جب آپ فلم بناتے ہیں تو آپ وقت کی گردش کے آگے بندھ باندھ رہے ہوتے ہیں

جب آپ فلم بناتے ہیں تو آپ وقت کی گردش کے آگے بندھ باندھ رہے ہوتے ہیں
جب آپ فلم بناتے ہیں تو آپ وقت کی گردش کے آگے بندھ باندھ رہے ہوتے ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مترجم:علی عباس
قسط: 42
میںنے براڈ وے شو بھی دیکھا ہے جو معیار میں کم تر نہیں ہے۔ میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میں نے اِسے چھ یا سات بار دیکھا ہے۔ بعد ازاں میرے شو کی مرکزی فنکارہ اور ڈوروتھی کے کردار میں جلوہ گر ہونے والی اداکارہ سٹیفنی مِلز کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار ہو گئے تھے، میں نے اُسے تب بتایا تھا اور میں اس پر یقین رکھتا ہوں کہ ڈرامے میں اُس کی پرفارمنس کو ویڈیو فلم پر محفوظ نہ کیا جانا ایک المیہ تھا۔ میںاسے دیکھتے ہوئے اکثر رو پڑتا تھا۔ میں جتنا زیادہ براڈوے تھیٹر پسند کرتا ہوں، میں یہ خیال نہیں کرتا کہ میں اس میں خود کام کرنا چاہوں گا۔جب آپ پرفارمنس دیتے ہیں، خواہ یہ فلم یا گیت کی صورت میں ہو تو آپ اس قابل بننا چاہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ آپ نے کیا کیِا ہے۔آپ اپنی صلاحیتوں کو جانچنا چاہتے ہیں اور انہیں بہتر بنانا چاہتے ہیں۔آپ اپنی پرفارمنس کو کیسٹ یا ویڈیو پر ریکارڈ کئے بغیر ایسا نہیں کر سکتے۔یہ اَمر مجھے اُداس کرتا ہے کہ تمام عظیم اداکار جنہوں نے ایسے کردار کئے تھے جنہیں ہم دیکھ سکتے تھے لیکن وہ کھو گئے کیونکہ انہیں ریکارڈ نہیں کیا جا سکا یا سادہ الفاظ میں انہیں فلمایا نہیں گیا تھا۔
اگر میں نے کبھی سٹیج پر اداکاری کے جوہر دکھائے تو میں سٹیفنی کے ساتھ کام کرناچاہوں گا۔ اُس کی اداکاری اس قدر جاندار ہوتی تھی کہ یہ ممکن تھا کہ میں حاضرین کے سامنے رو دیتا۔ موٹون نے ’ ’دی وز‘ ‘کو کسی خاص وجہ سے خریدا تھا اور جہاں تک میں ادراک رکھتا تھا، اس کی یقینا بہترین وجہ ڈیانا روز ہی تھی۔
ڈیانا بیری گورڈی کے قریب تھی اور اُس کی موٹون اوربیری کے ساتھ گہری وابستگی تھی لیکن اُس نے ہمیں ایک دوسری کمپنی کے لئے گیت تخلیق کرنے کے باعث فراموش نہیں کیا تھا۔ ہم تمام تر تبدیلیوں کے باوجود ایک دوسرے سے رابطے میں رہے تھے اور حتیٰ کہ اُس نے ہمارے ساتھ لاس ویگاس میں ملاقات کی تھی اور ہمیں وہاں پرفارم کرنے کے بارے میں کچھ ہدایات دی تھیں۔ ڈیانا ڈوروتھی کا کردار ادا کرنے جا رہی تھی اور اُس وقت تک یہ واحد کردار تھا جسے بہرطور کاسٹ کیا گیا تھا۔ اُس نے میری حوصلہ افزائی کی کہ میں آڈیشن دوں۔ اُس نے مجھے باور کرایا کہ موٹون مجھے یا میرے خاندان کو اذیت دینے کے لئے اس ڈرامے میں حصہ لینے سے نہیں روکے گا۔
یہ بیری گورڈی تھا جس نے کہا کہ وہ پُرامید ہے کہ میں ’ ’دی وز‘ ‘کے لئے آڈیشن دوں۔ میں خوش قسمت تھا کہ اُس نے اس طرح سوچا تھا کیونکہ اس تجربے کے دوران مجھے اداکاری کا شوق ہوا۔ میں نے خودکلامی کی تھی، یہ وہی کام ہے جو میں موقع ملنے پر کرنا چاہتا تھا۔۔۔ یہ وہی موقع تھا۔ جب آپ فلم بناتے ہیں تو آپ کوئی مشکل چیز فلماتے ہیں اور آپ وقت کی گردش کے آگے بندھ باندھ رہے ہوتے ہیں۔ اداکار، اُن کی پرفارمنس، کہانی ایک ایسی چیز بن جاتی ہے جسے دنیا بھر میں لوگ نسل در نسل یاد رکھ سکتے ہیں۔ تصور کریں کہ کسی نے "Captian Courageous"یا "To Kill a Mocking Bird"نہیں دیکھی! فلمیں بنانا ایک دلچسپ کام ہے۔ ایک فلم کی تکمیل ٹیم کی اجتماعی کوششوں سے ممکن ہوتی ہے اور یہ ایک مستی بھری سرگرمی ہے۔جلد ہی کسی روز میرا اپنا بیش تر وقت فلمیں بنانے پر صرف کرنے کا ارادہ ہے۔
میں نے فلم کے کردار "Scarecrow"کے لئے آڈیشن دیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اُس کا کردار میرے انداز سے مطابقت رکھتا ہے۔ میری شخصیت "Tin Man"کے کردار سے زیادہ جارحانہ اور "Lion"کے کردار کے سے قدرے مدہم تھی چنانچہ میرا ایک مقصد متعین تھا اور میں نے اپنی سوچ کو کردار کے مکالموں اور ڈانس میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ مجھے جب ہدایت کار سڈنی لیمے کی طرف سے کال موصول ہوئی تو میں بہت خوش تھا لیکن کچھ ڈرا ہوا بھی تھا۔ میرے لئے فلم بنانے کا عمل نیا تھا اور میں خود پر اپنے خاندان اور موسیقی کے حوالے سے عائد ذمہ داریوں سے مہینوں کے لئے سبکدوش ہونے جا رہا تھا۔ میں ہارلم کے طرز زندگی کو محسوس کرنے کے لئے نیویارک گیا جہاں ہم شوٹنگ کر رہے تھے جس کا ذکر "وز"کی کہانی میں تھا۔ میں حیران تھا کہ میں کس قدر جلدی اس طرزِ زندگی کا عادی ہو گیا تھا۔ میں وہاں موجودسارے لوگوں کے ساتھ ملاقات کرکے لطف اندوز ہوا جن کا میں نے سمندر کے اُس پار ذکر سنا تھا لیکن اُن سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
میں نے’ ’ دی وِز‘ ‘کی تکمیل کے دوران کئی سطحوں پر بہت کچھ سیکھا تھا۔ میں پہلے سے ہی خود کو بحیثیت ریکارڈنگ آرٹسٹ ایک ماہر کھلاڑی تصور کرتا تھا لیکن میرے لئے فلمی دنیا قطعی طور پر نئی تھی۔ میں نے اسے قرب سے دیکھنے کی کوشش کی جتنا میں دیکھ سکتا تھا تاکہ حتیٰ الامکان سیکھ سکوں۔)جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -