ارشد ندیم نے جیولین تھرو میں اولمپک گیمز میں پاکستان کے لئے گولڈ میڈل کیا جیتا ہر کسی نے اس کی غربت کا رونا رونا شروع کردیا ہے اور جتانا شروع کردیا ہے کہ اگر اسے حکومت کی سرپرستی حاصل ہوتی تو کیا خوب ہوتا؟ بھئی جو سرپرستی کے بغیر اتنا کچھ کر گزرا ہے اسے کسی سرپرستی کی کیا ضرورت ہے؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں کامیاب ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق ایسے ہی غریب گھرانوں سے رہا تھا، رہا ہے اور رہے گا۔ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے ماں باپ کے کاروبار، جائیدادیں اور وراثتیں تو ضرور سنبھالتے ہیں مگر ان سے کسی کارنامے کی توقع کم ہی ہوتی ہے۔
آپ زندگی کے کسی شعبے میں چلے جائیے، اس شعبے میں کامیاب ترین شخص کے پاس ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھ جائیے اور اس کی کامیابی کی داستان سنئے۔آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس نے انتہائی کسمپرسی میں جہد مسلسل کی ٹھانی اور پھر انہونی کرکے دکھا دی۔ ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کے لئے ہر ماہ راقم کو کسی نامور شخصیت کے ساتھ اسی طرح ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ گزارنے کا موقع ملتا ہے جس میں اس شخصیت کی زندگی کی کتھا اس کے بچپن سے لے کر زمانہ حال تک سنتا ہے اور ہر بار ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ معزز شخصیت کسی نوابزادے، کسی امیر زادے کی اولاد نہ تھی بلکہ عام سے گلی محلوں، دیہاتوں اور علاقوں سے تعلق رکھتی تھی مگر اس کے اندر جذبہ اور حوصلہ اسے کہیں سے کہیں لے گیا۔ اس لئے ارشد ندیم کی غربت کا ذکر کرکر کے ہم اپنی ماضی کی غربت کو تو تکریم بخش رہے ہیں مگر ارشد ندیم کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔
خود ارشد ندیم کہتا ہے کہ اس نے کرکٹ،ہاکی، فٹ بال اور کبڈی سمیت کئی ایک میدانوں میں مہارت حاصل کی مگر پھر اس کے کوچ نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے آپ کو جیولین تھرو کے لئے تیار کرے، کیونکہ اس کا قد کاٹھ اس کے لئے انتہائی موزوں ہے۔ یہ بھی ان سب نامور لوگوں کی کہانی ہے جو ابتدائے عشق میں کبھی اس گلی اور کبھی اس گلی کا طواف کرتے ہیں اور پھر ایک دن گوہر مقصود پالیتے ہیں یا پھر گوہر مقصود اسے پالیتا ہے۔ ایک پاکستان ہی کیا دنیا بھر میں جہاں بھی معجزے ہوئے ہیں، جہاں بھی کامیابی نے انسان کاقدم چوما ہے، وہاں پرغربت اور کسمپرسی لازمی جزو کے طور پر ساتھ ساتھ رہی ہے۔ اگر کمیابی نہ ہو تو کسی بھی شے کے ملنے کا سواد نہیں رہتا۔
اس لئے ضروری نہیں ہے کہ حکومت اتھلیٹوں کے لئے گراؤنڈ بنادے، ان کے لئے بھاری فنڈ مختص کردے تو ہم ہر روز ایک ارشد ندیم پیدا کر دیں گے۔ دیدہ ور تو بڑی مشکل سے پیدا ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ پڑتا ہے کہ سپورٹس کی دنیا میں نئے ریکارڈ بنتے ہیں، کوئی جیتتا ہے تو کوئی ہارتا ہے جس سے ایک دم سب کی توجہ اس طرف ہو جاتی ہے لیکن روز روز کا جیتنا بھی جیت کو غیر اہم بنادیتا ہے جس طرح جہانگیر خان کے کیس میں ہوا تھا اور جب اس نے ہارنا شروع کیا تو اسے سکوائش چھوڑنا پڑی۔ اس کے علاوہ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ حکومت نے اتنا سرمایہ کرکٹ کے گراؤنڈوں پر لگایا، کھلاڑیوں کو اس قدر نوازا اور جو حال کرکٹ کا ان دنوں ہوا پڑا ہے، اس کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ صرف سرمایہ کاری سے کھلاڑی پیدا کئے جا سکتے ہیں۔
ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم بابر اعظم کو عظیم کھلاڑی ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور جب بھی موقع ملتا ہے اس کی وہ گت بناتے ہیں کہ اللہ کی پناہ، ایسا کچھ ہی ہم سابقہ کرکٹ سٹارز کے بھی کرتے تھے اور وہ بیچارے کھیل چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پٹھانوں کے ٹرکوں پر فیلڈ مارشل ایوب خان کے بارے میں لکھا ہوتا ہے کہ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد، سچ پوچھئے تو ہم یہی کچھ کر رہے ہیں کہ جب تک کوئی کامیاب شخص ہمیں دستیاب ہوتا ہے ہم اسے جوتی برابر نہیں جانتے اور تنقید کے ایسے ایسے ڈونگرے برساتے ہیں کہ اللہ کی پناہ اور جب وہ چلاجاتا ہے تو پھر اس کے نوحے پڑھتے ہیں اور اس کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ منیر نیازی نے شہروالوں کا دکھ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی کہ شہر والوں کا دکھ یہ ہے کہ یہ شہر کے سب سے بڑے آدمی کو اپنے ہاتھوں سے مارتے ہیں اور پھر اس کے سرہانے بیٹھ کر آنسو بہاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی مشہور نظم
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
بھی ایسی ہی کتھا سناتی ہے۔
آپ ذرا چشم تصور وا کیجئے کہ اگر ارشد ندیم نے گولڈ میڈل نہ لیا ہوتا اور اس بار بھی بازی نیرج چوپڑا کے سر رہتی تو ہم نے بحیثیت قوم کس طرح آسمان سر پر اٹھا لینا تھا اور تنقید کے نشتر کہاں کہاں سے ڈھونڈ کر نہیں لانے تھے۔ تب ہمیں اس کی غربت پر ترس آنا تھا نہ اس کی کسمپرسی کا کوئی تذکرہ ہونا تھا، تب جس طرح ہم نے بابر اعظم کی درگت بنائی ہے اسی طرح ارشد ندیم کو نشانے پر رکھ لینا تھا اور دے نشانے پہ نشانہ لگانا شروع کردینا تھا۔
ہمیں اپنے رویوں کو تبدیل کرنا چاہئے اور اپنے بڑوں کی، کامیاب لوگوں کی قدر کرنی چاہئے کیونکہ وہ سب ارشد ندیم ہیں!