مائنس اور پلس کا کھیل

مائنس اور پلس کا کھیل
 مائنس اور پلس کا کھیل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

70 سال میں مائنس ہونے والے قد آوروں کی ایک لمبی فہرست ہے ،جبکہ چھوٹے چھوٹے بونوں کو پلس کرنے کی بھی، اور ساتھ ہی ساتھ ایک لمبی قطار ان ڈھولچیوں اور طبلچیوں کی بھی ہے جو ہر مائنس اور پلس پر بے سرا غلغلہ برپا کرتے ہیں۔

کروڑوں لوگوں کے ووٹوں اور دعاؤں سے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ایک بار پھر مائنس کرنے کی کوششیں جاری ہیں، ڈھولچیوں اور طبلچیوں نے آسمان سر پر اُٹھا رکھا ہے۔

کینیڈا سے ہر سال آنے والے ایک طبلچی اگلے شو کی تیاریوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔یہ حضرت سارا سال دنیا بھر سے کروڑوں اربوں روپے اکٹھے کر کے کینیڈا میں جدید ترین آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں،لیکن وقتاً فوقتاً طبلہ بجانے پاکستان آجاتے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کینیڈا میں انہیں کوئی غل غپاڑہ نہیں کرنے دے گا۔


ایسے میں جب میاں نواز شریف اپنی کینسر کی مریضہ اہلیہ کی تیمار داری کے لئے لندن پہنچے تو ایک بار پھر اس گھناؤنے کھیل کا ذکر کئے بغیر نہ رہ سکے جو ملک میں 70 سال سے کھیلا جا رہا ہے۔

کچھ بھی ہو جائے، ہمیشہ سیاست دانوں اور پارلیمینٹرینز کو چور قرار دیا جاتا ہے ۔ میاں صاحب نے کہا کہ ان کے خلاف بنائے گئے ریفرنس انتقام پر مبنی اور ملک میں انتشار پھیلانے کا باعث ہیں۔

انہوں نے جب ملک کو ایٹمی قوت بنایا تو انہیں باہر نکالا گیا،اب انہوں نے لوڈ شیڈنگ ختم کی تو انہیں پھر نکال دیا گیا ہے۔ لندن جانے اور احتساب عدالت میں پچھلی پیشی سے پہلے میاں نواز شریف نے کوئٹہ کے جلسہ عام میں بھی کہا تھا کہ 70 سال سے مائنس اور پلس کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

یہ بلوچستان کی تاریخ میں سب سے بڑا جلسہ تھا جس میں میاں صاحب نے پوچھا کہ جسے عوام پلس کریں اسے کون مائنس کر سکتا ہے؟ اس مائنس اور پلس سے ملک کی منزل کھوٹی ہوتی ہے اور ترقی کا سارا عمل رک جاتا ہے۔

میاں صاحب نے 2018ء کو فیصلہ کن سال قرار دیا اور کہا کہ وقت آگیا ہے کہ مائنس اور پلس کے اس کھیل کو ختم کیا جائے، تاکہ عوام کے دئیے گئے فیصلے کو کوئی تبدیل نہ کر سکے۔


میاں نواز شریف کی قسمت دیکھئے کہ قدرت نے انہیں ایک ایسے ملک کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر تین بار بٹھایا جہاں کی غیر جمہوری طاقتوں کو عوام کے محبوب لیڈ ر برداشت ہی نہیں۔امریکہ اور عالمی طاقتیں بھی پاکستان میں ہمیشہ منتخب قیادت کو مائنس کراتی رہی ہیں، تاکہ غیر منتخب ایجنٹوں کے ذریعے اپنا ایجنڈا پورا کرتی رہیں۔

ایک ایسا ملک جہاں پروڈا، ایبڈو اور 58-2(b) جیسے برہنہ قوانین آتے رہے اور عوام کے مینڈیٹ کا قتلِ عام کرتے رہے، جہاں بار بار جرنیل منتخب حکومتوں کا تختہ الٹتے رہے اور جہاں کی اعلیٰ عدالتیں عوام کی طاقت کی بجائے ڈکٹیٹروں کی بندوقوں سے ڈرتی رہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں جسٹس منیر سے بڑا ولًن کوئی نہیں آیا۔ اس جج کے ایجاد کئے ہوئے نظریہ ضرورت نے مملکتِ خداداد پاکستان کی بنیادیں ہلا دیں، ملک کے دو ٹکڑے ہوئے، آدھا ملک ہاتھ سے نکل گیا اور جو باقی رہ گیا،وہ لرزتا رہتا ہے ۔پچھلے 70سال میں دنیا کے بہت سے ممالک ترقی کرتے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ گئے، ہم مائنس اور پلس کے کھیل میں الجھے رہے۔

یہ کھیل پاکستان بننے کے اگلے سال قائداعظم محمد علی جناحؒ کی رحلت کے فوراًً بعد ہی شروع کر دیا گیا تھا، پاکستان کی جو پہلی اسمبلی دستور ساز اسمبلی تھی، قائداعظمؒ کی رحلت کو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ اس اسمبلی نے پروڈا کا قانون منظور کر لیا، تاکہ سیاسی مخالفین پر پابندیاں لگائی جا سکیں۔ پروڈا، یعنی ۔۔۔ Public and Representative Office Disqualification Act (PRODA)۔۔۔ کا قانون 1949ء میں نافذ کیا گیا۔


