ہم خوداپنی تباہی کےذمہ دار ،ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں،سینئر صحافی ایثار رانا وکلاء گردی پر پھٹ پڑے
تجزیہ(ایثار رانا)آج پاکستانی قوم ایک بارپھرپوری دنیا کےسامنے اپنی اصل شکل میں سامنے آگئی،ہم نےایک بارپھربتادیاکہ ہم بطورقوم ایک اجڈ ،جنگجو، نفرت کی آگ میں کھولتےبے رحم لوگ ہیں،اَفسوس اِس معاشرے کی تباہی میں کسی اَن پڑھ کا حصہ نہیں،اِس معاشرے کو اُس نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا ،اِسے ہمیشہ پڑھے لکھے جاہلوں نے پہنچایا،وکیل ،ڈاکٹر ،پولیس اور ہماری صوبے کی انتظامیہ سب نے بتا دیا کہ ہماری اخلاقی تربیت ہوئی ہی نہیں،افسوس آج پوری دنیا نے ایک باردیکھاکہ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں،ہم خوداپنی تباہی کےذمہ دار ہیں،اَفسوس تووزیراعلیٰ بزدار پربھی ہے جن میں فیصلہ کرنے کی قوت اورصلاحیت نہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ چند سو جنونی کالے کوٹ والے جب دل کے مریضوں کی زندگیوں سے کھیل رہے تھے اور پولیس کھڑی تماشہ دیکھ رہی تھی،،،وزیر اعلی بزدار شاید اسلام آباد سے احکامات کے منتظر تھے،وہ بے چارے تو اِس صورت حال پر بات کرنے کے لیے بھی اتالیق سے الفاظ سیکھ رہے ہونگے،سوال تو اُن والدین سے بھی بنتا ہے جن کی یہ اولادیں ہیں،وہ وکلا ہوں یا ڈاکٹر؟ کیا یہ کسی معاشرے کسی گھرانے سے منسلک نہیں ہیں؟کیا اِن لوگوں کے ماں، بہن، بیٹی، باپ نہیں ہوتے ؟کیا اِن کو کسی نے نہیں بتایا کہ رحم کیا چیز ہوتی ہے؟
افسوس صد افسوس ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک جنگل میں رہتے ہیں،جہاں صرف اور صرف طاقتور کا راج ہے،وہ چاہے سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو، سانحہ ساہیوال ہو ،انگور اڈا ہو،،سیالکوٹ میں دو بھائیوں کا سر عام قتل ہو یا مذہب کے نام پر زندہ جلانے کے واقعات ہوں؟یہ معاشرہ گل سڑ چکا ہے،اِسکی قیادت نفرت بدلے کی آگ میں جلتی کند ذہن اور بونے قد کی ہے،یہ پورا معاشرہ بد بو دار ہوچکا،افسوس اس قوم کا دانشور پیسے کی چکاچوند میں بک چکا ،اسکا عالم معاشرے کو فرقوں میں بانٹ چکا،اِسکی لیڈر شپ اِس مخلوق، جھوٹے خوابوں اور ایک دوسرے سے نفرت میں گھر چکی،فیاض الحسن چوہان پر تشدد قابل مذمت ہے،اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس غلاظت میں کسی کی عزت محفوظ نہیں،لیکن جسمانی تشدد کے ساتھ لفظی تشدد بھی روکنا ہوگا۔ایک بات وزیراعظم نے اس سانحہ کی فوری رپورٹ طلب کرلی ہےلیکن میں آپکو بتاؤں ہوگا کچھ بھی نہیں۔کچھ دنوں بعد سب بھول جائیں گے،اِس معاشرے میں قانون صرف کمزور کے لیے ہےاور کالے کوٹ والے تو ہیں بھی انصاف کے ٹھیکیدار۔آخری بات اس وکیل سے ،کیا اِس کا دل کانپا تھا؟ کیا اس کے ہاتھ میں لرزش ہوئی تھی جب اس نے ایک بے ہوش مریضہ کا آکسیجن ماسک اتارا تھا؟۔۔کیا اسے اپنی ماں بھی یاد نہ آئی؟؟