنگی کے مظہر تھے، لیکن پختونخوا، بلوچستان اور کشمیر ایک دوسرے سے زبانوں، ثقافتوں اور روایات کے مختلف ہونے کے باوجود ایک اکثریتی مسلمان طرز معاشرت کے علاقے ہیں۔

کشمیر گزشتہ کئی صدیوں سے مسلمان اکثریت کا علاقہ رہا ہے۔ یہاں کی زبان، معاشرت، ثقافت، کھانے، لباس برصغیر سے قطعاً مختلف تھے اور ہیں۔ کشمیری مسلمان بھی جدید قومی تصورات کے مطابق ایک قوم تھی، اپنی زمین، زبان اور ثقافت کی حامل یہ قوم کسی طور بھارتی نہ تھی اور نہ کبھی ہوگی۔ کشمیری عوام کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ بھارت نے اسے علاقائی مسئلہ بنایا۔ گویا یہ ایک سرحدی تنازعہ تھا اور ہم نے اسے قبول کرلیا۔

ہم نے کشمیریوں کو بطور قوم ایک علیحدہ شناخت دینے سے گریز کیا اور اسے برصغیر کی تقسیم کا ایک نامکمل ایجنڈہ قرار دیا۔ حالانکہ کشمیری عوام کا مسئلہ قومی حق خود اختیاری کا مسئلہ ہے۔ ہندو انتہا پسندوں نے اسے بھارت ماتا کا حصہ بنانے کا اعلان آج نہیں کیا۔

ہندو توا کے حامی ہندوستان کو شدھ بھارت بنانا چاہتے تھے، جہاں مسلمانوں کو کوئی حقوق نہ ہوں گے۔ جہاں مسلمانوں کے کوئی حقوق نہ ہونگے اور نہ ہی ان کے مخصوص علاقوں پر ان کی حکمرانی قبول کی جائے گی۔ آج بھارت کے تقریباً 20کروڑ مسلمانوں میں سے کوئی ایک کسی صوبے کا وزیراعلیٰ نہیں ہے۔

بھارتی لوک سبھا میں مسلمانوں کی آبادی کے حوالے سے کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب 1982ء میں زمبابوے کے شہر ہرارے میں غیر جانبدار ممالک کی تنظیم "NAM" کے سربراہان کا اجلاس منعقد ہوا تو تنظیم آزادی فلسطین اور بعض افریقی ممالک کی کوششوں سے جموں کشمیر لبریشن لیگ کے صدر کے ایچ خورشید نے اپنی تنظیم کے حوالے سے مبصر کا دعوت نامہ وصول کرلیا۔ انہیں جب ضیاء الحق نے کانفرنس میں دیکھا تو انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔

کے ایچ خورشید مرحوم ہمارے دوستوں میں سے تھے۔ میری بیٹی کی شادی پر وہ تشریف لائے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ فلسطینی وفد کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو قومی تحریک آزادی کی حیثیت دی جائے تو عالمی برادری خاص طور پر تیسری دنیا ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے میں آسانی محسوس کرے گی۔

اس وقت بھارت اسے اپنا داخلی معاملہ قرار دیتا ہے اور غیرجانبدار تحریک میں بھارت کافی بااثر حیثیت رکھتا ہے۔
خورشید صاحب ایک ایماندار اور صاحب کردار کشمیری رہنما تھے۔ وہ بیس برس کی عمر میں سرینگر کے ایک اخبار میں ملازمت کرتے تھے کہ بانی پاکستان نے انہیں اپنے عملہ میں شامل کیا۔ ان کی ایمانداری اور خلوص نے انہیں ہمیشہ جناح خاندان کے قریب رکھا۔


پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر کو بھارت کی لوک سبھا، راجیہ سبھا اور بین الاقوامی فورم پر ہمیشہ الگ حیثیت کا مالک قرار دیا اور اس کی حتمی حیثیت کو رائے شماری اور کشمیری عوام کے فیصلہ سے مشروط رکھا۔ پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان کے نام ان کے دو ٹیلیگرام کا تذکرہ گزشتہ روز بھارتی صحافی ارون دھتی رائے نے اپنے ایک سوشل میڈیا کے پیغام میں کیا ہے، جس میں پنڈت نہرو نے لیاقت علی خان کو یقین دلایا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام ہی کریں گے۔ اس ٹیلیگرام کے حوالے سے ان کے ایک بیان پر دھلی کی ایک عدالت نے ان پر ریاست سے غداری کا مقدمہ قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔

آج بھارت میں بھارت کو آزاد کروانے والے نہرو، گاندھی اور دوسرے رہنماؤں کو گالی دی جارہی ہے۔ اس لئے کہ بھارت پر گاندھی کے قاتلوں کی حکومت ہے۔ بھارت کو شدھ ہندو ریاست بنانے کے جنون میں مبتلا بال ٹھاکرے کے پیروکار بھارت میں صرف مسلمانوں ہی کی نہیں۔ بلکہ تمام تر غیر ہندوؤں کی زندگی کو اچھوت بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ کشمیر پر ان کا حالیہ فیصلہ اس کی ابتدا نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک یہ انتہا ہے۔ جسے مزید انتہا تک لے جانا ہے۔

ہم نے جس امریکہ کے صدر کے ثالثی بیان پر ملک بھر میں چراغاں کی سی حالت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اس امریکہ نے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا ہے۔ صرف ایسا ہی نہیں بلکہ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان مورگن آرٹاگس نے اسے ”سختی“ سے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔ گویا امریکہ سے جس ثالثی کی ہم نے درخواست کی تھی اور ٹرمپ کو کروڑوں لوگوں کی دعائیں حاصل کرنے کا مشورہ دیا تھا وہ ثالثی ہوگئی ہے۔ اب کشمیر میں بھارت انسانی نسل کشی کے اگلے مرحلے میں امریکہ کی حمایت بھی حاصل کرے گا۔

جس ٹرمپ نے شام کے پہاڑی علاقہ پر اسرائیل کا قبضہ قانونی قرار دیا۔ جس نے بیت المقدس میں اسرائیلی قبضہ کی موجودگی میں اپنا سفارت خانہ وہاں بنایا۔ وہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت ایسے ہی کرسکتا تھا۔ حیرت تو یہ ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے جواباً خاموشی اختیار کرلی ہے۔ کیا ثالثی مکمل ہوگئی۔

مزید :

رائے -کالم -