وکلاءگردی آخر کب تک۔۔۔؟
ہاتھوں میں ڈنڈے اور سوٹے اٹھائے وکلاءنے پی آئی سی کاایمرجنسی گیٹ توڑکرہسپتال پر دھاوابول دیا، توڑپھوڑ کی اور متعددگاڑیوں کے شیشے توڑ دئے جبکہ پولیس وین کو نذرآتش کردیا۔ وکلا نے حملے کے دوران خاتون ڈاکٹر سمیت 4 ڈاکٹروں کے سر پھوڑ دیئے ہیں۔
پولیس وکلا کا منہ تکتی رہی،مریض اورلواحقین آہ و بکاکرتے رہے،وکلاکے سامنے ہاتھ جوڑے، لیکن کسی نے نہیں سنی، آخری اطلاعات تک 4سے 6مریض جان کی بازی ہار چکے ہیں۔عام شہریوں سے بدتمیزی اور مغرورانہ لہجے میں مشہور صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے وکلاءسے بھی اسی لہجے میں بات کرنا چاہی تو معاملات اور بگڑ گئے،وکلا نے فیاض الحسن چوہان کے بال نوچے اور تھپڑ بھی رسید کیےجس پر صوبائی وزیر کو بھاگ کر جان بچانا پڑی۔
جس طرح غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا گیا انتہائی شرمناک فعل ہے۔گورنمنٹ کو چاہیے قانون سے کھلواڑ کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کےلئے ڈٹ جائیں۔
نگہبا ن بن کر جو خود ہی چمن کی آبرو لوٹے
چمن والو عقیدت چھوڑدو ایسے نگہبان کی
جناب چیف جسٹس وکلاءگردی کا بھی نوٹس لیں ۔ایسے واقعات انصاف کی فراہمی اور قانون کی بالادستی کے سامنے سوالیہ نشان ہے؟ایسے واقعات کا سدباب ہونا بہت ضروری ہے،مذکورہ وکلاءکے خلاف فوجداری مقدمات درج ہونے چاہئیں اور ان کو سخت سزائیں بھی دی جائیں تا کہ ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔
پاکستان کی تاریخ میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ وکلاءگردی کی اصطلاح سامنے آئی ،کہیں معزز عدالتوں کے جج صاحبان ان کے ہتھے چڑھے اور ان پر جوتے برسائے، کہیں عدالتوں میں پیشی پر پولیس افسران ،کہیں عدالتی اہلکار اور کہیں بد نصیب سائلین وکلاءگردی کا شکار ہوئے۔
جناب چیف جسٹس گستاخی معاف دوسروں کے خلاف سوموٹو لینے سے پہلے اپنے گھر میں جھانکنے کی ضرورت ہے، اگر تیزی سے بڑھتی ہوئی وکلاءگردی کو لگام نہ ڈالی گئی توسارے ملک میں لاقانونیت کا راج ہوگا اور وکلاءگردی سے تنگ عوام کے پاس ہتھیار اٹھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔جب کسی حقدار کا حق چھین لیا جائے گا یا بے گناہ پر ظلم کیا جائے گا تو اس کے پاس مرنے ےا مارنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا۔
عدالت کا سب سے زیادہ وقت وکلاءحضرات سرکاری افسران اور عوام پر جھوٹی اور من گھرٹ پٹیشن دائر کرکے ضائع کرتے ہیں۔قانون کے غلط استعمال ،عدلیہ کو گمراہ کرنے اور عوام کو بلیک میل کرنے والوں کا احتساب کیے بن قانون کی حکمرانی کا خواب ادھورا ہے۔عوام اور اداروں کو بلیک میل کرنے کیلئے جھوٹی پٹیشن دائر کرنے کی ریت کا خاتمہ نہ کیا گیا تو یہاں ہر کسی کو بلیک میل کیا جائے گا، پٹیشن کے بہانے کورٹ بلاکر سرعام لوگوں پر تشد د کیاجائے گا ،احاطہ عدالت میں کسی کو مارا گیا تمانچہ حقیقت میں عدلیہ کو تھپر رسید کرنے کے مترادف ہوتا ہے ۔جھوٹی پٹیشن دائر کرنے والے بلیک میلرز کی حوصلہ شکنی ضروری ہے پٹیشن غلط ثابت ہونے پر وکیل کے خلاف بھی سخت کاروائی ہونی چاہئے ۔اکثر وکلاءنے جھوٹی درخواستیں دائر کرنے کیلئے ٹاﺅٹ رکھے ہوتے ہیں ۔جس طرح پولیس کا ریکارڈ آن لائن ہوا ہے اسی طرح عدالتی ریکارڈ بھی مرتب ہو کہ کس نے کب ،کہاں ،کیوں اور کس کے خلاف رٹ دائر کی۔
جناب چیف جسٹس پولیس کو سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ وکلاءگردی سے بھی آزاد کروانا ضروری ہے ،نہیں تو وہ دن دور نہیں جب وکلاءکا ہاتھ آپ کے گریبان تک بھی پہنچ جائے گا۔سول اور سیشن ججز کے ساتھ نہ صرف بدتمیزی بلکہ ہاتھا پائی اور کمرہ عدالت میں محصور کرنے کے واقعات پہلے ہی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر عدلیہ کی تضحیک اور تذلیل کا باعث بن چکے ہیں۔
جوڈیشری ایگزام کا گذشتہ سال کا رزلٹ ملاحظہ کیجئے ایڈیشنل سیشن جج کے امتحان کیلئے 2400 وکلاءنے رجسٹریشن کروائی اور صرف 8امیدور ہی پاس ہوسکے۔سول جج کے امتحان کیلئے 6500وکلاءنے رجسٹریشن کروائی اور 21امیدوار امتحان میں کامیابی حاصل کرسکے۔ عدلیہ سے غنڈہ گرد عناصر کے خاتمے اور اس کے تشخص کی بحالی کیلئے جوڈیشر ی کی طرح وکالت کے لائسنس کیلئے بھی مضبوط اور شفاف امتحانی نظام رائج کیا جائے۔
ایک سی ایس پی دوست آشج لقمان نے بہت خوبصورت الفاظ میں وکلاءگردی کا اِحاطہ کیا”کسی وکیل کو کہیں کہ جناب آپ غلط کر رہے ہیں وہ ایک آپکو ایک تھپڑ لگائے گا۔ آپ سوال کریں گے کہ تھپڑ کیوں مارا تو وہ ایک اور تھپڑ مارے گا اور کہے گا "مجھ سے بدتمیزی کرتے ہو"آپ ابھی تھپڑ سے سنبھلے نہیں ہوں گے کہ گالیاں دیتے ہوئے آپ کے گریبان تک پہنچ جائے گا اور اگراس دوران غلطی سے آپکا ہاتھ خود کو چھڑاتے ہوئے مقدس کالے کوٹ کو چھو گیا تو وہ معزز قانون میں ایک ناقابل معافی جرم گردانا جائے گا“
جس ملک میں وکلاءقانون شکن ہوجائیں،ججزکوگالیاں دیں،اِنہیں زد وکوب کر کےکمروں میں محبوس کردیں،اِس معاشرے میں اِنصاف کی امیدکیسےکی جاسکتی ہے ؟پولیس کیسے آزادانہ تحقیقات کرسکتی ہے اور معززججز ایسے” جگے“ وکیلوں کے خلاف کیسے فیصلہ سناسکتے ہیں؟۔وکلاءکی جانب سے آئے روزپولیس اہلکاروں پر تشدد کیا جاتاہے،احاطہ عدالت سے ملزمان کو بھگایا جاتا ہے،سچ کی آوازبننے پرصحافیوں پرتشدداور انکےکیمرے چھیننے کاعمل عام رویہ بن چکاہے۔وکلاءگردی ،تشدد پسندی اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث وکلاءکی تعداد بہت کم ہے لیکن اِس اقلیت نے فرض شناس اکثریت کی ساکھ بھی خراب کی ہے۔وکالت نہ صرف ایک معزز پیشہ ہے بلکہ دکھی انسانیت کی عظیم خدمت بھی ہے۔وکلاءکی اکثریت نہایت اچھےاور مہذب افراد پرمشتمل ہے،جوصرف حق کاساتھ دیتے ہیں اورجھوٹے کامقدمہ تک نہیں لڑتے،جنہوں نےقانون کی بالادستی کیلئے نہ صرف طویل جدوجہد کی بلکہ عظیم قربانیاں دیں۔وکلاءقیادت کوچاہئےکہ حدودو اختیارات سے تجاوزکرنے اورقانون کاغیرقانونی استعمال کرنے والی کالی بھیڑوں کو پہچانیں جنہوں نےکالے کوٹ کی آڑ میں کالےکرتوت چھپااور اپنا رکھے ہیں۔اِس مقدس پیشے اور انصاف کی علامت ”کالے کوٹ“ کی حرمت کیلئےشرپسند عناصر سے ناصرف بریت اورلاتعلقی کا اظہارکریں بلکہ اُن کی رکنیت ختم کرکےپریکٹس پرپابندی لگائی جائے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