ہم صاحبزادی کے پاس برطانیہ پہنچ گئے!

ہم صاحبزادی کے پاس برطانیہ پہنچ گئے!
ہم صاحبزادی کے پاس برطانیہ پہنچ گئے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ترکش ایئر لائنز کی پرواز استنبول کے ہوائی اڈے سے برمنگھم کے لیے بروقت روانہ ہوئی، ٹکٹ کے مطابق یہ جہاز بھی 777-200 تھا لیکن جب چیک ان کی باری آئی توپتہ چلا کہ یہ ایئر بس تھی جو جدید ہے۔ صاف ستھری اور خوبصورت ایئر بس نے فضاء میں اُڑان بھری تو اُس وقت موسم معقول تھا لیکن جہاز کے اندر حالات کی نوعیت ایسی ہوئی کہ گرمی محسوس ہونے لگی۔ بہرحال پرواز بروقت تھی اور اُس میں ہر نشست کے لیے ٹیلی ویژن کی سہولت بھی ہے چنانچہ مسافر اِسی تفریح میں مصروف ہو گئے۔ میری نشست کے ساتھ ایک برطانوی خاتون کو جگہ ملی، وہ تو راستے میں پنکھا جھلنے لگی، میری طرف دیکھ کر معذرت کی، میں چونکہ پورے ٹریک سوٹ میں تھا اور بڑی جیکٹ ہاتھ میں بھی تھی، اِس لئے خاتون نے شاید جانا کہ مجھے سردی محسوس ہو رہی ہے،جب میں نے جواب میں بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں تو اُس نے اوپر لگا اے سی کھول کر رُخ اپنی طرف کر لیا، بچوں نے خاص طور پر تاکید کی تھی کہ برطانیہ میں موسم سخت ہو رہا ہے اور برمنگھم میں شام کے بعد ٹھنڈی ہوا چلتی ہے اِس لیے ایئر پورٹ سے باہر نکلنے سے پہلے سر، گلا اور چھاتی ڈھانپ لی جائے، بڑی جیکٹ اِسی مقصد کے لیے تھام رکھی تھی، ایئر بس نے جب برمنگھم کی فضائی حدود میں داخلہ لیا تو اُس وقت باہر کا درجہ حرارت21سنٹی گریڈ تھا جو سردی کے اِس موسم میں معقول ہی ہے تاہم جب جہاز نے اترنا شروع کیا اور ہوائی اڈے کے رن وے کو چھوا تو باہر بارش ہو چکی تھی لہٰذا جب  ہوائی اڈے سے سامان لے کر باہر آیا تو تھوڑی سردی محسوس ہوئی، باہر گڑیا بیٹی اپنے تینوں چھوٹے بچوں اور شوہر عظمت کے ساتھ موجود تھی، وہاں وہی ہوا جو دستور ہے کہ چار سال بعد ملاقات ہوئی تو جہاں اُسے خوشی تھی، وہاں گلے لگ کر آنسو بھی بہانے لگی۔ عظمت جلدی سے گاڑی لے آئے،سر ڈھانپ کر باہر نکلنا پڑا اور گھر پہنچ گئے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ وقت کے تفاوت نے ایک ہی روز میں لاہور سے برمنگھم پہنچا دیا اور اِس وقت جب لاہور میں رات کا ایک بجا ہو گا اور ہمارے شہری بھائی  نیند کے مزے لے رہے ہوں گے کہ میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں تاکہ اگر وقت کے تفاوت نے سفر میں سہولت دی ہے تو یہ فرق اِس کالم میں تاخیر کا سبب نہ بن جائے۔


جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا کہ2017ء میں حجازِ مقدس کے سفر کے بعد یہ اتنے دور دراز ملک کا پہلا سفر ہے جو پی آئی اے اور ترکش ایئر لائنز کے باہمی تعاون کی وجہ سے دو مراحل میں طے ہوا۔ پہلے مرحلے میں لاہور سے استنبول تک اپنی قومی ایئر لائن سے سفر کیا اور وہاں سے ترکش ایئر لائن کی سہولت حاصل رہی، بنیادی وجہ وہی ہے کہ یورپ کے ممالک میں تاحال پی آئی اے آپریشنل نہیں،میں اپنے اِس سفر کا تجزیہ بتاؤں تو فخر سے کہہ رہا ہوں کہ بوئنگ777  کچھ پرانا ضرور تھا لیکن کیپٹن نے جس مہارت کا ثبوت دیا اُس کی وجہ سے فخر محسوس ہونے لگا۔جمعے کو علی الصبح نمازِ فجر سے قبل ایئر پورٹ پہنچنا تھا اور پہنچ گئے۔نماز بھی وہاں ادا کی، سامان بک کروانے اور بورڈنگ کارڈ لے کر جہاز میں سوار ہونے تک صاحبزادے عاصم چودھری نے ساتھ نبھایا، پھر پورے سات بجے جہاز نے بھی اُڑان بھر لی۔لاہور سے استنبول کے ہوائی اڈے تک کا پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے کا سفر یوں کٹا جیسے ہم لاہور کی مال روڈ یا کینال روڈ پر گاڑی چلا رہے ہوں، جہاز کی اُڑان بھرنے سے لے کر راستے کا سفر اور منزل پر اُترتے وقت تک احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ جہاز کا سفر ہے، جہاز سیدھا رہا  تو اندر بچے کھیلتے کودتے رہے،لوگ بڑے خوشگوار ماحوال میں بے فکر تھے کہ کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا جا رہا تھا کہ پرواز کسی جگہ بھی ناہموار نہ ہوئی اور بڑے ہی دھیمے انداز میں استنبول کے مصروف ہوائی اڈے پر اتر بھی گئی۔ قارئین! دِل سے دعا نکلی اور آف لوڈ ہوتے وقت عملے کو مبارکباد دی اور کپتان انور کی تعریف بھی کی جنہوں نے اپنی مہارت سے ثابت کیا کہ ہماری قومی ایئر لائن کے اہلکار آج بھی تجربہ کار اور اہل ہیں۔ دُکھ ہوا کہ براہِ راست پروازوں پر تاحال پابندی ہے اور محترم سرور خان شرمندہ بھی نہیں ہیں۔


