مسجد میں شوٹنگ کا مسئلہ؟
تاریخی جامع مسجد وزیر خان میں ٹی وی ڈرامے کی شوٹنگ اور گانے کی پکچرائزیشن کے حوالے سے حکومت نے نوٹس لے لیا ہے۔ محکمہ اوقاف پنجاب کے سرکل منیجر کو معطل کرکے تحقیقات شروع کر دی گئیں کہ ایسا کس طرح ہوا اور یہ اجازت کس نے دی۔ حقائق کا مکمل علم ہو جانے کے بعد مزید کارروائی ہوگی، اس حوالے سے دینی اور سنجیدہ فکر حلقوں کی طرف سے احتجاج کیا گیا اور اس دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اب مساجد کے تقدس کو بھی یوں پامال کیا جا ر ہاہے۔ اس سلسلے میں بہتر عمل تو یہ ہوگا کہ تحقیقات کے نتائج کا انتظار کر لیا جائے توقع ہے کہ حکومت کی طرف سے نوٹس لینے کے بعد تحقیق بھی پوری طرح کی جائے گی اور پھر ذمہ داری کا تعین کرکے قانون اور قواعد کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ یہ عمل اپنی جگہ لیکن اس سے زیادہ دکھ کی بات ہے کہ سول سوسائٹی، شوبز حلقوں اور سوشل میڈیا کے بعض نام نہاد روشن خیالوں کی طرف سے اس کو متنازعہ بنانے کی بھرپور سعی کی جا رہی اور اس عمل کو درست قرار دینے کے لئے مقابلے میں برائی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ایسے حضرات یہ سوال کرتے ہیں کہ کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے کہ مساجد کے حجروں میں بھی غلط حرکات ہوئیں، اس پر احتجاج کیوں نہیں کیا جاتا، یہ انتہائی بودی دلیل ہے جو مذہب بیزار حلقوں ہی کی طرف سے دی گئی ہو گی۔ یہ کون سا اخلاق اور کون سا قانون ہے کہ برائی کو درست ثابت کرنے کے لئے بُری مثال لائی جائے۔ کون کہتا ہے کہ اگر مدارس یا مساجد کے حجروں میں کسی نوعیت کی بداخلاقی سامنے آئے تو اس پر اعتراض اور احتجاج نہیں ہوتا، ایسے معاملات تو عدالتوں تک بھی جاتے اور مجرموں کو سزائیں بھی ہو چکی ہیں، پھر نام نہاد روشن خیالی کے تحت برائی کی مثال دے کر ایسی برائی کو درست کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ رویہ مناسب نہیں، حکومت اور متعلقہ محکمے کو تحقیق جلد از جلد مکمل کرکے درست قانونی کارروائی کرنا چاہیے۔