حکومت شہریوں کا تحفظ یقینی بنائے....!
موجودہ ملکی حالات سے کوئی بھی چشم پوشی نہیں کر سکتا۔ کراچی ، پشاور اور کوئٹہ کے بعد اب بدامنی کی فضاءلاہور میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے اورآئے روز ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خور ی جیسے سنگین جرائم کے واقعات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔لوگ ابھی راولپنڈی کے دل گرفتہ واقعہ کو نہیں بھلا پائے تھے، جہا ں شرپسندوں نے امن و امان کی دھجیاں اڑا دیں اور انسانیت کا قتل عام کیا، جس کے بعد تین روز تک کرفیو نافذرہا۔میرا شعور ا اس قسم کے سوالات کی دلدل سے ابھی باہر نہیں آیا تھا کہ یہ حشر سا سماں کس نے پیدا کیا تھا ؟ انتظامیہ کیوں خاموش تماشائی بنی رہی ؟ کیا ذمہ داران کو سزامل گئی ؟وغیرہ وغیرہ۔ لاہور میں بھی خون کی ہولی کھیلی گئی اور ایک بار پھر مذہبی رہنماﺅں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ایک جید عالم دین کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔اس دل گیر واقعہ کے بعد پورے شہر میں ہو کا عالم چھا گیا۔میرے سوالات دھرے کے دھرے رہ گئے کہ ایک اور معمہ سامنے آ گیا۔
مشہور مقولہ ہے کہ ایک عالم کی موت پورے عالم کی موت کے مترادف ہے۔بھلا ایک امام کی کسی سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ جو اسلام وبھائی چارے کا درس دیتا ہے اور ملک کی سلامتی کے لئے آ ہ و زاری کرتا ہے ۔جو عوام کو اسلام جیسے عظیم مذہب کی طر ف راغب کرتا ہے،یہ کیسا المیہ ہے کہ لوگ امن و سلامتی کے داعیوں کے بھی دشمن بن گئے ہیں۔مجھے فیض کا ایک شعر یا د آ گیا جو شاید اس واقعہ کی عکاسی کر سکے:
نثار مَیں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کہ چلے
ایک طرف تو ٹارگٹ کلنگ جیسے دل ہلا دینے والے واقعات نے ذہنوں کو ماﺅف کر رکھا ہے ،جہاں جس کو چاہے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے تو دوسری جانب شہر میں بڑھتی ہوئی لوٹ مار اور ڈکیتوں کی وارداتوں نے بھی شہریوںکا جینا حرام کر رکھا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم کسی جنگل میں رہتے ہیں، جہاں کسی قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی۔گزشتہ دنوں ایک محنت کش نوجوان کاشف شادباغ میں اپنی روزی کمانے اور دکانداوں سے ریکوری کرنے میں مصروف تھا کہ دو مسلح افراد اسلحہ کے زور پر دن دہاڑے اس نوجوان سے تین لاکھ کی نقدی لے اڑے۔ وہ پریشانی کے عالم میں پولیس سٹیشن پہنچا ، خاصی حیل وحجت کے بعد اللہ اللہ کر کے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ سوالات تو بہت ہیں کہ دن دہاڑے وہ مسلح افراد کیسے قانون کی گرفت سے فرار ہو گئے؟ شہر میں تو کتنے مقدمے ایسے ہوں گے جو درج نہیں ہو پاتے ہوں گے، ان کی پیروی کون کرے گا ؟ مجرم کیسے پکڑے جائیں ؟ ہم کب تک اس قسم کے ظلم سہتے رہیں گے ؟ شاعر نے کہا تھا کہ” ظلم سہنے سے حالات نہیں بدلیں گے“.... یقیناحکومت کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
ایک بات جو انسانی عقل و فہم سے بالا تر ہے کہ یہ لوگ کیسے قانون سے بالا تر ہوتے ہیں؟ جب بھی ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا ہے تو انتظامیہ بجائے کوئی کارروائی کرنے کے خاموش تماشائی بن جاتی ہے۔مجر موں کی بازپرس تو درکنار ان کی گرفت میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، واللہ اَعلم مجرموں کو زمین کھا جاتی یا آسمان نگل جاتا ہے؟ متاثرین کے حصے میں صرف تسلیاں اور دلاسے ہی آتے ہیں۔یہ کوئی ایک واردات نہیں کہ انسان خاموشی اختیار کر لے ،اگر ملکی تاریخ میں اس قسم کی وارداتو ںپر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو شاذو نادر ہی کوئی ایسا کیس ہوگا ،جس سے متاثرہ افراد مطمئن نظر آ سکیں،ورنہ اکثریت نالاں ہی دکھائی دیتی ہے، جس کی وجہ سے مجر م کی گرفت کا نہ ہونااور پاداش میں کوتاہی کرنا،جس سے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے، جبکہ مجرم شہ پا کربا حوصلہ ہو جاتاہے ۔
ملک میں قانون پر عمل درآمد کا تو یہ حال ہے کہ جس کا جو جی چاہتا ہے ،وہ کر گزرتا ہے ، کسی کو کسی کا کوئی خوف نہیں۔ تو پھر انسا ن پریشانی کے عالم میں یہی سوچتا ہے کہ ایسی انتظامیہ کا کیا فائدہ جو ملک کے نظم و نسق کو ہی نہ چلا سکے ؟....سوچا جائے تو بہت سے سوالات انسان کے ذہن میں جنم لیتے ہیں ۔ اتنی مصروف شاہراہ پر جب دن دہاڑے علامہ شمس الرحمن پر گولیاں چلائی گئیں تو مسلح افراد کیسے فرار ہو گئے ؟ سیکیورٹی کی یہ حالات ہوگی تو دوسرے علاقوں میں انسان خود تصور کر سکتا ہے ۔یہ ہمارے لئے سوچنے کا لمحہ ہے مَیں سمجھتا ہوں حکومت اور انتظامیہ کو اس واقعہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لے کر مکمل تحقیقات کروانی چاہیے اور عملی طور پر اقدامات کرنا ہوں گے ۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات میں روزبروز تیزی دیکھنے کو نظر آ رہی ہے، جو باعث تشویش ہے ۔ اہل سنت والجماعت کے جید عالم کی شہادت انتظا میہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے جو ایک سنجیدہ مسئلہ بھی ہے، جس سے نظریں نہیں پھیری جا سکتیں ۔ جو شاید ایک فرقہ وارانہ واردات کی بھی کڑی ہو سکتی ہے ۔ اس قسم کے واقعات کو اگر نہ روکا گیا توخدانخواستہ اس سے مذہبی انتشار جنم لے سکتا ہے، جس کے نتائج سے سب بخوبی واقف ہیں۔ ملک میں پہلے ہی آگ کے شعلے اٹھ رہے ہیں، ہم مزید کسی بدامنی کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ حکومت کو اپنے انتظامی امور اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا ،ان واقعات کاسنجیدگی سے نوٹس لینا، اور مجرموں کو عبرت نشانہ بنانا ہوگا،تاکہ یہاں امن و امان کا بول بالا ہو سکے ۔
کوئی تو جھو نکا ہوا کا مزاج بدلے گا
خدا نے چاہا تو اک دن سماج بدلے گا