علامہ شاہ احمد نورانی

علامہ شاہ احمد نورانی
علامہ شاہ احمد نورانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قائد ملت اسلامیہ حضرت علامہ امام شاہ احمد نورانی کی وطن عزیز کے استحکام ،ترقی اور مختلف تحاریک میں بے مثال کارہائے نمایاں کی طرح ان کی بیرون ملک اسلام کی خدمات کا دائرہ بھی بڑا وسیع تھا۔ تبلیغ اسلام کا جذبہ انہیں ورثے میں ملا آپ کے والد گرامی مبلغ اسلام حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی ایک عظیم مذہبی سکالر اورعالمی مبلغ اسلام تھے۔

انہوں نے دنیا بھر میں رسول اکرمؐ کے عشق کے چراغ روشن کئے اور نامور غیر مسلم سکالر جارج برناڈ شا سے اسلام کی حفاظت پر مناظرہ بھی کیا جس کے بعد جارج برناڈ شا نے کہا کہ آپ جیسے مبلغ اسلام کے ساتھ مل کر مَیں یہ محسوس کررہا ہوں کہ آئندہ صدی میں اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہو گا ۔

مولانا شاہ احمد نورانی 1928ء میں میرٹھ (ہندوستان ) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم میرٹھی اپنے وقت کے بلند پایہ عالم دین تھے۔ وہ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا شاہ بریلوی کے تلامذہ میں شمار ہوتے تھے ۔

مولاناشاہ عبدالعلیم صدیقی کو اُردو، انگریزی، فارسی اور عربی زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فاضل بریلوی نے آپ کو ہندوستان کے علاوہ دُنیا کے مختلف ملکوں میں اسلامی تبلیغ کا فریضہ سرانجام دینے کے لئے منتخب کیا،آپ نے ساری زندگی یورپ ،امریکہ،افریقی ممالک، انڈونیشیا، فلپائن اور مشرق بعید کے کئی ممالک میں تبلیغ کی۔

انہوں نے امریکہ میں کئی اسلامی سنٹر قائم کئے۔ افریقی ممالک میں اسلام کی حقانیت کو پھیلایا، جنوبی افریقہ میں بھی اسلامی مراکز قائم کئے،امریکہ، برطانیہ، ہالینڈ ،فلپائن اور تھائی لینڈ میں اسلامی تبلیغ کے لئے کئی سفر کئے۔

آپ نے دُنیا کے ان خطوں کی زبانوں پر بھی عبور حاصل کیا اور وہاں کے پڑھے لکھے لوگوں کو اسلام کی حقانیت سے روشناس کیا ۔ مولانا شاہ احمد نورانی اپنے والد محترم کے ساتھ دُنیا کے مختلف ممالک میں جاتے رہے۔

یہی وجہ ہے کہ مولانا نورانی کو عربی، انگریزی ، ڈچ، جرمنی ،فرانسیسی اور افریقہ کی علاقائی زبانوں پر بڑا عبور تھا ۔علامہ امام نورانی نے اپنے والد گرامی کے ساتھ بہت سارے ممالک میں تبلیغی دورے کئے اور دُنیا بھر میں ورلڈ اسلامک مشن کے ذریعے مساجد، مدارس ،سکول اور کالج قائم کئے۔

ورلڈ اسلامک مشن کا قیام دنیا بھر کے علماء و مشائخ کے اجتماع میں مکہ مکرمہ میں عمل میں آیا تھا۔نامور صحافی جناب مجید نظامی مرحوم نے ایک تحریر میں لکھا کہ امام شاہ احمد نورانی کی تبلیغ اسلام کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا ۔ وہ عراق، لیبیا،برطانیہ ، ہالینڈ، فرانس، امریکہ، جنوبی افریقہ اور فلپائنی زبانوں میں یکساں طور پر بڑی روانی سے خطاب کرتے۔

وہ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں انگریزی میں لیکچرز دیتے رہے۔ وہ عراق اور لیبیا کے اعلیٰ اجلاس میں عربی زبان میں خطاب کرتے وہ ہالینڈ میں اور فرانس کے علمی مراکز میں کھل کر بات کرتے تھے۔آج پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا لیڈر ہو جو ترجمان کے بغیر ان ممالک میں براہ راست لوگوں کو مخاطب کرسکتا ہو ۔

مولانا شاہ احمد نورانی نے میرٹھ کی عظیم الشان دینی درس گاہوں سے مختلف علوم کی تربیت حاصل کی۔تفاسیر و احادیث میں سند فضلیت لے کر پاکستان آئے۔آپ نے پاکستان میں علمائے دین اور مشائخ کے درمیان وقت کے ساتھ علمی اور روحانی رابطے پیدا کئے اور اپنے والد کے زیر تربیت رہ کر جن علمی مقامات اور روحانی احوال کا مطالعہ کیا تھا ، اُن میں اہل علم و فضل اور مشائخ کرام کی مجالس میں پہنچ کر اضافہ کیا ۔

آپ کی ابتدائی زندگی ایک ابھرتے ہوئے عالم دین اور مبلغ اسلام کی حیثیت سے سامنے آئی ۔آپ کے والد عمر کے آخری حصے میں اپنے ذاتی مکان مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہوئے۔ مولانا شاہ احمد نورانی بھی اپنے والد گرامی کے زیر سایہ ایک عرصے تک مدینہ پاک میں رہے۔

آپ کی شادی حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی کے بیٹے فضیلیت الشیخ حضرت مولانا فضل الرحمن مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی بیٹی (جو مدینہ یونیورسٹی کی فاضلہ اور جدہ یونیورسٹی کی ڈاکٹر تھیں) سے ہوئی ۔

آپ کے والد مولانا شاہ عبدالعلیم میرٹھی ؒ مدینہ منورہ میں ہی واصل بحق ہوئے اور’’جنت البقیع‘‘ میں راحت و سکون پایا۔مولانا شاہ احمد نورانی ؒ مدینہ منورہ سے پاکستان آئے توکراچی صدر میں ایک کرائے کا فلیٹ لیا۔

الحمد للہ پاکستان نے ہزاروں رنگ بدلے، مگر شاہ احمد نورانی چالیس سال تک اسی فلیٹ میں کرایہ دار کی حیثیت سے اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہے۔ صبرو قناعت کی یہ مثال شاید ہی پاکستان کے کسی دینی یا سیاسی رہنما میں ملے ۔ تیس سال تک آپ کا معمول رہا کہ صدر میں ایک مسجد میں ہر سال تراویح میں پورا قرآن سناتے، شبینہ کی طاق راتوں میں اضافی قرآن پڑھتے رہے۔

آپ نے اپنے معمول میں نہ تو کبھی ناغہ کیا نہ کوتاہی کی۔ آپ اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ سرکار مدینہ کی زبان عربی میں بات کرتے، مگر پاکستانیوں سے ملاقاتیوں کے ساتھ دہلوی اردو میں گفتگو کرتے۔

سیاست میں آنے سے پہلے آپ مختلف وظائف کی ادائیگی میں ساری ساری رات گزار دیتے تھے۔ دُعائے ’’حزب الجر‘‘ اور’’قصیدۂ بردہ‘‘ سیاسی مصروفیات کے باوجود تمام زندگی آپ کے معمولات میں شامل ر ہے۔

حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی صدر جمعیت علمائے پاکستان کی رحلت کے بعد آپ کو جمعیت کا صدر چنا گیا، اس وقت تک جمعیت علمائے پاکستان سنیوں کی ایک دینی اور تبلیغی جماعت تھی، جو نہ الیکشن میں حصہ لیتی نہ انتخابی تحریکوں میں۔

مولانا شاہ احمد نورانی نے علمائے اہل سنت کا ایک قافلہ تیار کیا اور کراچی سے چترال تک اور کھوکراپار سے خیبر تک علماء ومشائخ میں دینی بیداری اور اعتقادی یکجہتی کے لئے کام کیا، ہر جگہ پہنچ کر علمائے کرام کو حجروں ،مدرسوں، خانقاہوں اور مسجدوں کو دینی اور روحانی مراکز بنانے کے لئے تیار کیا ۔

