شاہ داستان (2)
چیمہ صاحب کے خلاف پیپلزپارٹی والوں کا غم و غصہ بڑھ رہا تھا لیکن دو ایسے واقعات ہوئے جس نے انہیں دوراہے پر لاکھڑا کیا میاں عطاء اللہ رفیق سہگل کو ہرا کر ایم این اے بن گیا تھا کوہ نور ملز کے پولنگ سٹیشن سے ہزاروں ووٹ پڑے۔
سب مزدور اور ان کے خاندان کے افراد سہگلوں کے کیمپ سے گئے لیکن جب گنتی ہوئی تو رفیق بے یارو مددگار نکلا۔ بھٹو کیرسما کام کر گیا تھا۔ میں کچی آبادی والوں سے پکا وعدہ کرتا ہوں کہ سب کو روٹی، کپڑا اور مکان ملے گا۔ ان تین شبدوں کو ہر کسی نے حرز جاں بنا ڈالا تھا۔
لاکھوں روپے تو ڈوبنے ہی تھے ساتھ میں سہگلوں کے وقار کا سورج بھی غروب ہو گیا۔
عطاء اللہ کو اس بات کا بڑا زعم تھا کہ اس نے کسی ایرے غیرے کو نہیں ہرایا بلکہ ہرکولیس کی طرح دولت کے محل کو مسمار کر دیا ہے۔ اسی زعم میں وہ کسی بات پر مسلم لیگیوں کے ساتھ الجھ پڑا۔ انہوں نے ڈانگوں کے ساتھ تواضع کر ڈالی۔
وزارت کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
اس نے قمیض اتار کر پھٹی ہوئی شلوار کے ساتھ تصویر بنوا ڈالی جو دوسرے دن اخباروں کی زینت بن گئی۔ ایک دو دن تو انتظامیہ کی ہمدردی کے مرہم کا انتظار کرتا رہا لیکن بالاخر پھٹ پڑا چیمہ صاحب کو قریباً ڈانٹتے ہوئے کہنے لگا ’’ انہوں نے پرچہ درج کیوں نہیں کرایا‘‘۔۔۔جب چیمہ صاحب نے اسے بتایا کہ دفعہ 34 پولیس ایکٹ کے تحت صورت جرم اس کے خلاف بنتی ہے تو وہ بڑا حیران ہوا۔
’’ دفعہ 34 کیا ہوتی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
چیمہ صاحب نے اس کے علم میں اضافہ کیا۔ لیکن جس بات نے ان کے تبادلے پر پکی مہر لگا دی وہ ایک سنجیدہ واقعہ تھا، جس سے جیالوں کا ناریل چٹخ گیا، سمندری کے اے سی صاحب کئی خوبیوں کے مالک تھے۔ برہنہ گفتار، مردم آزار، زود رنج اور سرد مہر، تلخ کلامی کا یہ عالم تھا کہ سننے والے کو شکایت کی نوبت ہی نہ آتی، غم اور غصے سے اُس کی زبان گنگ ہو جاتی۔ صنف نازک کے معاملے میں البتہ نرم گوشہ رکھتے تھے۔پیپلز پارٹی والوں کو ان کی اس کمزوری کا علم تھا اور اقتدار میں آنے کے بعد وہ ان کی تاک میں رہنے لگے۔ بیگم صاحبہ کو اکثر میکے بھیج دیتے، وہ چپڑاسی جو ان کا راز دان تھا، گالیاں کھا کھا کر ایک دن اتنا بدمزہ ہوا کہ رقابت پہ اُتر آیا۔
یہ رات کو ایک نوجوان مراثن کے ساتھ مذاکرات فرمارہے تھے کہ جیالوں نے مکان کا گھیراؤ کرلیا۔ مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر لوگو! آو!دیکھو۔ سنو!قسم کے اعلانات ہونے لگے۔ سارا محلہ جمع ہوگیا۔ لوگوں نے دروازے توڑ کر انہیں گھسیٹ کر باہر نکالا اور مارنا شروع کردیا۔ اتفاق سے پولیس کو خبر ہوگی۔ ایس ایچ او نے بڑی مشکل سے ان کی جان بچائی اور تھانے لے گیا۔ مشتعل ہجوم نے تھانے کا گھیراؤ کرلیا۔ ڈی سی اور ایس پی کو اطلاع کی گئی جو فوراً موقع پر پہنچے۔ چیمہ صاحب نے اس افسر کو کبھی پسند نہیں کیا تھا لیکن اس کی رپورٹ پر پرچہ درج کرا دیا۔
شام کو میں ان کے پاس بیٹھا تھا کہ وزیر ملک یعقوب اعوان کا فون آگیا۔
اسے اس بات کا سخت غصہ تھا کہ جیالوں کے خلاف پرچہ کیوں درج کیا گیا ہے۔ چیمہ صاحب کا استدلال یہ تھا کہ اخلاقیات سے قطع نظر وہ Lurking house trespass تھا۔ کافی دیر بحثا بحثی ہوتی رہی۔ تلخی بڑھتی گئی۔یعقوب اعوان نے انہیں ٹرانسفر کی دھمکی دی۔ انہوں نے یہ کہہ کر فون بند کردیاMr.Minister i have got very broad shoulders.i can take it on ہنس کر بولے ’’بستر باندھ لوں‘‘؟ ہنگامی بنیادوں پر ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔
کوئی دن اور رات۔۔۔!