قارئین! استنبول کے ہوائی اڈے پر مجھے جو تجربہ ہوا اُسے شیئر کرنا ضروری ہے کہ میری طرح کوئی اور دوست بھی وہاں جا سکتے ہیں،میرا اِس ہوائی اڈے پر اُترنے کا پہلا موقع تھا اور اِسی نے میرے حواس بھی ٹھکانے لگا دیئے کہ یہ ہوائی اڈہ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے، بیک وقت بیسیوں پروازیں دنیا کے قریباً تمام ممالک سے آ جا رہی تھیں، ایئر پورٹ بھی بہت طویل و عریض ہے، جہاز کی تبدیلی کا عمل درکار تھا اور اِس کے لیے اڑھائی گھنٹے کا وقفہ بھی تھا،چیک آؤٹ کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا پڑا، جب امیگریشن کاؤنٹر تک پہنچے تو وہاں بہت بھیڑ تھی کہ متعدد ممالک کی پروازیں اُتریں اور درجنوں ممالک کو جانے والے مسافر بھی تھے چنانچہ اِس ہجوم کی وجہ سے مسافروں کے ساتھ سفر ہوا، اُن سے بچھڑ بھی گیا، جب امیگریشن سے فارغ ہو کر باہر آیا تو سیڑھیوں نے ڈیوٹی فری شاپ میں پہنچا دیا، جو وسیع رقبے پر ہے اور مسافر خرید و فروخت میں بھی مصروف تھے۔ اِسی ہال اور دکانوں کے درمیان جگہ جگہ لوڈر(الیکٹرانک) موجود تھے۔اِن کی پروازوں کی آمد اور روانگی کی اطلاع دی جا رہی تھی، میرے لئے یہ اطلاع ادھوری تھی کہ برمنگھم کے لیے وقت اور پرواز کا نمبر آ رہا تھا لیکن  بورڈنگ گیٹ کا نمبر نہیں آ رہا تھا، وہاں چلتے پھرتے اہلکاروں سے دریافت کرنے کی کوشش کی تو دُکھ ہوا کہ نرم مزاج ترک کچھ بتانے سے قاصر تھے حتیٰ کہ ڈیوٹی فری شاپ والوں سے پوچھا تو انہوں نے وقت بتا کر کہا کہ لوڈر دیکھتے رہیں۔


جو لوگ پہلے آتے جاتے رہتے ہیں اُن کو تجربہ تھا لیکن مجھے گھبراہٹ ہو رہی تھی کہ گیٹ کا علم ہو گا تو بروقت پہنچ پاؤں گا، کسی سے کوئی مدد نہ ملی کہ یہ لوگ انگریزی بھی بہت کم جانتے ہیں یا پھر قومی حمیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہاں موجود ایک سردار(سکھ) صاحب کی مدد لی تو انہوں نے بھی بورڈنگ دیکھ کر پرواز کا وقت بتا دیا اور بورڈ دیکھتے رہنے کا مشورہ دیا،یہ بھی قبول نہ ہوا کہ وقت گذر رہا تھا، گھومتے پھرتے ایک ایسے کاؤنٹر پر پہنچ گئے جو بزرگ مسافروں کے لئے وہیل چیئر  بوائے اور گاڑی کی سہولت مہیا کرتے تھے، اُن کے تعاون سے متعلقہ گیٹ تک پہنچ گیا اور پرواز مل گئی، ایسے میں استنبول ایئر پورٹ انتظامیہ کی طرف سے تمام مسافروں کو وائی فائی کی سہولت مفت دینے کا اعلان تحریراً موجود تھا لیکن میں مستفید نہ ہوا، حالانکہ عام مسافر یہ سہولت انجوائے کر رہے تھے۔ بات طویل ہو گئی، خیریت سے گھر پہنچ چکا ہوں،بچے بہت خوش اور خدمت میں مصروف ہیں، انشاء اللہ تجربات سے آگاہ کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

مزید :

رائے -کالم -