بجلی کا پاکستانی شعبہ اب پستی کی بجائے بلندی کی طرف گامزن ہے
ہم نے عالمیسطح کی رپورٹوں میں پاکستان کے بجلی کے شعبہ سے متعلق درج ذیل تبصرے آخری مرتبہ کب پڑھے تھے ؟تاریخ میں کبھی بھی نہیں ۔’’ پروگرام کے آغاز سے بجلی کے اندھیرے کم ہو گئے ہیں بجلی کی تقسیم کے دوران ہونے والے نقصانات میں کمی آ گئی ہے ۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگیوں کی رقوم کی شرحوں میں اضافہ ہو گیا جبکہ بجلی پر دی جانے والی زر اعانت بھی کم کر دی گئی ہے ۔ ’’ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی بہتر کارکردگی اور تیل کی قیمتیں ساز گار رہیں جس سے بجلی کے بڑھتے ہوئے بقایاجات پر قابو پانے میں بڑی مدد ملی ہے بجلی کے شعبہ میں مارچ 2011ء کے آخر تک کے ہدف کا اشاریہ بڑے مارجن سے پورا کر لیا گیا ۔حکام نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دی جو بڑی خوش آئند بات ہے ۔ خصوصی رپورٹوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بجلی کی جمع کی جانے والی رقومات میں بے مثال اضافہ ہوا جو 88فیصد سے بڑھ کر 94فیصد ہو گیا اور گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران نقصانات 19فیصد سے کم ہو کر 17.9فیصد رہے ۔ سورس بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف توسیعی انتظام کے تحت 11واں جائزہ)
ہم سب جانتے ہیں کہ جب کوئی ملک اپنی کارکردگی کے بارے میں کوئی دعوی کرے تو بین الاقوامی ادارے اس دعوی کو تسلیم کرنے میں بڑی احتیاط کرتے ہیں اور انہوں نے ہماری اس کارکردگی کو متعدد سہ ماہی کارکردگی رپورٹوں کاتفصیلی جائزہ لینے کے بعد تسلیم کیا ہے۔اب بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بجلی کا شعبہ بد ترین مالی بحران سے نجات پا چکا ہے جو قومی بجٹ کو 200ارب سالانہ نقصان پہنچا رہا تھا تاہم اب یہ سالانہ نقصان 8ارب ہے جو معمولی ہے ۔ اگر ہم اس نقصان کا قومی خزانے پر اثرات کے حوالہ سے جائزہ لیں تو بجلی کے شعبہ کی کارکردگی میں بہت بہتری کے باعث گذشتہ دو سال کے دوران 400ارب کی بچت ہوئی ہے۔ بجلی کے شعبہ کے آپریشنز کی طرف آئیں تو چند سال قبل گھریلو اور صنعتی شعبہ کے لئے 12سے لیکر 15گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ معمول تھا بلکہ اکثر اوقات لوڈشیڈنگ غیر اعلانیہ بھی ہوتی تھی ۔ اب حال ہی میں حکومت نے نومبر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے نئے شیڈول کا اعلان کیا ہے جس کے تحت اب صنعتی شعبہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ شہری علاقوں میں 3گھنٹے اور دیہی علاقوں میں 4گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا اعلان کیا گیا ہے ۔ تاہم لوڈشیڈنگ کا یہ شیڈول بجلی کے بلوں کی کم ادائیگیوں اور بجلی کی زیادہ چوری والے علاقوں کے لئے نہیں ہو گا ۔2007ء سے لے کر 2014ء تک کے دورانیہ میں صرف ماہانہ جی ہاں صرف ایک ماہ میں 10سے لے کر 18ارب روپے ماہانہ گردشی قرضہ بڑھتا رہا جس کی بناء پر 2014ء تک پاکستان میں کوئی بھی سرمایہ کار اور بینکرز پاکستان میں بجلی کے شعبہ کے لئے رقوم دینے پر آمادہ نہیں تھا ۔ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں انتھک کوششوں اور محنت کے بعد وصولیوں کو بہتر بنایا گیا اور بجلی کی تیاری کے پلانٹس میں ہونے والے نقصانات کا سلسلہ بند کیا گیا اور مینجمنٹ کو بہتر بنایا گیا۔ اس طرح گردشی قرضہ کے مسئلہ کو بھی حل کر لیا گیا اس ضمن میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے بھی مدد ملی جس کے نتیجہ میں اکتوبر 2014 کے بعد سے گردشی قرضہ میں اضافہ رک گیا ہے ۔اسی لئے ’’ الحمداللہ‘‘ اب مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی بھر مار ہے جو ہمارے گرڈپر سرمایہ کاری کا موقع حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں۔ صرف ایک سال کے دوران یعنی 2015ء میں نجی شعبہ میں 12000میگا واٹس بجلی پید اکرنے کے پاور پراجیکٹ لگائے گئے جبکہ اس کے برعکس 1994ء سے لے کر 2013ء تک کے دورانیہ میں آئی پی پیز کی پوری 20سالہ تاریخ میں نجی شعبہ میں 8756میگا واٹس بجلی پیدا کی گئی تھی ۔
مذکورہ بالا حقائق سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وزارت بجلی اپنے بجلی بارے تمام اداروں کی بہتر اور موثر نگرانی کرنے میں کامیاب رہی جس سے بجلی کے شعبہ کے نقصانات کم کرنے میں بڑی مدد ملی تاہم کامیابی کے اس سلسلہ کو برقرار رکھنے کے لئے کڑی نگرانی کا نظام پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ برقرار رکھنے کی ضرورت ہو گی کیونکہ نظام میں نئی پیدا ہونے والی بجلی آنے کا عمل بھی تیز ہو گا۔اس کے علاوہ بجلی کے نرخوں اور پیداواری لاگت کو بھی معقول بنانے کی ضرورت ہے ۔ بجلی کے نرخوں میں مصنوعی طور پر کمی لانے سے کئی عشروں کی خرابی کے بعد حاصل کیا گیا استحکام دوبارہ خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس سے ہمیں بجلی کے شعبہ کی بہتر مالی کارکردگی اور لوڈشیڈنگ میں کمی کا پتہ چلتا ہے تاہم جیسا کہ دعوی کیا جا رہا ہے اس کے مطابق بجلی کی لوڈشیڈنگ بالکل ختم کس طرح کی جا سکتی ہے؟ ہم کچھ تجزیہ کاروں کے پریشان کر دینے والے تبصرے بھی پڑھتے ہیں جن کا کہناہے کہ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کی دستیاب استعداد لوڈشیڈنگ کے خاتمہ میں معاون نہیں ہے ۔ جبکہ وہ بعض دیگر بجلی کی تیاری کے نئے پراجیکٹس کی تکمیل کی متوقع مدت کے بارے میں بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ ان خیالات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا خصوصاً اس وقت جب ان تجزیہ کاروں کو ریگولیٹری ادارں کی طرف سے جاری رپورٹس سے بھی اس قسم کے تجزیوں میں مدد ملتی ہو جو پرانے اعداد و شمار پر مبنی ہوتی ہیں اور یہ اعدادو شمار ان کی نظر میں آ جاتے ہیں۔ بجلی کے شعبہ کے تجزیہ کاروں کی توجہ پاتی ہیں ۔
بجلی کے شعبہ کے پراجیکٹس کی اس بڑے پیمانے پرانڈرٹیکنگ میں حتمی ٹائم لائن میں تبدیلیاں ہمیشہ ممکن ہوتی ہیں 2017-18کے لئے متوقع تیار شدہ بجلی کے مقابلہ میں 7000سے لے کر 8000میگاواٹ تک کے شارٹ فال کا اندازہ لگایا گیا ہے جبکہ 2018ء کے گرمائی سیزن سے قبل اضافی حاصل ہونے والی پیداوار 10996 میگاواٹ ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مارچ 2018ء میں بجلی کی دستیابی میں خاطر خواہ کمی اور متوقع طور پر تاخیر کا شکار ہونے والے کوئی پراجیکٹس ہیں؟ اس کا صاف صاف جواب یہ ہو گا کہ کسی بھی پراجیکٹ میں فنی خرابی یا غیر متوقع ٹیکنیکل مسائل سے ایسی صورتحال پیدا ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا ۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو کیونکہ اس صورت میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ خطرے میں پڑ جائے گا تاہم ابھی مفروضی طور پر تکنیکی مسائل بارے بات کرنا دور کی کوڑی لانا ہے ۔ 2018ء کے بعد آنے والے برسوں کے لئے بھی بجلی کی تیاری کے منصوبے ہیں اس وقت 30837میگا واٹ بجلی کی تیاری کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے جو کہ سال 2022ء تک مکمل ہو جائیں گے ان میں10997میگاواٹس بجلی تیاری کی استعداد والے منصوبے شامل ہیں جو کہ مارچ 2018ء تک مکمل ہونے کی توقع ہے تاہم ان پراجیکٹس میں دیا میر ، بھاشا ڈیم اور اس قسم کے وہ منصوبے شامل نہیں ہیں جن پر جلد ہی کام شروع ہونے کی توقع ہے ۔