سب انتہائی خوفزدہ تھے کیونکہ گاؤں کی پرامن تاریخ میں یہ حقیقتاً پہلا قتل تھا،پولیس حسب روائت شام ڈھلے پہنچی، اور اپنے انداز سے تفتیش شروع کی

 سب انتہائی خوفزدہ تھے کیونکہ گاؤں کی پرامن تاریخ میں یہ حقیقتاً پہلا قتل ...
 سب انتہائی خوفزدہ تھے کیونکہ گاؤں کی پرامن تاریخ میں یہ حقیقتاً پہلا قتل تھا،پولیس حسب روائت شام ڈھلے پہنچی، اور اپنے انداز سے تفتیش شروع کی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:358
 لوگ جمع ہو گئے، سب ہی انتہائی خوفزدہ تھے کیونکہ گاؤں کی پرامن تاریخ میں یہ حقیقتاً پہلا قتل تھا جو اس کی اپنی حدود کے اندر ہوا۔ پولیس حسب روائت شام ڈھلے پہنچی، اور اپنے انداز سے تفتیش شروع کی، اس وقت وہاں کے چودھری بھی قانون کے سامنے بے بس ہوتے تھے اور پولیس بھی ابھی تک رشوت لے کر ملزموں کو بے گناہ قرار نہیں دیاکرتی تھی۔ نتیجتاً چودھری کو ٹوٹنے میں زیادہ وقت نہیں لگا اور اس نے سارے ڈرامے کا اعتراف کر لیا، گرفتار تو ہوا،لیکن ظاہر ہے غریب ملازم کے اہل خانہ کی مالی حیثیت ایسی نہیں تھی کہ وہ مقدمے کی مؤثر پیروی کر سکتے۔پھر اس لاچار بیوہ نے وہی کچھ کیا جو ہر غریب اور بے بس انسان کیا کرتا ہے۔ اس نے اپنا دکھ بھرا چہرہ اٹھا کر حسرت سے اوپردیکھا اور انصاف کے حصول کے لیے اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں منتقل کر دیا، ایسا کرنے سے ہو سکتا ہے کہ اس کے دل کو تو تھوڑا بہت سکون آ گیا ہو، تاہم پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے تو اب گھر میں کچھ بھی نہیں بچا تھا، چودھری نے چند پیشیاں بھگتائیں اور کچھ پیسہ خرچ کرکے باعزت بری ہو کر واپس آ گیا اور ایک بار پھراسی طرح گاؤں کی گلیوں میں گھومتا پھرا۔ تاہم اب اس کا سر قدرے جھکا رہتا تھا۔ مظلوم بیوہ کی دعائیں وقتی طور پر تو اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں، شاید اسی میں ہی خدا کی کوئی مصلحت تھی اور اس کے لیے وہاں کچھ اور ہی سوچا گیا تھا۔ سنا تھا کہ بعد میں وہ  ایک تکلیف دہ انجام سے دوچار ہوا تھا یہ دُکھ اس کے علاوہ تھا جو وہ ساری زندگی اپنے ضمیر پر لیے پھرا۔
غربت کے مارے خاندان کے دُکھ کی اس گھڑی میں میرے والدین آگے بڑھے اور ان کو اپنے گھر میں پناہ دی۔ غریب ملازم کی بیوہ نے ہمارے گھر کا کام سنبھالا، بدلے میں اسے سر چھپانے کی جگہ اور کھانا مل جاتا تھا۔ اس کی بڑی بیٹی ابھی پوری طرح کام بھی نہیں سیکھ پائی تھی کہ ماں بھی ان سب کو تنہا چھوڑ کر شوہر کے پیچھے ہی روانہ ہو گئی اس کو شاید وہاں بڑے منصف کی عدالت میں اپنے بے گناہ شوہر کے مقدمے میں پیش ہونے کا سمن آ گیا تھا۔
اس کے بعد یہ سلسلہ کچھ یوں چل نکلا کہ اس کی ایک دو بچیاں ہمارے گھر میں کام کرتیں اور جیسے ہی کچھ بڑی ہوتیں ان کی شادی کر دی جاتی اور ان کی جگہ لینے نئے بچے آ جاتے۔ یہ سلسلہ وسیع ہوا اور پھر اگلی نسل یعنی بڑی بیٹی کے بچے بھی ہمارے ہی گھر میں باری باری آتے گئے جن میں رمضان بھی تھا۔وہ ابھی چھوٹا ہی تھا کہ اس پر بھی گھر والوں کی بھاری ذمہ داریاں آن پڑی تھیں، وہ لوگوں کی بھیڑ بکریاں چراتا تھا۔ وہ اعلیٰ صبح گھروں سے لوگوں کے جانور لے کر غیر آباد کھیتوں اور نہر کی طرف نکل جاتا، سارا دن وہ اونچے درختوں سے پتے توڑنے والی ٹانگی اٹھائے سخت دھوپ میں ادھر ادھر دوڑا پھرتا۔ جب دھوپ کی حدت بڑھ جاتی تو وہ اپنا ریوڑ کسی بڑے برگد یا شیشم کے درخت تلے لے جاتا، وہیں بیٹھ کر روکھی سوکھی کھا لیتا اور قریبی نہر یا ٹوبے سے پانی پی لیتا تھا۔ جب شام ڈھل جاتی اور اندھیرا پھیلنے لگتا تو وہ کندھوں پر ایک دو نوزائیدہ میمنے اٹھائے اسی ترتیب سے لوگوں کے جانور واپس ان کے گھروں میں چھوڑ جاتا جس ترتیب سے وہ لے جایاکرتا تھا۔اس کام سے ظاہر ہے اسے کچھ آمدنی ہو جاتی تھی اور یوں وہ گھر والوں کا کچھ نہ کچھ ہاتھ بٹا دیتا تھا۔ پھر وہ بھی اپنی بہنوں کے ساتھ ہی ہمارے گھر آ گیا اور ڈھور ڈنگر وغیرہ سنبھالنے لگا۔
میں اس وقت سعودی عرب میں ہی تھا، جب ایک طویل مقدمے بازی کے بعد میرا گھر خالی ہوا تو میں نے رمضان کو اپنے گھر کی دیکھ بھال کے لیے لاہور بلا لیا۔اس وقت وہ کوئی اٹھارہ بیس برس کا نوجوان تھا اور اس کی مسیں ا بھی پوری طرح بھیگی نہیں تھیں۔ سارا گھر اس کے حوالے کر کے ہم اطمینان سے سعودی عرب میں بیٹھے تھے، کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ گھر اب محفوظ ہاتھوں میں ہے۔پھر اس کی شادی کی گئی اور اب یہ خاندان گزشتہ اٹھارہ برس سے ہمارے ساتھ ہی رہتا ہے اوروہ ہمارا اور گھر کا خیال رکھتے ہیں، ان کے بچے اب چوتھی نسل ہیں جو ہمارے گھرانے کے ساتھ منسلک ہیں۔ہم نے ان کو ہمیشہ اپنے خاندان کا حصہ ہی سمجھا ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -