سیاست سیاست نہ کھیلیں ،عوام کی فکر کریں!
وزیراعظم عمران خان کو اب کسی انٹرویو میں شاید یہ کہنا پڑے گا، مَیں نے تو قبل از وقت انتخابات کا مذاق کیا تھا، اپوزیشن والے تو سنجیدہ ہی ہو گئے۔ وہ بات جو ڈھکے چھپے انداز میں کی جاتی تھی ، اب کھل کھلا کے کی جا رہی ہے۔
رسماً بھی نہیں کہا جا رہا کہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے، ہم حمایت کرتے ہیں۔ میاں نوازشریف یا شہبازشریف تو ایسی بات نہیں کہہ رہے، البتہ رانا ثناء اللہ جو بات کہتے ہیں، وہ مسلم لیگ (ن) ہی کی آواز ہوتی ہے۔ انہوں نے تو دو سال کے لئے قومی حکومت بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہو اور وہ ملک کے حالات سنبھالے۔
کسی حکومت کے صرف چار ماہ بھی مکمل نہ ہوئے ہوں اور اسے ختم کرکے قومی حکومت بنانے کا شوشہ چھوڑا جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ جمہوری آداب اور صبر کا مادہ ختم ہو چکا ہے۔ یہی مطالبہ جب مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں کیا جانا تھا اور اس کا جواز میاں نواز شریف کی پاناما کیس میں مسلسل پیشیاں تھیں تو یہی رانا ثناء اللہ کہتے تھے کہ قومی حکومت تو دور کی بات، نوازشریف کے بغیر حکومت ہی نہیں، جمہوریت بھی نہیں چل سکتی۔ پیپلزپارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت بھی آج کل کراچی میں بیٹھ کر یہی خواہش کر رہی ہے کہ عمران خان کی حکومت جتنی جلد ختم ہو جائے، اتناہی قوم کے حق میں بہتر ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما اس پر گرہ لگاتے ہیں کہ قوم سے مراد آصف علی زرداری ہوتے ہیں، کیونکہ عمران خان کی حکومت میں انہیں احتساب سے بچنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔
انتخابات کے فوراً بعد جو علم مولانا فضل الرحمن نے اٹھایا تھا، لگتا ہے اب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بھی اس علم کے نیچے آ رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے تو پہلے دن ہی اسمبلیوں کی بساط لپیٹ دینے کا مطالبہ کیا تھا، حلف تک نہ اٹھانے کی بات کی تھی، مگر اس وقت غالباً یہ خیال موجود تھا کہ معمولی سی عددی برتری کے ساتھ بننے والی حکومت پہلے دن ہی بھاری بھرکم اپوزیشن کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی، اس لئے اپنی مرضی کی حکومت چلتی رہے تو کیا حرج ہے، لیکن وزیراعظم عمران خان نے اسمبلی میں اپنے پہلے ہی خطاب میں سب شکوک و شبہات دور کر دیئے۔ کڑے احتساب کی نوید سنائی اور کسی کو این آر او نہ دینے کا اعلان کر دیا ۔ پھر اس کے بعد تو چل سو چل کی صورتِ حال پیدا ہو گئی۔
مولانا فضل الرحمن تو کہیں پیچھے چلے گئے، البتہ پیپلزپارٹی حکومت مخالفت میں سب سے آگے آ گئی۔ اس کا آنا بنتا بھی تھا کہ آصف علی زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہوتا گیا اور اب تو بلاول بھٹو زرداری بھی احتساب بیورو میں طلب کئے جا چکے ہیں۔ پہلے تو معاملہ صرف ایف آئی اے اور جے آئی ٹی کی حد تک تھا، اب بیچ نیب بھی آ گیا ہے۔
نیب کی طرف سے جو تازہ نوٹس جاری ہوئے ہیں، ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے دور میں بننے والے امکانی ریفرنس ہوں گے۔ باقی جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو پچھلے دورِ حکومت کی نشانی ہے اور خود آصف علی زرداری بھی کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ تمام کیس نوازشریف نے ہی ان کے خلاف بنوائے۔ اس وقت یہ بیانیہ پس پشت چلا گیا ہے کہ ملک میں جمہوریت چلنی چاہیے، کیونکہ وہ بڑی قربانیوں کے بعد مستحکم ہوئی ہے۔
اس بات کا کریڈٹ لینے والے کہ دو جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی، نجانے تحریک انصاف کی حکومت کو کیوں دنوں میں رخصت کرنا چاہتے ہیں۔ شاید یہی وہ بے صبری ہے، جسے دیکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے یہ پھلجھڑی چھوڑی کہ انتخابات قبل از وقت بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کی اس بات کو ایک چال سمجھنے کی بجائے یہ سمجھ لیا گیا کہ عمران خان اپنی ناکامی کو تسلیم کرکے انتخابات کی طرف جانا چاہتے ہیں۔
سو ایک طرف نوازشریف نے کہہ دیا کہ مسلم لیگ (ن) انتخابات کے لئے تیار ہے اور دوسری طرف پیپلزپارٹی بھی اس بے صبرے پن میں شامل ہو گئی ہے، حالانکہ اس کے پاس سندھ کی حکومت ہے اور ممکن ہے آئندہ انتخابات میں وہ بھی نہ رہے۔
حالات تو یہ ہیں کہ ملک میں کوئی بڑی سیاسی ہلچل دکھائی نہیں دیتی۔ یاد رہے کہ وطن عزیز میں سیاسی ہلچل اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب فوج کی طرف سے کچھ اور اشارے مل رہے ہوں۔
فوج تو مکمل طور پر جمہوریت اور حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ اب ایسے میں خطرہ کس سے ہے؟ خورشید شاہ جب یہ کہتے ہیں کہ عمران خان ملک میں آمریت لانے کی سازش کر رہے ہیں تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ آمریت لانے کے لئے بھی کوئی سازش کرنا پڑتی ہے یا وہ خود آجاتی ہے؟ کوئی بتائے کہ ملک میں سیاسی سطح پر کوئی تحریک نہ چل رہی ہو، تمام ادارے کام کر رہے ہوں، عدلیہ آج جیسی آزاد اور خود مختار ہو تو آمریت کس کونے سے جمہوریت کی بساط لپیٹنے آ سکتی ہے؟ ایسی باتیں سوائے ملک میں انتشار اور ابہام پیدا کرنے کے اور کیا مقصد رکھتی ہیں۔ اب یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اپوزیشن نے اب تک اسمبلی اور سینٹ میں جو رویہ اختیار کیا ہے، وہ اس امر کا گواہ ہے کہ وہ حکومت کو چلنے نہیں دینا چاہتی۔
جتنی بار بائیکاٹ اب تک موجودہ اسمبلیوں میں ہوا ہے، اتنی بار تو ماضی میں پانچ برسوں میں نہیں ہوا۔ سو ایسے میں اگر حکومت یہ سوچتی ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے عوام کی بہتری کے لئے کوئی قانون بنایا جائے تو یہ اس کا آئینی حق ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اپوزیشن خود حکمران جماعت کو پیشکش کرے کہ مل کر قومی و عوامی مفاد میں قانون سازی کرتے ہیں، مگر اس کی بجائے اسمبلی کو ہنگامے اور انتشار کا اکھاڑہ بنا دیا جاتا ہے۔
اس طرح جمہوریت کی کیا خدمت ہو رہی ہے اور پچھلے دس برسوں میں جمہوریت نے بڑی مشکل سے استحکام کی طرف جو سفر شروع کیا ہے۔ کیا یہ اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالی جا رہی؟ یہ تو ساٹھ کی دہائی والی تاریخ ہے، جب چھ ماہ بعد حکومتیں تبدیل ہوتی تھیں اور بالآخر معاملہ مارشل لاء پر منتج ہوا تھا۔
کیا عجب ماجرا ہے کہ جب فوج اور عدلیہ نے جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے کی ٹھان لی ہے تو ہمارے سیاستدان یہ چاہ رہے ہیں کہ منتخب حکومت دنوں میں رخصت ہو جائے، تاکہ اس کی پالیسی سے بچا جا سکے۔ یہ تو جمہوریت میں ترقی ء معکوس کا سفر ہو گا، جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔
یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت معاشی سطح پر اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی سمت بھی ابھی تک سیدھی نہیں ہو رہی، جو وعدے کئے گئے تھے، وہ بھی تشنہ ء تکمیل ہیں۔
مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور عوام کے لئے روٹی دال کا بندوبست کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایک ڈالر ہی حکومت کے قابو میں نہیں آیا اور آنے والے دنوں میں اس کے مزید اوپر جانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔
حکومت نے کچھ اقدامات ضرور اٹھائے ہیں، جو آنے والے عرصے میں اپنا اثر دکھا سکتے ہیں، مگر فوری ریلیف کی کوئی صورت نہیں بن رہی۔ وزیراعظم کے سعودی عرب ، چین، ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات کے دورے بھی کوئی کرشمہ نہیں دکھا پائے۔
سو یہ ناکامی تو اپنی جگہ موجود ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اس وقت ملک کی جو اقتصادی صورت حال ہے، کیا کوئی دوسری حکومت آتے ہی اسے تبدیل کر سکتی ہے، کیا خالی خزانے کو کسی الٰہ دین کے چراغ سے بھرا جا سکتا ہے؟ یہ تو ایک قومی معاملہ ہے۔
مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے جب اپوزیشن ملک کے بدترین معاشی حالات پر خوش ہوتی ہے، حالانکہ یہ اس کا بھی فرض ہے کہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے حکومت سے تعاون کرے۔ ملک پر قرضوں کا جو بوجھ چڑھا ہے، وہ موجودہ حکومت نے تو نہیں چڑھایا، یہ تو ماضی کی حکومتوں کا کیا دھرا ہے، اتنے بڑے بوجھ کو صرف چند دنوں میں اتار پھینکنے کا مطالبہ خلافِ حقائق نظر آتا ہے۔
حمزہ شہبازشریف روزانہ ٹی وی پر آکر کہتے ہیں کہ نیازی صاحب سو دنوں کا حساب دیں، حساب دینے کی روایت انہوں نے کب سے ڈالی ہے، اگر اسی طرح حساب دینے کا سلسلہ ہماری جمہوریت میں موجود ہوتا تو شاید آج یہ جمہوریت گوڈے گوڈے کرپشن میں نہ دھنسی ہوتی۔
وزیراعظم عمران خان کے لئے بھی اب یہ سوچنے کا وقت ہے کہ حکومت کی اچھی ساکھ کیوں بن نہیں پا رہی؟ حالانکہ وہ بڑی محنت کر رہے ہیں۔ کابینہ کے اجلاس پر اجلاس کرتے ہیں، وزراء سے رپورٹیں مانگتے ہیں ،کرپشن پر عدم برداشت اختیار کئے ہوئے ہیں، آئے روز یہ بیان آ جاتا ہے کہ وزیراعظم غریبوں کے لئے ایک پیکیج کا اعلان کرنے والے ہیں، مگر پھر بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ ملک میں مصنوعی مہنگائی کا عذاب طاری ہے۔
وہ اشیاء بھی مہنگی کر دی گئی ہیں ، جو ملک میں وافر پیدا ہوتی ہیں۔ حکومت نام کی کوئی طاقت نظر نہیں آ رہی۔ خاص طور پر صوبہ پنجاب میں، صوبے سے لے کر ضلعی انتظامیہ تک کسی کو اس کی پروا نہیں کہ عوام کو کیسے لوٹاجا رہا ہے؟ پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر فعال ہیں اور ڈپٹی کمشنر صاحبان کسی احتساب سے عاری نظام میں عیش کر رہے ہیں۔
اگر اقتصادی صورتِ حال خراب ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہونا چاہیے کہ گورننس کے حالات بھی بدترین بنا دیئے جائیں۔ یہ تو حکومت کی ایک بڑی ناکامی ہوتی ہے۔
وہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی بہت تعریف کرتے ہیں، لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ سب سے زیادہ جرائم پنجاب میں ہو رہے ہیں اور مہنگائی کا سب سے بُرا حال بھی پنجاب ہی میں ہے۔
صرف کاغذی فائلوں سے کارکردگی دیکھ کر مطمئن نہ ہوں، بلکہ انٹیلی جنس رپورٹس کے ذریعے اس بات کا کھوج لگوائیں کہ ان کے دورِ حکمرانی میں خلقِِ خدا کس حال میں ہے؟