یہ حقیقت ہے کہ مولانا شاہ احمد نورانی کی اس مہم میں ملک بھر کے سنی علماء ومشائخ نے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور جو علماء صرف نماز ، نکاح ، جنازہ اور ختم و د رود تک محدود تھے، وہ علمی جرأت لے کر متحدہو گئے ،جو صاحبزادگان اور سجادۂ نشین تعویذات ، نذرانے اورروحانی مجالس تک محدود تھے ، وہ تبلیغ دین پر آمادہ ہو گئے ۔

مولانا شاہ احمد نورانی ایک شب بیدار عالم دین تھے۔وہ سیاست کے طویل سفر میں رات کے آخری لمحوں تک ملک کے مختلف علاقوں میں سیاسی اور دینی جلسوں میں خطاب کرتے تھے، مگر مجال ہے کہ وہ نماز تہجد قضا کریں۔وہ فرش پر سوتے، مساکین کے ساتھ بیٹھنے اور غرباء کی محفل میں وقت گزارنے سے نہیں اکتاتے تھے۔

مولانا نورانی رمضان المبارک میں اپنی سیاسی مصروفیات ترک کرکے کراچی میں قرآن پاک سنانے کے لئے موجود رہتے۔وہ خوش الحان قاری اور حافظ قرآن تھے۔انہوں نے زندگی بھررمضان المبارک میں قرآن پاک سنانے کا ناغہ کبھی نہیں کیا اور اپنی زندگی میں نماز تراویح میں 68با ر قرآن پاک سنانے کی سعادت حاصل کی۔


مولانا کا لباس اسلامی تہذیب کا نمونہ تھا، فقیر انہ لباس ، سرپر بنی ٹوپی پر گہرا اعنابی عمامہ ، گلے میں رنگین پٹکہ اور ہاتھ میں عصائے عالمانہ۔۔۔ جب اس لباس میں نورانی آن بان سے باہر نکلتے تو ایک درویش مسلمان کی شبیہ سامنے آجاتی۔

انہوں نے کبھی دولت کے حصول کے لئے ہاتھ پاؤں نہیں مارے،وہ زر اندوزی کے دور میں بھی فقیر ی کی مثال رہے۔ وہ اسمبلیوں میں رہ کر بھی تہی دست رہے۔ سیاسی ہماہمی کے باوجود مولانا نورانی ملک اور بیرون ملک کی دینی درس گاہوں کی سرپرستی سے غافل رہتے اور ان کی ترقی و استحکام پر نگاہ رکھتے۔

وہ ملت اسلامیہ کے ان فرزندان دین کی بے پناہ قدر کرتے ہیں جو مساجد اور مدارس میں دین کی تعلیم و تدریس میں مصروف ہوئے ۔ وہ دینی مدارس کی تقسیم اسناد کی تقاریب میں پہنچ کر اساتذہ اور طلباء کی حوصلہ افزائی کرتے۔

وہ غریب اساتذہ اور طلباء کی مالی مدد کرتے اور کراتے رہے،جو دین کی خدمت کے لئے دن رات کو شاں رہتے۔ درجنوں علمائے کرام ہیں،جو مولانا نورانی کی توجہ سے مدرسے چلا تے رہے ہیں ۔ مولانا نورانی مفلوک الحال علماء کی مالی خدمت انتہائی راز داری سے کرتے تھے۔

حضرت امام شاہ احمد نورانی دین کی سر بلندی کے لئے شب و روز جدو جہد کرتے ہوئے اسلام آباد میں 11دسمبر2003ء کو اپنے خالق حقیقی کی طرف لوٹ گئے، جمعیت علمائے پاکستان ہر سال 10تا20 دسمبر عشرہ امام نورانی منا کر اپنے عظیم قائد کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ اللہ پاک ان کی جدوجہد کو قبول فرمائے۔

مزید :

کالم -