درویش منش بیوروکریٹ

Aug 11, 2025

محسن گواریہ

 ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ جی ایم سکندر ہم میں نہیں رہے،ہنستا ہوا نورانی چہرہ لئے ہر خاص و عام کی غمی خوشی میں شریک ہونے والا اب اُس دیس جا بسا ہے،جہاں سے واپس کوئی نہیں آتا،راست گو اور عام آدمی کا احترام کرنے والے انسانوں اور خصوصی طور پر سرکاری افسروں کی آج کل بہت کمی ہے، جو چند بچ رہے تھے وہ بھی ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے ہیں، جی ایم سکندر کو مرحوم کہتے کلیجہ منہ کو  آتا ہے، مگر کیا کیا جائے ”فنا ہونا ہے سب کو اک نہ اک دن،یہاں پر کوئی لا فانی نہیں ہے،“مرحوم ایک فرد نہیں اپنی ذات میں انجمن تھے،وطن سے محبت،آئین سے لگاؤ ان کی گھٹی میں تھا اور سب سے بڑھ کر غریب اور عام آدمی سے الفت اور خدمت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا،بلا درجہ کے محنتی،وضع داری، خاطر داری اور تواضع ان کے گھر کی باندی تھی،وہ گل نہیں چمن تھے،اور ان کی وفات سے ”خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا“وہ چراغ نہیں آفتاب تھے،ایسا آفتاب جو خود تو حدت اور حرارت میں جلتا ہے، مگر بلا امتیاز مخلوق خدا کی خدمت میں جتا رہتا ہے، ان کی سروس کا دورانیہ جونیئر سرکاری افسروں کے لئے ہی نہیں سینئرز کے لئے بھی مشعل ِ راہ ہے، مجھے اس وقت بالکل حیرت نہ ہوتی جب ان سے ملنے والے افسر اور عام لوگ انکی محبت کے ایک جیسے گیت گاتے، ان کی وفات پر ضرور کوئی نوحہ کہے گا میں تو اتنا ہی کہہ سکتا ہوں ”اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی“۔وہ سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ پرنسپل سیکرٹری تھے تو میں ان دنوں لاہور پریس کلب کا صدر تھا،مجھے صحافی بھائیوں کے جائز کاموں کے سلسلے میں اکثر ان کے پاس جانا ہوتاتو مسکراتے ہوئے کھڑے ہو جاتے اور اپنے پاس بیٹھے وزراء اور ارکان اسمبلی سے کہتے مسٹر پریزیڈنٹ آ گئے ہیں، گلے ملتے اور رہا کام تو ان کی ڈکشنری میں جائز کام کے لئے ”نو“تھا ہی نہیں،میری غمی خوشی میں بھی ایسے شریک ہوتے جیسے میرے خاندان کے کوئی فرد تھے۔چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے پہلے دور کی کامیابی میں ان کا کلیدی رول تھا،اس وقت کے چیف سیکرٹری سلمان صدیق اورچیئرمین پی اینڈ ڈی سلمان غنی کے ساتھ مل کر انہوں نے عوامی خدمت کے جمہوری دور کو یاد گار بنا دیا،تینوں مل کر ہر محکمے اور ضلع کے لئے اچھے افسروں کا انتخاب کرتے اور پھر ان سے کام لیتے جس وجہ سے پنجاب نے مثالی ترقی اور عوامی خدمت کا ریکارڈ قائم کیا،چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ اور سپیکر شپ کے دوران بیوروکریسی بارے لکھے میرے اکثر کالمز پڑھتے،تبصرہ کرتے اور مجھے فون کرتے کہ ”میں وی ایس مسئلے تے چودھری صاحب نوں سمجھایا اے، تسی ٹھیک لکھیا اے“۔ 

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی شخصیت ہشت پہلو ہوتی ہے،جن کا اگر چہ ظاہر باطن ایک ہوتا ہے مگر ان کی شخصیت ایسی ہوتی ہے کہ ہر محفل میں نگینے کی طرح فٹ ہو جاتے ہیں،اپنی جگہ بنا لیتے ہیں، خدا کی مخلوق خصوصاً غریب لوگوں کے لئے باعث بہبودہوتے ہیں،بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی ستائش نہ کرنا بھی ایک قسم کا بخل ہے،میری زندگی کا تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیورو کریسی کے ساتھ گزرا ہے، خصوصاً پنجاب میں کام کرنے والی بیوروکریسی کے ساتھ،بدقسمتی سے بیوروکریسی کا امیج عوام کی نظروں میں کوئی خاص پسندیدہ نہیں ہے، لیکن ان میں جی ایم صاحب جیسے کچھ لوگ ضرور ایسے ہیں جن کی زندگیاں لوگوں کی مدد کرتے اور انہیں ریلیف مہیا کرتے گزرتی ہیں،یہی وجہ ہے وہ صرف غریب کے دل میں نہیں رہتے تھے،بلکہ حکمران طبقہ بھی ان کی پذیرائی کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔

جی ایم سکندر کو پنجاب کے لوگ اَسی کی دہائی سے جانتے ہیں،وہ ایک سادہ اور درویش منش انسان تھے جن میں بیورو کریسی میں عموماً پائے جانے والے کسی زعم کا کوئی وجود نہیں تھا، قارئین حیران ہوں گے کہ وہ کسی چپڑاسی اور چوکیدار سے بھی اسی طرح ملتے جیسے وہ چیف سیکرٹری سے ملتے تھے،فطرتاً سادہ لوح تھے جس کا اثر پوری فیملی پر نظر آتا ہے،اگر مصروفیت نہ ہوتی تو اپنے گھر آنے والوں کو ویلکم کہتے اور گھر سے جانے والوں کو باقاعدہ باہر جا کر خدا حافظ کہتے،اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص کرم یہ رہا کہ وہ ہمہ وقت غریب اور لاوارث لوگوں کی مدد کرنے میں لگے رہتے،انہیں ایسے لوگوں کی مدد کر کے یک گونہ سکون ملتا تھا، ان کی ہمہ گیر شخصیت کا اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ انہوں نے پنجاب کے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک طویل عرصہ گزارا اور مختلف مزاج کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ کام کیا،جب نواز شریف وزیراعلیٰ تھے تو سکندر صاحب نے بطور ایڈیشنل سیکرٹری ان کے ساتھ کام کیا، نواز شریف ایک بہت کھلے دِل کے انسان تھے خصوصاً جب خرچ ہونے والے فنڈز سرکار کے خزانے سے جا رہے ہوں، نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد پنجاب غلام حیدر وائیں کے حوالے کر دیا گیا تھا جو کہ بند مٹھی والے وزیراعلیٰ تھے لیکن سکندر صاحب لوگوں کے کام ان سے بھی نکلوالیتے تھے۔وزیراعلیٰ ہاؤس پوسٹنگ کے دوران ایک پرابلم غریب عوام کو یہ تھی کہ وہ ان تک پہنچ نہیں سکتے تھے کیونکہ انہیں وزیراعلیٰ ہاؤس کوئی گھسنے نہیں دیتا تھا،لیکن سکندر صاحب نے اس کا حل نکال لیا تھا، اور وہ یہ کہ دفتر جانے سے پہلے وہ غریبوں کو اپنی کوٹھی میں ہی مل لیتے تھے،وہیں انہوں نے ان کے بیٹھنے کا بندوبست کر لیا تھا، جہاں سے انہیں لیٹرز اور ڈائریکٹو مل جاتے تھے، لیکن اس پر بھی ہمارے کچھ صاحب لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی، ایک سیکرٹری صاحب جو ان کے گھر کے سامنے رہتے تھے،وہ عوام کی یوں ہر وقت آمد و رفت سے بہت نالاں رہتے، کہتے تھے جی ایم سکندر نے جی او آر ون کا ماحول ہی خراب کرکے رکھ دیا ہے، لیکن جی ایم سکندر کا یہ چشمہ فیض ہمیشہ جاری رہا،وہ ان لوگوں کے حالات سے آگاہی بھی رکھتے تھے جنہیں ان کی مدد کی ضرورت ہوتی تھی،اور وہ اپنی مدد انہیں پہنچاتے رہتے لیکن ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے، میرے خیال میں سول بیوروکریسی کے نوجوان افسروں کو جی ایم سکندر کی شخصیت ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے رکھنی چاہئے جنہیں غریبوں کو گلے ملنے سے کوئی کوفت نہیں ہوتی تھی اور وہ ان کی مدد کے لیے کبھی کسی کو فون کر رہے ہوتے اور کبھی کسی کو، موجودہ دور کے افسروں میں کوئی جی ایم سکندر نظر نہیں آتا،جی ایم سکندر صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی لوگوں کی مدد کے لئے ہر وقت تیار ہوتے، وہ اپنے ملنے والوں یا ان کے لواحقین کی فوتگی کی صورت میں ان کے جنازوں میں بڑی باقاعدگی سے اور بر وقت پہنچتے یہی وجہ ہے کہ ان کے جنازہ میں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی،ان کی زندگی کا سفر انتہائی شاندار گزرا،اللہ کی رحمت سے ان کا سفر آخرت بھی غیر معمولی ہو گا۔”حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا“۔

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں