شہاب الدین غوری نے سیالکوٹ اور جموں کے ہندو حکمرانوں  سے اتحاد کیوں کیا ؟

شہاب الدین غوری نے سیالکوٹ اور جموں کے ہندو حکمرانوں  سے اتحاد کیوں کیا ؟
شہاب الدین غوری نے سیالکوٹ اور جموں کے ہندو حکمرانوں  سے اتحاد کیوں کیا ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: پروفیسر عزیز الدین احمد
قسط:10 
ظاہر ہے شہاب الدین غوری کی اس سیاسی جدوجہد کو مذہبی جنگ کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ جنگ جیتنے کے لیے اس نے بھی اور آخری غزنوی حکمران نے بھی جن اتحادیوں کا چناﺅ کیا اس سے بھی اسی حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ خسرو ملک نے شہاب الدین غوری کے سیالکوٹ کے گورنر کا ناطقہ غیر مسلم گکھڑوں اور ہندوﺅں کے ساتھ مل کر بند کیا تھا۔ تو شہاب الدین غوری نے بھی سیالکوٹ اور جموں کے ہندو حکمرانوں چکر دیو اور وجے دیو سے اتحاد کیا۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ غوری کے ہندوستان پر حملے کے ارادے کے پس پشت مقصد کچھ اور تھا۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں شہاب الدین غوری بھی اور اس کا مدمقابل آخری غزنوی فرمانروا بھی مذہب و ملت سے بالاتر ہو کر فیصلے کر رہے تھے۔ بعد میں ترائن کی جنگ میں جب پرتھوی راج چوہان کی راجپوت فوج سے شہاب الدین غوری کا آمنا سامنا ہوا تو یہ محض اتفاق کی بات تھی کہ غوری کا مدمقابل ہندو تھا۔ اگر اس وقت دہلی کے تخت پر مسلمان حاکم براجمان ہوتا تو شہاب الدین غوری کی مال غنیمت اور کشور کشائی کی خواہش اسے اپنے ہی ہم مذہب کے ساتھ نبرد آزمائی پر مجبور کر دیتی۔ بات اصل میں یہ ہے کہ پنجاب فتح کرنے کا مطلب ہندوستان کے دروازے میں داخل ہونا تھا۔ فتوحات کا اگلا سلسلہ اس کے بعد ایک فطری اقدام تھا۔ پنجاب فتح ہی اس لیے کیا جاتا تھا کہ ہندوستان پر حملہ کیا جائے۔ 
محمد قاسم فرشتہ کے مطابق شہاب الدین غوری نے بنارس فتح کرنے کے بعدعمارتوں کو اس لیے مسمار کیا کہ مسلمانوں کے رہنے کے لیے مکان بنائے جا سکیں۔ ظاہر ہے یہ کارروائی بھی فروغ اسلام کے جذبے کا نتیجہ نہیں تھی۔ دراصل بادشاہ کے ہمراہ آنے والے فوجیوں کے لیے کواٹرز کی ضرورت تھی۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہندوﺅں کی عمارتوںمیں ضروری تبدیلیاں کر کے انہیں فوجیوں کی رہائش گاہ بنا دیا گیا تھا۔ شہاب الدین وسط ایشیا سے تعلق رکھتا تھا۔ اگر اس کا چچا علاﺅالدین جہاں سوز مسلمانوں کے شہر غزنی کو بمع اس کی مسجدوں اور مقابر کے 7 دن تک جلاتا رہا۔ تو فوجی ضروریات کی خاطر بنارس کو تباہ کرنے سے بھتیجے کو جھجھک کیسے محسوس ہو سکتی تھی۔ وسط ایشیا کے کلچر میں حملہ آوروں کیے لیے شہروں کو جلانا عمارتوں کو تباہ کرکے زمیں بوس کر دینا اور شہر کی آبادی کو تہہ تیغ کرنا معمول کی فوجی کارروائی سمجھی جاتی تھی۔ چنگیز خان سے لے کر بابر تک سبھی نے اس طرح کے کام سرانجام دئیے۔ بابر نے لاہور کو فتح کرنے کے بعد جب آگ لگائی تو اس بات کا کوئی خیال نہ رکھا کہ شہر میں مندروں کے ساتھ ساتھ بیسیوں مسجدیں بھی آباد ہیں۔ 
وسط ایشیائی حملہ آوروں کی ان کاروائیوں کے نتیجے میں لاکھوںبے گناہ انسان موت کے گھاٹ اتار دئیے جاتے تھے، آرٹ اور فن تعمیر کے بیش بہا نمونے تلف ہو جاتے تھے۔ وہ کتب خانے جن میں انسانی ذہن کی صدیوں کی کاوش کا ماحصل جمع تھا برباد ہو جاتے تھے، انسانوں کی بھلائی کے لیے تعمیر کی جانے والی شہری سہولتیں چشم زدن میں نذر آتش کر دی جاتی تھیں۔ اور صدیوں کی محنت و مشقت اور ذہانت سے بنائے گئے شہر کھنڈر بن جاتے تھے۔ وسط ایشیائی حملہ آوروں کی ان وحشیانہ کارروائیوں کا ایک واضح مقصد تھا جس کے حصول کے لیے وہ جس طرف سے گزرتے انسانوں کو اسی طرح روندتے چلے جاتے۔ دراصل یہ کارروائیاں نفسیاتی جنگ کا حربہ تھیں۔ ان کا مقصد حریف کو اتنا خوفزدہ کرنا تھا کہ وہ مقابلے کے بنا ءہتھیار ڈال دے اور حملہ آور کے مطالبات کے آگے سرتسلیم خم کردے۔ یہ جنگی طریقہ کار قطعی طور پرکتابوں میں موجود اسلامی تعلیمات کی نفی کرتا ہے جن کے مطابق نہ تو مخالفوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے اور نہ بے گناہ شہریوں کی جان و مال کو نقصان پہنچانے کی اجازت ہے۔ بلکہ کھڑی فصلوں اور درختوں تک کو جنگ کے دوران تباہ کرنے ممانعت کی گئی ہے۔ وسط ایشیا کے حملہ آور اکثر و بیشتر چند نسلیں پہلے مسلمان ہوئے تھے۔ اور ان کی سوچ پر وسط ایشیا ئی ثقافت کی گہری چھاپ لگی ہوئی تھی۔ اس لیے ان کا طرز جنگ وسط ایشیائی روایات کے مطابق تھا۔ ( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -