سٹریٹ فائٹر،نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ دوسری قسط

سٹریٹ فائٹر،نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ دوسری قسط
سٹریٹ فائٹر،نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ دوسری قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر۔شاہدنذیرچودھری

وسیم اکرم جب تک ماڈل ٹاؤن میں مقیم رہا تھا اس نے کرکٹ کو چھوا بھی نہ تھا۔ والدین اس پر کڑی نگاہ رکھتے تھے لیکن مزنگ کی گلیوں میں قدم رکھتے ہی کرکٹ کا سودا اس پر سوار ہو گیا البتہ جب کبھی اسے ماڈل ٹاؤن میں اپنے والدین کے پاس جانے کا اتفاق ہوتا۔ اس کی کرکٹ پر پہرے بٹھا دئیے جاتے اور وہ صرف ان ڈور کھیلوں تک محدود رہ جاتا۔ گھر میں بہن بھائیوں کے ساتھ ٹیبل ٹینس کھیلتا یا کبوتر اڑاتا۔ اس کے یہ دونوں کھیل اور شوق بعد میں اس کی پیشہ ورانہ کرکٹ میں بہت مددگار ثابت ہوئے۔کبوتر اڑانے والوں کی نظر بہت تیز ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وسیم اکرم میں بیٹسمین کے ارادوں کو فوراً بھانپ لینے کی صلاحیت پیدا ہو گئی اور وہ اپنا ہدف قائم کرکے باؤلنگ کراتا۔
وسیم اسکول میں تو بہترین کرکٹر مشہور تھا مگر کالج جاتے ہی اس کی کرکٹ پر زوال آگیا۔ اس نے اسلامیہ کالج سول لائن میں شعبہ آرٹ میں داخلہ لیا تو اس کے ارادے بہت بلند تھے۔ اس کا خیال تھا کہ باؤلنگ اور بیٹنگ کی وجہ سے اسے کالج ٹیم میں شامل کرلیا گیا تو اس کی منزل بہت آسان ہو جائے گی مگر کوششوں کے باوجود کرکٹ ٹیم میں جگہ نہ بنا سکا۔ایک روز اس نے کالج ٹیم کے کپتان زاہد خاں سے یہ کہا کہ کم از کم اس کا ٹرائل ہی لے لیا جائے مگر اس نے کہا:
’’وسیم!میں نے سنا ہے کہ تم ایک بہترین آل راؤنڈر ہو مگر افسوس کہ ہماری ٹیم مکمل ہے۔اب نئے لڑکے کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔اگر تم انتظار کر سکتے ہو تو ایک سال کے بعد تمہیں ٹیم میں شامل کرلیا جائے گا‘‘۔
کپتان کے اس جواب نے وسیم اکرم کو بہت مایوس کیا۔ اتفاق دیکھئے کہ کالج کے عام نمائشی میچوں میں وسیم اکرم کو کھیلنے کا موقع ملا تو سارا کالج اور اساتذہ اس کی باؤلنگ دیکھ کر حیران رہ گئے۔اس کی مخالف ٹیم میں سینئر کھلاڑی شامل تھے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی اس کے آگے نہ ٹھہر سکا تو انہوں نے وسیم اکرم کے باؤلنگ ایکشن پر اعتراضات شروع کر دئیے اور کہا کہ یہ لڑکا باؤلنگ کی تکنیک نہیں جانتا، صرف اپنی طاقت کے زور پر گیند پھینکنے کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اس دور میں کالج ٹیم کے تمام سینئرکھلاڑی اپنے تئیں خود کو بڑا طرم خاں سمجھتے تھے مگر ان میں سے کوئی ایک بھی قومی ٹیم تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔ ایک وسیم اکرم کی ہی قسمت تھی جو اپنے کالج کا نام روشن کرنے کا باعث بن گیا۔ ان دونوں اس کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا جس پر کھڑے ہو کر اپنا کھیل کیش کراسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ جب وہ بے وسیلہ بندوں پر اپنی رحمت برساتا ہے تو ساری دنیا ان بندوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔وسیم اکرم کی قسمت میں بھی ناموری لکھی تھی اور قدرت اسے ایک سیلف میڈ کرکٹر کی حیثیت سے آگے لانا چاہتی تھی۔ ابھی کالج میں اس کا پہلا سال تھا جب لاہور میں ایک ٹریننگ کیمپ کا چرچا ہونے لگا تو وسیم اکرم بھی گھر والوں سے چوری چھپے ٹرائل دینے چلا گیا۔ وہ کیمپ کے منتظمین کو ہر گز متاثر نہ کر سکا۔ اگرچہ اس نے باؤلنگ اور بیٹنگ میں نہایت جارحانہ انداز اپنایا تھا مگراس کا کھیل دوسرے نوجوان کھلاڑیوں سے بہتر نہ تھا۔
وسیم اکرم ٹرائل میں ناکام ہو کر نہایت مایوسی کی حالت میں واپس جارہاتھا جب ایک شخص نے اسے آواز دے کر روک لیا۔ وہ اس شخص کو بالکل نہیں جانتا تھا مگر اس نے اس نوجوان کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کی اور کہا:
’’میرا نام خالد محمود ہے لڑکے!مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ۔مجھے یقین ہے کہ تم ایک دن بہت بڑے کرکٹر بن جاؤں گے بشرطیکہ۔۔۔محنت کرو۔‘‘
16سالہ وسیم اکرم نے سمجھا یہ شخص اس سے مذاق کررہا ہے مگرخالد محمود نے اپنی بات مکمل کرنے سے پہلے پوچھا ’’تم کس کلب کی طرف سے کھیلتے ہو‘‘۔
’’میرا کوئی کلب نہیں‘‘وسیم اکرم نے سچائی سے کام لیا۔’’میں تو اپنے اسکول میں کھیلتا تھا۔ میرا کلب مزنگ کی گلیوں میں کھیلنے والے لڑکوں پر مشتمل ہے‘‘۔
’’گویا تم سٹریٹ فائٹر ہو‘‘۔خالد محمود نے ہنستے ہوئے کہا۔’’یہ انہی گلیوں کا کمال ہے کہ تمہارا باؤلنگ ایکشن سب سے انوکھا ہے‘‘۔
’’لوگ کہتے ہیں میں بہت زیادہ وکٹیں لیتا ہوں مگر سینئر کہتے ہیں میرا باؤلنگ ایکشن ہی غلط ہے‘‘۔

پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
’’تمہارے سینئر حاسد ہیں اور جاہل ہیں۔انہوں نے صرف نصابی کرکٹ کی تعلیم حاصل کی ہے۔انہیں کیا معلوم کہ تمہاری باؤلنگ میں کیا چیز چھپی ہوئی ہے‘‘۔
خالد محمود نے دبلے پتلے وسیم اکرم کا تنقیدی جائزہ لیا اور انکشاف کیا۔’’لڑکے!تمہاری باؤلنگ کا انداز ایک چیتے کی مانند ہے۔تمہیں شاید معلوم نہیں کہ جس تیزی کے ساتھ چیتا اپنے شکار پر جھپٹتا ہے تم بھی ایسے ہی باؤلنگ کراتے ہو‘‘۔
وسیم اکرم یہ انوکھی بات سن کر خود ہی شرمسار سا ہو گیا اور بولا:
’’نہیں سر مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں‘‘۔مگر یہ اس کی بھول تھی۔ جب کرکٹ کے ماہرین نے اس گوہر نایاب کے کھیل کا جائزہ لیا تو خود وسیم اکرم پر یہ بھید کھلا کہ خالد محمود نے سچ ہی کہا تھا کیونکہ مزنگ کی گلیوں میں کی جانے والی پریکٹس نے اسے بہترین اوصاف اور انفرادیت سے بہرہ مند کیا تھا۔ انگلیوں میں کرکٹ کھیلنے والوں کو مختصر رن اپ لینا پڑتا ہے اور انہیں اچھل کر گیند پھینکنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی۔چونکہ وسیم اکرم نے بچپن سے سٹریٹ فائٹر بن کر کرکٹ کھیلی تھی لہٰذا وہ کم رن اپ اور جمپ کے بغیر تیز رفتار گیندیں کرانے میں کمال حاصل کرگیا۔ آپ نے دیکھا ہو گا باؤلنگ کراتے وقت اس کا جسم بڑی تیزی کے ساتھ سکڑ جاتا ہے،جبکہ عام باؤلنگ ایکشن سے باؤلر کا جسم کھل جاتا ہے۔وسیم اکرم کے اس انداز ہی نے اسے دنیا کا ممتاز ترین باؤلر بنا دیا اور اس کی یہ قسمت ہے کہ اس کی کرکٹ ستاروں کی نظر بد سے بچ گئی۔
(جاری ہے، تیسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)

۔

۔

(دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے)۔.

مزید :

کھیل -