بیوروکریسی کا استحقاق بھی تسلیم کرنا ہو گا

بیوروکریسی کا استحقاق بھی تسلیم کرنا ہو گا
بیوروکریسی کا استحقاق بھی تسلیم کرنا ہو گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پرائیویٹ ممبر ڈے پر چوہدری پرویزالٰہی ’شیر شیر‘ کے نعروں میں پنجاب اسمبلی نے گورنر کی جانب سے اعتراضات لگا کر بھجوایا گیا ’استحقاق ترمیمی بل‘ دوبارہ منظور کرلیا۔۔۔ مذکورہ بل پر حکومت یا اپوزیشن کی جانب سے کسی نے اعتراض نہیں کیا اور اسمبلی سیشن میں اس بل کو ایجنڈے پر لائے بغیر اور بغیر بحث کے ہی منظور کر لیا گیا ،اراکین پنجاب اسمبلی میں چوہدری پرویز الٰہی کی ’جے جے کار‘ہو رہی ہے۔
کامیاب ریاست کےلئے ضروری ہے کہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے سے متصادم ہونے کی بجائے معاون ہوں مگر ہمارے معاملات ہی نرالے ہیں، ایک دوسرے کے اختیارات کو استعمال کر کے اپنی برتری اور بالا دستی قائم کرنا اور ایک دوجے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنا ہم نے وطیرہ بنا لیا ہے۔قانون سازوں نے تمام اختیارات کا مرکز اپنی ذات کو بنا لیا ، بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں قانون سازی کا عمل غیر مربوط، سطحی اور شخصی مفادات کے بہت زیادہ تابع ہے ،اسی لئے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ہمارا ملک اسکی بھاری قیمت چکا رہا ہے۔

جتنےبھی قوانین بنائےجاتے ہیں اسکے پیچھے بنیادی سوچ یہ ہوتی ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ اختیارات حکمرانوں کے پاس آجائیں،اکا دکا قوانین عوامی مفاد کیلئے بنائے جاتے ہیں اور ان میں سے بھی بیشتر قوانین ایسے ہوتے ہیں جو صرف دکھاوے کیلئے ہوتے ہیں۔ استحقاق بل پر پوری اسمبلی ایک ہی صف میں کھڑی نظر آئی ، بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو کنٹرول کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن صحافیوں نے اس پر شدید احتجاج کیا اس احتجاج کے نتیجے میں صحافیوں بارے ترامیم کے بعد اسمبلی نے اتفاق رائے سے دوبارہ بل منظور کر لیا۔

اس نئےقانون کےمطابق پہلی بارایک’پارلیمانی جوڈیشل کمیٹی‘کا قیام عمل میں لایا گیا۔سینٹ ،قومی اسمبلی سمیت تمام صوبوں میں پہلے سے ہی اراکین اسمبلی کے استحقاق کے حوالے سے استحقاق کمیٹی موجود ہے، جہاں سرکاری ملازمین کی اچھی خاصی ”خجل خواری“ کی جاتی ہے لیکن اب اس قانون کے مطابق جوڈیشل استحقاق کمیٹی قائم ہو گئی ہے جو کسی بھی رکن اسمبلی کا استحقاق مجروح ہونے کی صورت میں استحقاق مجروح کرنے والے شخص کو طلب کر کے اس کو سزا دے سکے گی۔

اس کمیٹی کی سزا کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا ۔ کمیٹی کی سزا بارے اپیل سپیکر پنجاب اسمبلی کوہی کی جا سکے گی۔ جوڈیشل کمیٹی کےپاس مجسٹریٹ کےاختیارات اورسمری ٹرائل کےدوران ایک دن میں سزاسنانےکااختیاربھی ہوگا۔

ان سزاؤں میں کمی یااضافہ سپیکر کی صوابدید ہوگا،سپیکرپنجاب اسمبلی گرفتاری کا حکم دے سکتے ہیں۔ یہ قانون گورنر کے دستخطوں کے بغیر ہی نافذ العمل ہو گا کیونکہ گورنر ایک بار اعتراض لگا کر بل واپس بھیج سکتا ہے، دوبارہ اگر اسمبلی اسے منظور کر لیتی ہے تو وہ ازخود نافذ العمل ہو جاتا ہے ۔
اب سرکاری ملازمین اراکین اسمبلی کو پروٹوکول دینے کیلئے تیار رہیں ،اگر کسی پارلیمینٹیرین نے کمی محسوس کی تو خیر نہیں۔مشاہدے کی بات ہےکہ اراکین اسمبلی اپنے ووٹروں سپورٹروں کیلئے ناجائز فیور حاصل کرنا بھی اپنا حق تصور کرتے ہیں اورافیسر کے انکار کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔اب نئے قانون کے بعد سرکاری ملازم کسی رکن اسمبلی کوناجائز کام سےبھی انکار کرتےوقت ہزاربارسوچے گا کہ کہیں صاحب ناراض ہوکرپارلیمانی عدالت میں نہ طلب کر لیں۔ 
کسی جرم کو ثابت کرنے کیلئے باقاعدہ ایک قانونی نظام ہے،مجرم کو عدالت میں پیش کر کے فردجرم عائد کی جاتی ہے جس کے بعدعدالت شہادتوں اوردلائل پر فیصلہ دیتی ہےمگر استحقاق بل کی منظوری کے بعد بیورو کریسی مکمل طورپر اسمبلی ارکان کے رحم و کرم پر ہو گی۔جس کا جو جی چاہے گا زبانی حکم دے گا ،اگر حکم مانا گیا اور اس میں کوئی بے ضابطگی ہوئی تو ذمہ داری بیوروکریسی کی اورنہ ماناجائے تو اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی کی طرف سے دی جانے والی سزا کے حقداربھی بیوروکریٹ ہی ٹھہریں گے۔

دنیا بھر کے پارلیمانی اورجمہوری ممالک میں ایسی نظیر نہیں ملتی۔وفاق ،آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان سمیت کسی صوبائی حکومت نے اس طرح کی قانون سازی نہیں کی۔بیوروکریسی سے مسئلہ صرف اراکین پنجاب اسمبلی کو ہی کیوں ؟ سزا کا اختیار صرف عدلیہ کوحاصل ہے، آئین کے آرٹیکل 175سے متصادم ہونے کی وجہ سے وثوق سے یہ پشین گوئی کی جاسکتی ہے کہ عدالت اسے کالعدم قرار دے دے گی۔
سول بیورو کریسی میں اصلاحات کے نام پر مختلف حکومتیں مختلف اقدامات عمل میں لاتی رہی ہیں لیکن پولیٹیکل وِل نہ ہونے کی بناءپر پہلے سے چلتا ہوا بیوروکریٹک نظام ٹھیک ہونے کے بجائے الٹا خراب ہوتا چلاگیا۔ اس کی ایک وجہ تو عمومی طور پر یہ ہوتی ہے کہ ہر نئی آنے والی حکومت گزشتہ حکومتوں کے دور میں شروع ہونے والی ریفارمز کو تسلسل دینے کی بجائے نت نئے تجربے کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے افسران اپنی پوزیشن بچانےکی خاطرسیاستدانوں کےغلط احکامات بھی مانتےہیں،ہمارےبیوروکریٹ پہلےہی اسقدر سیاست زدہ ہو چکے ہیں کہ انہیں حکومتی جلسے کامیاب بنانے کے لیئے افرادی قوت بھی مہیا کرنا پڑتی ہے۔ بیورو کریسی کو اکثر معاملات میں خاموش تماشائی بننا پڑتا ہے،کوئی بڑے سے بڑا افسر بھی کسی حکومتی عہدے دار کو انکار کرنے کی جرات کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ان حالات میں ایک سول سرونٹ کیسے انصاف کر سکتا ہے ؟کیا وہ عام آدمی کی خدمت کر سکتا ہے؟ اس صورت حال میں بیورو کریسی پر نا اہلی،بد عنوانی، قانون شکنی کاالزام نہیں دھرا جا سکتا۔
آج چین کی ترقی کی پوری دنیا میں مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔ چین کی ترقی کی اگرچہ کوئی ایک وجہ یا محض چند اصول نہیں ہیں تاہم چین کی قیادت نے جو نمایاں کام کیے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ چینی قیادت نے سرکاری ملازمین کو بہت مضبوط کیا، انہیں مکمل اختیارات کے ساتھ ساتھ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ،ان کے کام میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جاتی۔ بیورو کریسی دراصل انتظامیہ ہوتی ہے جو امور مملکت کو حکومتی پالیسیوں اور قوانین کے تحت چلاتی ہے،عوامی مسائل کے حل کیلئے کام کرتی اور نظم و نسق قائم رکھتی ہے،دنیا بھر میں پالیسی سازی اور عملدرآمد کے معاملہ میں بیوروکریسی کا اہم کردار ہوتا ہے ۔
ایک طرف وزیراعظم کہتے ہیں کہ بیوروکریسی بلا خوف و خطر اپنے فرائض انجام دے کسی کے دباو میں آئے نہ کسی کے خلاف ضابطہ حکم کو تسلیم کیا جائے۔دوسری طرف پنجاب اسمبلی نے ارکان اسمبلی کو یہ آئینی اختیار دیدیا کہ وہ بیوروکریسی کو کوئی بھی کام کرنے کا حکم دے سکتے ہیں اورسرکاری افسر کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں،یہ دراصل بیوروکریسی کو ریاست کی ملازمت سے نکال کر حکومت کا خدمت گار بنانے کی کوشش ہے ۔

وزیراعظم عمران خان کوچاہئے کہ پنجاب اسمبلی کو بیوروکریسی پربادشاہت کرنےکی ہرگزاجازت نہ دیں بلکہ میرٹ اور انصاف کو یقینی بنانے کیلئے بیوروکریسی کو آزادی کی جانب لے کر جائیں۔منتخب نمائندوں کا استحقاق اہم لیکن سرکاری افسران کااستحقاق بھی تسلیم کرناہو گا،بیورو کریسی کو سیاسی اورپارٹی مفادات کےلیے استعمال کرنے کی بجائے اس کی صلاحیتوں سے عوام کو سہولت بہم پہنچائی جائے۔ بیورو کریسی کو بااختیار بنانا ہو گا، بیورو کریسی کو کنٹرول کرنے کی بجائے ان کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھائیں۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -