ہم نے کس قماش کے لوگوں کو اختیار سونپ دیا؟
سورۃ الانعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”پس! ظالم قوم کی نسل بھی منقطع کر دی گئی“۔ سورۃ الانفال میں حکم وارد ہوا:”اور ہم نے فرعون کی قوم کو غرق کر دیا،اور وہ سب کے سب ظالم تھے“۔اس سے صرف ایک فرعون مراد نہیں، بلکہ ناانصافی کرنے والا ہر وہ شخص، خواہ اس کا تعلق کسی بھی عہد، ملک،قبیلے یا نسل سے ہو! اور وجہ ئ ہلاکت، ظلم!ظلم ہے؟
انصاف کے برخلاف! انصاف؟ نصف کی جمع! بلا کم و کاست دو برابر حصے! ظلم سے مراد کسی چیز یا نظریے کو ایسی جگہ رکھ دینا اور کسی فرد کا وہاں بیٹھنا اور بٹھا دینا،جہاں اُسے نہیں ہونا چاہئے تھا،یا پھر کسی شے نظریے یا فرد کا ایسی جگہ نہ ہونا جہاں اُسے ہونا چاہئے تھا۔ظلم کی ٹہنی کبھی پھول نہیں سکتی۔
ظالم اپنے اور آل اولاد کے لئے ”بہار“ کے متمنی ہوتے ہیں،ان کے مقدر میں لیکن خزاں لکھ دی جاتی ہے۔ وہ کون سا نامی تھا،جو بے نام نہیں ہوا؟ کس کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے؟ ”مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے“؟ہاں، مگر حوالہ ئ عبرت کے لئے! وہ نمرود، فرعون، قارون، ہامان، شداد، ابوجہل، یزید کیا ہوئے؟ کسی کی قبر کا نشان تک باقی نہیں رہا،وہ حور و قصور، وہ قلعہ، وہ افواج، وہ تکبر مال ودولت،وہ اختیار وا قتدار، وہ صبح و شام زندگی میں لمحہ لمحہ عیش و عشرت، وہ اُچھلتے جام، وہ فصل شباب اور انواع و اقسام سے مزین دستر خوان ایسے معدوم ہوئے کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں!
بس ظالم کی قسمت میں ذلت ہے،پہلے تو زندگی خود گناہوں کی سزا دیتی ہے۔ اول تو اِس دُنیا میں ہی کئے کا بدلہ مل کر رہتا ہے،نہیں تو آخرت کی عقوبت ضمیر کا بوجھ اور ملامت زائد!! خدا وند کریم کا قانون ایساہے کہ وہ دنیوی حیات میں بُرے اعمال کی سزا نہ دے کر بھی سزا دیتا ہے۔
گویا دُنیا کے اندر گرفت میں نہ آنا بھی گرفت! ظلم کا آخری درجہ کفر ہے،بلکہ حقیقی معنوں میں کفر،شرک، ارتداد اور نفاق میں داخل! یہ ظلم ہی تھا،جس کے خلاف امام عالی مقام نے قیام فرمایا، کربلا کا مطلب ہی ظلم و ناانصافی سے ٹکرا جانا ہے!کیا دُنیا میں ظلم کی یہ سزا کافی نہیں کہ اولاد بھی باپ،دادا سے انتساب توڑ دیتی ہے۔کون ہے، جو اپنا شجرہئ نسب ان سے ملائے؟کبھی کبھی نسل اس طرح بھی تو کٹتی ہے،جن کے لئے پاپ کمائے جائیں، وہ انہیں اپنا باپ دادا بھی نہیں مانتے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ”اور طاغوت کے لئے اس نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے“۔یہ جو لوگ جائز و ناجائز خزانوں پر سانپ کی شکل میں بیٹھے ہیں،جنہوں نے ہر حربے سے جائیدادیں سمیٹ رکھی ہیں، جو بے بس و بے کس لوگوں کے حصے کا رزق روٹی بھی چاٹ کھا گئے ہیں! کیا ظلم نہیں؟ اگر یہ نہیں تو اور کون ہیں؟حیرت یہ ہے کہ آج تک کسی نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا؟ جس کو جب اور جتنا موقع ملتا ہے، ظلم کر گزرتا ہے۔ قدرت ان کے کرتوتوں پر مسکراتی ہے۔
ظلم تو ظلم ہے،لیکن ایک ظالم کی مدد کرنے والا بھی دین سے خارج ہو جاتا ہے۔ کلمہ پڑھنے اور جملہ عبادات بجا لانے کے باوجود مسلمان نہیں رہتا۔محبوب خداؐ کا ارشاد ہے:”جس آدمی نے جان بوجھ کر ظالم کی امداد کی، وہ اسلام سے نکل گیا“۔
آپؐ نے حضرت کعبؓ سے فرمایا: ”مَیں، تیرے لئے سفہاء کی بادشاہی سے پناہ مانگتا ہوں“۔ پوچھا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کیا مراد ہے؟ ارشاد ہوا:میرے بعد بادشاہ ہوں گے، جو ان کے پاس جائیں گے، اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کریں گے اور ظلم میں ان کا ہاتھ بٹائیں گے، ان کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہو گا،اور حوض کوثر پر بھی وہ ہر گز نہ آئیں گے“۔
راہِ انصاف و اعتدال سے ہٹے اور کٹے ہوئے حکمرانوں کی بابت ایسی ایسی وعیدیں ہیں کہ پڑھ سن کر دِل کباب ہو جاتا ہے، لیکن طاغوت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی! یہ دراصل منکرین دین و آخرت ہیں۔اگر غیر مسلموں کے گھر پیدا ہوتے تو غیر مسلم ہی چلے آتے۔ان کا اسلام، محض حادثہ ئ پیدائش کی بناء پر ہے۔ وگرنہ یہ کبھی عملاً دین میں داخل ہی نہیں ہوئے اور شعوری لحاظ سے اسلام کی خوشبو بھی نہیں سونگھی! کربلا کے عہد میں ہوتے تو انہیں یزید کے گروہ میں ہی پایا جانا تھا۔
قاتلانِ حسین میں اِس لئے ان کا نام نہیں آیا کہ تب یہ موجود نہیں تھے۔مقدس فریبی!امیر المومنین سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کا قول ہے کہ اگر کوئی حاکم،عامل اور قاضی مقرر کرتے وقت اقربا و پروری،دوست نوازی اور جانبداری سے کام لیتا ہے تو غلط فیصلوں کی وجہ سے حاکم اور قاضی کو جو گناہ ہو گا،اس میں وہ امیر بھی برابر کا شریک ہے،جس نے اُسے وہ عہدہ سپرد کیا تھا“۔ پاکستان کو اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت اور مدینہ کی جانشین ریاست کہا جاتا ہے،لیکن یہ کس قماش کے لوگوں کو ہم نے اختیار و عدالت سونپ رکھا ہے؟