ان نئے منصوبوں کے لئے سی پیک کے توانائی والے منصوبوں میں سے مطلوبہ فنڈز مل جائیں گے جن سے کوئلے خاص طور پر تھر کول ذخیرہ سے بجلی بنانے کے لئے مالی وسائل کا مسئلہ حل ہو گیا ہے جوپاکستان بجلی کی مہنگی تیاری کے متبادل اور توانائی کی سیکورٹی کو بہتر بنانے کے لئے لینا چاہتا تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بجلی کی تقسیم اور ترسیل کا کمزور اور ناقابل اعتماد نظام کئی مشکلات اور رکاوٹوں کا حامل ہے جو نئی تیار ہونے والی بجلی کی کامیابی سے گرڈ میں شمولیت کے لئے بڑا چیلنج ہے ۔ وزارت پانی و بجلی میں چلائے جانے والے سمیولیشن سے پتہ چلا کہ 2013ء کے جاری و ساری نظام میں نئی پیدا ہونے والی بجلی کی ترسیل کا کوئی چانس نہیں ہے یہ نظام 15000سے لے کر 16000میگاواٹس سے زائد بجلی کی ترسیل نہیں کر سکتا ۔2018ء میں25000میگاواٹ سے زائد بجلی تیار ہونے کی توقع ہے۔ این ٹی ڈی سی کے 500کلو واٹ ایمپیئر میں 38فیصد کی گنجائش ہے اور 220کلو واٹ ایمپیئرکے ٹرانسمیشن نیٹ ورک میں 29فیصد کی حد ہے۔ اسی طرح کی پریشان کن صورتحال ڈسکوز کی تقسیم کے نظام میں درپیش ہے ۔ آئسیکو کے علاقوں میں بجلی کی تقسیم کی گنجائش 30فیصد ، پیسکو میں 48فیصد ،گیسکواور میپکو میں 33فیصد سیبکو میں 80فیصد حسکو میں 42فیصد اور کیسکو میں38فیصد ہے ۔ بہت سے علاقوں میں بجلی تقسیم کی یہ حد یا گنجائش لوڈشیڈنگ کے باعث2013-14میں متاثر نہیں ہوئی تاہم اضافی بجلی کی تقسیم کرنے کی کوشش میں ہائرٹرانسمیشن کا یہ مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ ملک کے تمام علاقوں میں بجلی کے ترسیلی و تقسیم کے نظام پر یکسوئی سے کام جاری ہے جس کی وجہ سے 2014ء سے ان رکاؤٹوں کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش 2016ء کی گرمیوں تک بڑھ گئی تھی ۔ بجلی کی یہ پیداوار ملک بھر میں ترسیل کی گئی اور کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا تاہم نظام میں توسیع پر کام کی رفتار تیز کر دی گئی ہے تاکہ اضافی پیداواری بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام میں گنجائش بڑھائی جا سکے توقع ہے کہ یہ کام2017ء کے آخر تک مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ 2018ء میں نظام میں گنجائش90فیصد سے زائد ہو جائے گی ۔نومبر2014ء سے ملک بھر میں سوائے ماہ رمضان کے صنعتی شعبہ کے لئے لوڈشیڈنگ ختم کر دی گئی تھی۔جس سے 2015-16کے دوران ملک میں مجموعی قومی پیداوار بڑھانے میں بڑی مدد ملی جبکہ لوڈشیڈنگ میں کمی سے عام آدمی کی مشکلات بھی کچھ حد تک کم ہوئی ہیں ۔
ہمیں آئندہ آنے والے اٹھارہ ماہ کے دوران ہمہ وقت کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی قوم لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کو یقینی طور پردیکھ سکے اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ 2018ء کی گرمیوں سے قبل بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بجلی بند ہونے کے معیشت اور عوام کی زندگیوں پر پڑنے والے مضر اثرات کا خاتمہ کردیں گے ۔بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور نظام میں گنجائش کی رکاوٹ ختم ہونے سے ملک میں بجلی بند ہونے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا مستقبل کے سرمایہ کاروں کو بجلی کی تیاری سے لے کر بجلی کی تقسیم کے تمام شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہو گی وزارت پانی و بجلی نے لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے منصوبہ کے لئے 2018ء کے بعد بھی کام جاری رکھنے کا عزم کر رکھا ہے تاکہ بجلی کا پورا سیٹ اپ جدید ، مستعد اور یکسو نظام بن جائے جس کا مقصد ملک میں توانائی کی سیکورٹی کو بڑھانا ہے ۔