چیمہ صاحب کے جانے کا افسوس تو تھا ہی مجھ پر ایک بہت بڑا سانحہ گزر گیا۔ والد صاحب ریٹائر ہوگئے تو میں نے گھر والوں کو لائل پور بلوا لیا۔ ایک تو اس ہنگامہ پرور ماحول میں بھی اکثر اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا لیکن اصل وجہ ان کی خدمت مقصود تھی، ویسے تو سارے والدین ہی اپنی اولاد سے شفقت کرتے ہیں، لیکن والد صاحب کا انداز منفرد تھا۔ بظاہر سخت گیر تھے لیکن ان کا ذہن ہر وقت میری جانب مبذول رہتا۔ اپنے مزاج کے انسان تھے ہمیشہ ہاتھ ملاتے۔ کبھی گلے ملے نہ گھٹنوں کو چھونے دیا، بظاہر کم گوتھے لیکن دوست احباب میں ہر وقت میرا ذکر کرتے۔ سنٹرل انٹیلی جنس بیورو سے ریٹائرہوئے تو ان کا بینک بیلنس نہ ہونے کے برابر تھا۔ اپنی جدی زمین بیچ کر گاڑی خریدی۔ دادا جی نے جو جائیداد بنائی تھی وہ آہستہ آہستہ بکتی گئی۔
خاندانی وقار اور دبدبہ تو نہ گھٹا لیکن وہ ٹھاٹھ باٹھ بھی نہ رہا۔ نوکروں کی تعداد بتدریج کم ہوتی گئی۔ تجربے اور فہم و فراست کا یہ عالم تھا کہ جو بات کرتے پتھر پر لکیر ہوتی۔ مکران حُکماً نہ بھیجتے تو میں کبھی بھی وہ نہ بن پاتا، جو ہوں۔ جن سختیوں اور آزمائشوں کی انہوں نے نشاندہی کی تھی وہ زندگی کا بہت بڑا سرمایہ اور مشعل راہ ثابت ہوئیں۔
کوشش ناتمام اور نامساعد حالات میں زندہ رہنے کا عزم۔ میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا ہمارے ایک عزیز صوفی منظور نے پوچھا کتاب میں مجھے کون سا مضمون زیادہ پسند ہے۔ میں نے کہا ’’پیسے کا سفر‘‘ اس پر وہ فوراً بولے ’’تم تاجر اچھے بنو گے‘‘! والد صاحب پاس کھڑے تھے، انہیں جھڑکتے ہوئے کہا ’’صوفی! تم نے یہ اندازہ کیسے لگا لیا؟ یہ ایک بہت بڑا سفر نامہ نگار اور ادیب بھی تو بن سکتا ہے‘‘۔
دو میں سے ایک بات تو حرف بحرف سچ ثابت ہوئی۔ میں سفر نامہ نگار بن گیا، دوسری بات میں ہو سکتا ہے شفقت پدری کا عنصر شامل ہو۔ جب مکتبہ اُردو ڈائجسٹ نے میری پہلی کتاب ’’اجنبی اپنے دیس میں‘‘ کی تقریب رونمائی کرائی اور ملک کے سب ممتاز ادیبوں نے کتاب پر تبصرہ فرمایا تو میں نے اپنی تقریر میں صرف ایک بات کہی: I owe it all to my late father والد صاحب کو پنڈی میں عارضہ قلب کی شکایت ہوئی تھی۔
میں ان دنوں مستونگ تھا، مجھے بروقت اطلاع نہ دی۔ وہ چاہتے تھے کہ میں یکسوئی کے ساتھ نوکری کروں۔ زینت ٹیکسٹائل ملز میں ہڑتال ہوگئی، ملزم مالکان اور مزدوروں میں مذاکرات کراتے کراتے دیر ہو گئی۔ واپس آکر میں گہری نیند سو رہا تھا کہ والدہ نے مجھے جگایا، والد صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوگیا تھا، پسینے سے ان کا سارا جسم شرابور تھا، درد کی لہروں نے چہرے پر جال سا بن رکھا تھا، میں گھبرا گیا۔
ایک گھنٹے سے وہ اس حالت میں تھے، والدہ نے مجھے جگانے کی کوشش کی تو انہوں نے منع کر دیا کہنے لگے ’’یہ سارا دن کام کرتا رہا ہے۔ تھکا ہوا آیا ہے، اسے سونے دو‘‘۔ والدہ کو کیا پتہ تھا کہ ہارٹ اٹیک کیا ہوتاہے۔
انہیں فوراً ہسپتال شفٹ کیا گیا، تین دن انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہے،ان دنوں بائی پاس، انجیوگرافی اور انجیو پلاسٹی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ لاہور میں ایک ڈاکٹر رؤف تھا وہ ٹوٹیاں لگا کر ٹامک ٹوٹیاں مارتا رہتا۔
میں انہیں لاہور لے گیا، ڈاکٹر نے کہا’’ اب بالکل ٹھیک ہیں‘‘۔ہنس کر بولے ’’تم خواہ مخواہ وہم کرتے ہو، یہ ہارٹ سپیشلسٹ ہے حکیم نور دین نہیں۔ بس وہ ایک درد کی لہر تھی، آئی چلی گئی‘‘۔(جاری ہے)