مہنگائی کا سونامی

مہنگائی کا سونامی
مہنگائی کا سونامی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان میں مہنگائی کنزیومر پرانس انڈیکس کے ذریعے جانچی جاتی ہے۔ جسے عام طور پر سی پی آئی کہا جاتا ہے۔ عمومی استعمال میں آنے والی اشیا اور خدمات کا ایک سیٹ بنایا جاتا ہے جسے سی پی آئی باسکٹ کہا جاتا ہے۔ اس باسکٹ میں موجود مختلف چیزوں کی قیمتوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ سی پی آئی باسکٹ کے مطابق ایک پاکستانی اوسطاً 34.58 فیصد کھانے پینے کی اشیا پر، 26.68 فیصد مکان کے کرائے، بجلی، گیس،پانی کے بلوں اور ایندھن پر، 8.6 فیصد کپڑوں اور جوتوں کی خریداری، تقریباً سات فیصد ہوٹلنگ، تقریباً چھ فیصد نقل و حمل، چار فیصد سے زائد گھر کی   تزئین و آرائش اور مرمت، 3.8 فیصد تعلیم اور 2.7 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ 
گزشتہ ہفتے 17 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، 11 میں کمی اور 23 اشیاکی قیمتوں میں استحکام رہا۔ اعداد وشمارکے مطابق جولائی میں مہنگائی کی شرح میں 1.34 فیصد اضافہ ہوا، مجموعی شرح 8.40 تک پہنچ گئی۔ ادارہ شماریات کے ماہانہ اعداد و شمار کے مطابق  شہری علاقوں میں ٹماٹر 42.40 فیصد، پیاز 34.53 فیصد،گھی 6.70 فیصد، خوردنی تیل 6.56 فیصد اور چینی 5.08 فیصد مہنگی ہوئی۔ شہری علاقوں میں دال مونگ 11.36 فیصد، چکن 10.07  فیصد، دال ماش 5.18 فیصد، دال مسور 1.24 فیصد سستی ہوئی۔ دیہی علاقوں میں ماہانہ بنیادوں پر ٹماٹر 101.63 فیصد مہنگا ہوا۔

پیاز 47.62 فیصد، آلو 12.66، سبزیاں 5.16 فیصد، چینی 4.33 فیصد، خوردنی تیل 3.16 جبکہ کوکنگ آئل 2.27 فیصد مہنگا ہوا۔ چکن 12.95 فیصد، دال مونگ 10.06 فیصد، دال ماش 2.41 فیصد سستی ہوئی۔ اسی طرح شہروں میں سالانہ  بنیاد پر خوردنی گھی 32.85 فیصد، کوکنگ آئل 31.70 فیصد،انڈے24.07، چینی 23.01 اور آٹا 14.92 فیصد مہنگا ہوا، ٹماٹر 21.82، جبکہ دال مونگ 20.75 فیصد سستی ہوئی۔ دیہات میں ٹماٹر 26.85 فیصد، دال مونگ 22.33، آلو 13.77 فیصد سستے ہوئے۔ پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کی بڑی وجہ ’فوڈ انفلیشن‘ یعنی غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ تھا۔ پاکستان میں مالی سال 2018-19ء میں مہنگائی کی شرح مجموعی طور پر 6.8 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جو مالی سال 2019-20ء کے اختتام پر 10.7 فیصد کی شرح پر بند ہوئی۔پاکستان مسلم لیگ(ن)کی سابقہ وفاقی حکومت میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے دور اقتدار میں مہنگائی کی شرح 4 فیصد تک رکھنے کا دعویٰ  کیا تھا۔ پاکستان میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان دیکھا جائے تو مقامی طور پر پیدا ہونے والی اور باہر سے درآمد ہونے والی اشیا دونوں کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔


روز مرہ ضرورت کی تمام ہی اشیا کی قیمتوں میں موجودہ دور میں جس رفتار سے اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے، ملک کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔مشرف دور میں افغان جنگ میں شامل ہونے سے پاکستان میں ناصرف امن و امان کی صورت حال بگڑی،بلکہ معیشت کو بھی شدید دھچکا لگا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مہنگائی عمومی طور پر بڑھی۔ کرپشن اور بے ضابطگیوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ اس وقت پٹرول کی قیمت 110 روپے سے اوپر کی سطح پر گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں آٹا 35سے 40روپے کلو، چینی 55 روپے، گھی 160روپے، خوردنی تیل 180 سے 190 روپے لٹر تک فروخت ہوتا رہا جبکہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 110روپے سے اوپر ملنے والے پٹرول کی قیمت نواز دور میں 66 روپے تک آ گئی۔ اس وقت تحریک انصاف نے عوام کو سستی اشیاء خورونوش اور کم قیمت پر پٹرول فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔عوام کو ریلیف فراہم کرنے اور ملکی حالات کو سنوارنے کے بے شمار وعدے اور دعوے کئے، لیکن اس کے برعکس مہنگائی کے عفریت نے اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ اس سے جان چھڑانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت پٹرول کی قیمت بلند ترین سطح120روپے فی لٹر پر پہنچ چکی ہے۔پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے اثرات بالواسطہ اور بلاواسطہ عوام پر پڑتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بجلی کے نرخ بھی بڑھ جاتے ہیں۔ 


وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزارتِ صنعت و پیداوار کی سفارش پر حکومت کے یوٹیلٹی سٹوروں پر گھی کی قیمت میں تقریباً 53فیصد کا اضافہ کر دیا،جس کے بعد قیمت 260روپے فی کلو ہو گئی۔علاوہ ازیں آٹے کی قیمت میں تقریباً 19فیصد اضافہ ہوا،جس کے بعد 20کلو کی بوری 950 روپے کی ہو گئی۔ اسی طرح چینی کی قیمت85 روپے کر دی گئی، جبکہ اوپن مارکیٹ میں چینی 110 روپے فی کلو تک فروخت کی جا رہی ہے۔
تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کے دور حکومت میں عوام کی حالت ”پتلی“ ہوگئی ہے۔ عوام کو ہر وقت دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی ملک کے لئے اپنی صلاحیتیں کیسے بروئے کار لاسکتا ہے۔ جب اسے ہر وقت روزی روٹی کی فکر ستاتی رہے گی۔ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا اندازہ وہاں کے عوام کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔اگر عوام خوشحال ہوں گے تو ملکی معیشت بھی اچھی ہوگی اور ملک ترقی بھی کرے گا۔ حکومت ایسی پالیسیاں بنائے، جس سے عوام کو ریلیف ملے اور وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

مزید :

رائے -کالم -