پروڈا کے تحت گورنر جنرل یا صوبائی گورنر کسی بھی سیاست دان کو نا اہل قرار دینے کے اہل قرار پائے۔ اس تمام تردد کا ایک مقصد وزیراعلیٰ پنجاب میاں افتخار حسین ممدوٹ کو نااہل قرار دینا تھا۔ صرف اسی پر بس نہیں ، تین سال بعد 1952ء میں۔۔۔ Security of Pakistan Act بھی نافذ کر دیا گیا، جس کے تحت گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر پروڈا کا دائرہ کار مزید وسیع کر دیا۔

اسی دوران حکومت کے خلاف سازشیں کرنے پر راولپنڈی سازش کیس بھی ہوا اور فوجی افسران کو سزائیں بھی دی گئیں۔ غلام محمد کو طاقت کا اس قدر نشہ تھا کہ کلکتہ کے مشہور اخبار ’’دی اسٹیٹسمین‘‘ نے پھبتی کسی کہ وہ اپنے سامنے چھینکنے والے کے خلاف بھی کیس بنا دیتے ہیں۔

یہ پروڈا قانون کا ہی کمال تھا کہ اس زمانے کے وزیر اعظم ایک کے بعد ایک کر کے ہٹا دئیے جاتے،جس پر بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے طنز کیا تھا کہ اتنی جلدی تو وہ اپنا تہبند تبدیل نہیں کرتے، جتنی جلد پاکستان میں وزیراعظم تبدیل ہو جاتے ہیں۔

ان برسوں کے دوران ایک طرف گورنر جنرل لٹھ لے کر وزرائے اعظم کے پیچھے پڑے رہتے اور دوسری طرف ملک کے مقتدر ادارے ملک کی بنیادوں سے جمہوریت نکال کر آمریت کے بیج بوتے رہے۔

گورنر جنرل غلام محمد جس طرح پروڈا کا بہیمانہ استعمال کرکے پارلیمنٹ کو عضوِ معطل بنا کر رکھنا اور وزیر اعظم کو اپنی مرضی کے مطاق نا اہل قرار دینا چاہتا تھا ، اس پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے گورنر جنرل کے اختیارات محدود کر دئیے جائیں،لیکن اس سے پہلے کہ اسمبلی یہ قانون منظور کرتی، غلام محمد نے اسمبلی توڑ دی۔

اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین نے اعلیٰ عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا، لیکن جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت والا فیصلہ دے کر نہ صرف ملک توڑنے کی بنیاد رکھ دی ،بلکہ یہ بھی ثابت کر دیا کہ ہماری عدالتیں ایک کٹھ پتلی ہیں جو غیر منتخب اور غیر جمہوری قوتوں کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔

جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تو خود ساختہ فیلڈ مارشل بن گئے اور عوام کے منتخب لیڈروں کو منظرِ عام سے ہٹانے کے لئے ایبڈو کا قانون بنا دیا، جس کا پیمانہ یہ تھا کہ عوام میں مقبول ہر شخص کو نا اہل قرار دے دو۔

حسین شہید سہروردی اور فیروز خان نون جیسے بڑے لیڈر مائنس ہوگئے ، تما م سینئر سیاست دانوں کو نا اہل کر کے ایوب خان نے سیاسی نابالغوں کی نئی ٹیم بنائی، جس نے ملک کا ستیا ناس کر دیا اور جب حالات سنبھالنے ناممکن ہوگئے تو اقتدار عوام کی بجائے اگلے فوجی جرنیل جنرل، یحییٰ خان کے حوالے کر دیا جو مُلک کو غرقِ مے ناب کر کے چلتے بنے یہ ایوب خان اور یحییٰ خان کے اقتدار سے زبردستی تیرہ سال تک چمٹے رہنے کا اعجاز تھا کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا۔ اس کے بعد یہی عمل جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا کر دہرایا۔


جنرل ضیاء نے ملک کے مقبول لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر مائنس کیا۔جب 1985ء میں انہوں نے غیر جماعتی الیکشن کرائے، جس کا حسب توقع سینئر سیاست دانوں نے بائیکاٹ کیا تو سیاسی نا بالغوں کی ایک نئی ٹیم تیار ہو گئی۔پروڈا اور ایبڈو کی طرح جنرل ضیاء الحق نے ایک آئینی ترمیم 58-2(b) کی شمشیر برہنہ ایجاد کی ،جس کے ہر تیسرے سال بے دریغ استعمال سے عوام کی منتخب حکومت قتل ہوتی رہی۔ منتخب وزیراعظم مائنس اور غیر منتخب لوگ پلس ہوتے رہے۔

غیر جمہوری طاقتوں نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر مارشل لاء لگا کر مقبول قائدین بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو جلا وطن کر کے سیاسی طور پر مائنس کیا اور رنگ برنگے سیاست دان پلس کرکے سیاسی نابالغوں کی ایک اور ٹیم تیار کر لی۔

اس کے بعد بے نظیر بھٹو کو تو خیر زندگی سے ہی مائنس کردیا گیا، لیکن اس تمام عمل میں جنرل پرویز مشرف کے لئے اقتدار سے مزید چمٹے رہنا ناممکن ہوا تو وہ بیرونِ ملک فرار ہوگئے۔ میاں نواز شریف کو تیسری بار عوام کا دو تہائی مینڈیٹ ملا تو غیر منتخب اور غیر جمہوری طاقتیں اپنا مائنس اور پلس کا کھیل عدالتی گراؤنڈ میں لے گئیں،جہاں امپائروں نے انہیں ریڈ کارڈ دکھا کر ایک بار پھر کھیل کے میدان سے مائنس کر دیا۔

اب ان کی جگہ ایسے لوگوں کو پلس کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو سیاست دان کی بجائے ڈھولچی اور طبلچی ہیں۔ ہے تو شرمناک، لیکن ہماری 70 سال کی تاریخ یہی ہے۔

مزید :

کالم -