میجر شبیر شریف شہید(نشانِ حیدر)

     میجر شبیر شریف شہید(نشانِ حیدر)
     میجر شبیر شریف شہید(نشانِ حیدر)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 بھارت نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کرنے کے لئے مغربی پاکستان  پر 3دسمبر 1971ء کو اس لیے حملہ کردیاتھا کہ مغربی پاکستان میں موجود افواج پاکستان،مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں رکاوٹ نہ بنیں۔میجر شبیر شریف اپنی کمپنی کے ہمراہ ہیڈ سلیمانکی سیکٹرمیں دفاع پاکستان کے فرائض  سرانجام دے رہے تھے۔ میجر شبیر شریف اپنی کمپنی کی قیادت کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، سب سے پہلے وہ کنکریٹ سے بنے ہوئے بنکروں پر حملہ آور ہوئے۔ دشمن نے اپنے اسلحے کے زور پر مقابلہ کرنے کی کوشش کی، لیکن میجر شبیر شریف کی کمپنی نے بڑی تیزی سے دشمن پر قابو پا لیا اور بنکرز کی رکاوٹ بھارتی فوج کے لئے بے معنی ہو کر رہ گئی۔ کچھ دیر بعد پسپا ہوتی ہوئی بھارتی فوج کی اہم سرحدی چوکی جھانگر بھی پاکستان کے قبضے میں آچکی تھی۔ یہی وہ مقام تھا جہاں بیٹھ کر بھارتی جرنیل پاکستان پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ میجر شبیر دشمن کو سنبھلنے کا موقع نہیں دینا چاہتے تھے۔نہر ابھی دو میل دُور تھی۔ یہ علاقہ دشمن کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں سے بھرا ہوا تھا، قدم قدم پر موت منتظر  تھی، لیکن یوں دِکھائی دے رہا تھا کہ میجر شبیر شریف کی لغت میں ڈر اور خوف کا کوئی لفظ نہیں تھا۔ دشمن خودکار اسلحے سے بھی فائر کر رہا تھا، لیکن میجر شبیر کی کمپنی اپنے قائد کی قیادت میں آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ اب وہ دشمن کے سرحدی گاؤں بیری والا کے سامنے پہنچ چکے تھے۔ یہاں پر میجر شبیر شریف کو خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔جب بیری والا گاؤں پر بھی پاکستانی جانبازوں کا قبضہ ہو گیا تو یہاں سے بھارتی فوجی گاؤں گورمکھیڑہ کی جانب پسپا ہوگئے۔ ابھی مزیدپیش قدمی کے لئے نہر کو عبور کرنا ضروری تھا، انتہائی سردی میں پاکستانی مجاہد نہ صرف نہر کے سرد پانی میں خود اُترے،بلکہ اپنے ہتھیاروں کی بحفاظت دوسرے کنارے پر رسائی بھی ان کے فرائض میں شامل تھی۔ بھارتی توپ خانہ مسلسل گولہ باری کررہا تھا، جبکہ نہر کا سرد پانی برف کی طرح ٹھنڈا انسانی ہڈیوں میں پیوست ہو رہا تھا۔ ان حالات میں دوسرے کنارے تک پہنچنا ناممکن دکھائی دے رہا تھا، لیکن میجر شبیر کی قیادت میں پاک فوج کے جوانوں کے حوصلے بلند تھے۔ تمام تر رکاوٹوں کو عبور کر کے ہمارے مجاہد دوسرے کنارے پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن یہ کنارہ بھی آخری منزل نہیں تھا۔اب انہیں دشمن کے آہنی مورچوں کا سامنا تھا۔ فولاد کی دیواروں کے ساتھ ساتھ ٹینکوں کا ایک سکواڈرن بھی وہاں موجود تھا۔

میجر شبیر کے حکم پر تمام ساتھی دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ نعرہئ تکبیر فضا میں گونجتے ہی دست بدست لڑائی شروع ہو گئی اس عظیم کمانڈر کی قیادت میں فوجی جوانوں نے وہ جوہر دِکھائے کہ تمام تر حفاظتی تدابیر کے باوجود دشمن کو ان آہنی مورچوں سے پسپا ہونا پڑا۔ وہاں متعین 43 بھارتی فوجی مارے گئے، جبکہ28 زندہ قیدی بنا لئے گئے۔ اس معرکے میں چار بھارتی ٹینکوں کو راکھ کا ڈھیر بھی بنا دیا گیا۔باقی ٹینکوں کو پسپا ہونے پر مجبور کردیاگیا۔اس کامیابی کے بعد دشمن کے علاقے میں بنائے ہوئے عظیم بند کے اہم حصوں پر پاکستان کا قبضہ ہو چکا تھا۔ نہر پر بنا ہوا انتہائی اہم پل بھی پاکستان کے قبضے میں آگیا۔ گور مکھیڑہ گاؤں کی طرف رابطے کا یہ واحد ذریعہ تھا۔یہ فتح دشمن کی عسکری حیثیت پر کاری ضرب تھی۔ دشمن کے جن حفاظتی انتظامات کو سبھی ناقابلِ شکست تصور کرتے تھے، میجر شبیر نے اپنے چند سو ساتھیوں کے ہمراہ ان انتظامات کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اگلی صبح کا جب سورج طلوع ہوا تو کئی جوان ان بارودی سرنگوں کی وجہ سے شہید ہو چکے تھے۔ اسلحہ بھی تقریباً ختم ہونے کو تھا،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹڈی دل بھارتی فوج کو اب روکنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ سارا دن دشمن سے زور آزمائی میں گزر گیا۔ اسی دوران دشمن کا کمپنی کمانڈر کسی نہ کسی طرح میجر شبیر کے مورچے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ میجر شبیر نے چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے بروقت دبوچ کر ہلاک کر ڈالا۔ اس کے قبضے سے انتہائی قیمتی دستاویزات بھی ملیں۔ میجر شبیر کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ ایک نازک موقع پر جب ان کا توپچی شہید ہو گیا تو انہیں یہ کام بھی خود سنبھالنا پڑا۔ وہ بڑی مستعدی سے دشمن پر گولہ باری کروا رہے تھے۔یہ ان کی زندگی کا آخری معرکہ تھا۔ بھارتی ٹینکوں کی طرف سے ایک گولہ ان کے لئے شہادت کا پیغام لے کر آیا اور میجر شبیر شریف کے سینے میں کاری زخم لگا گیا،جس سے وہ نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑے۔ بے ساختہ ان کی زبان پر کلمہ شہادت جاری ہو گیا جیسے ہی جوان ان کے قریب پہنچے تو وہ جامِ شہادت نوش کر چکے تھے۔ یہ 6 دسمبر 1971ء کا دن تھا۔آپ کو بعد از شہادت  پاک فوج کا سب سے بڑا اعزاز نشانِ حیدر دیا گیا۔ یاد رہے کہ ان تمغوں کی قباء میں قوموں کا دِل دھڑکتا ہے۔ نشانِ حیدر، حیدرِ کرار شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نسبت رکھتا ہے۔یہ اعزاز صرف پاک فوج کے اس افسر اور جوان کو ملتا ہے،جو وطن ِ عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے شہیدہو جاتا ہے۔

 میجر شبیر شریف نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے  19اپریل 1964ء کو کمیشن حاصل کیا۔آپ نشانِ حیدر حاصل کرنے والے دوسرے فوجی افسر ہیں، جنہوں نے پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر ایئر مارشل اصغرخاں سے اعزازی شمشیر حاصل کی تھی۔آپ نے آٹھ سالہ فوجی ملازمت کے دوران مختلف کورسز بھی امتیازی پوزیشنوں سے پاس کیے۔ 1965ء آپ رن کچھ میں مصروف جنگ تھے۔ یکم ستمبر 1965ء کو بھارتی حملہ آوروں سے نبرد آزما ہونے کے لئے آپ اپنی کمپنی کے ہمراہ آزاد کشمیر کی جانب پیش قدمی کر گئے۔ اس وقت آپ سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے کمپنی آفسر تھے۔ آپ کی قیادت میں آپ کی یونٹ منادر،چھمب کو روندتے ہوئے چار ستمبر کو جوڑیاں سے کچھ فاصلے پر جا پہنچی۔جوڑیاں بھارتی فوج کا مضبوط قلعہ تھا۔میجر شبیر شریف نے اپنی بہترین حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس قلعہ پر بھی قبضہ کرلیا۔ بھارتی فوج قلعے میں اپنا بیشمار اسلحہ چھوڑ کر پسپا ہوگئی۔اس عظیم کامیابی پر آپ کوستارہ جرات (جو نشانِ حیدر کے بعد سب سے بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔) سے نوازا گیا۔

میجر شبیر شریف بہادر، دلیر اور جنگجو راجپوت خاندان کے فرزند تھے۔ آپ کا خاندان کشمیر سے ہجرت کر کے ضلع گجرات کے نواحی قصبے کنجاہ میں مقیم ہو گیا۔ میجر شبیر شریف 28 اپریل 1943ء کو کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ نہایت متقی، پرہیزگار اور تہجد گزار تھیں۔ انہوں نے آپ کا نام شبیر حسین رکھا جو بعد میں والد کی مناسبت سے شبیر شریف ہو گیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم راولپنڈی، مری اور کوئٹہ کے سکولوں سے حاصل کی۔پھر جب والد کا تبادلہ کوئٹہ سے لاہور ہو گیا تو آپ کو سینٹ انتھونی سکول لاہور میں داخل کرا دیا گیا۔ یہاں آپ نے کرکٹ اور ہاکی کے لاتعداد اعزازت حاصل کیے۔ سینئر کیمبرج کے بعد آپ گورنمنٹ کالج میں داخل ہو گئے۔ یہاں بھی سائیکل ریس میں اوّل انعام حاصل کیا۔ 

مزید :

رائے -کالم -