حج پالیسی 2013 ءکے لئے تجاویز (3)

حج پالیسی 2013 ءکے لئے تجاویز (3)

  

 وزارت مذہبی امور نے عازمین کی سہولت کے لئے اہم شہروں میں کروڑوں روپے کے اخراجات سے بنائے اور چلائے جانے والے حاجی کیمپوں کا استعمال دو سال سے ترک کر رکھا ہے-دوسرے شہروں سے آنے والے ناخواندہ ‘ نیم خواندہ اور سادہ لوح حاجیوں کویہاںخوش آمدید کہنے اور یہاںسے فضائی کمپنیوں کی فراہم کردہ بسوںمیں ائر پورٹ پہنچانے کی بجائے براہ راست ائر پور ٹ پہنچنے کے لئے اپنے طور پر انتظامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس طرح ان کے سفر کو ابتدا ہی سے اپنے ملک میں ہی مشکل بنا دیا گیا ہے - پہلی مرتبہ جہاز کے ذریعے سفر کر نے یا غیر ملکی سفر پر روانگی کے مختلف مراحل سے گزرنے کے دوران اچھے بھلے پڑھے لکھے شخص کا کنفیوز ہو جانا ایک فطری امرہے جبکہ گورنمنٹ سکیم کے عازمین حج کی بڑی اکثریت ایسے ناخواندہ اور معمر افراد پر مشتمل ہوتی ہے جنہوں نے ساری عمر اپنے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر یا صوبائی دارالحکومت تک بھی سفر نہیں کیا ہوتا- دو سال پہلے تک گورنمنٹ سکیم کے حاجیوں کے سامان کی اینٹی نارکوٹکس فورس اور کسٹم کے عملے کی طرف سے تلاشی ‘ سامان کا وزن اور اس کی جہاز میں بکنگ اور مسافروں کو بورڈنگ پاس جاری کرنے کا کام حاجی کیمپوں میں ہی انجام پاتا تھا جہاں مختلف محکموں کا عملہ اور سکاﺅٹس ان کی ہر ممکن مدد کے لئے ہر وقت حاضر خدمت رہے تھے جس سے حاجیوں کو کافی سہولت رہتی تھی اورانہیں اجنبیت کا احساس کم ہوتا تھا اور کوئی خوف نہیں ہوتا تھا-2011ء اور 2012ءکے دوران یہ سب مراحل ائیر پورٹوں پر انجام دئیے گئے جو خوشگوار تجربہ نہیں رہا-اس لئے ضروری ہے کہ پرانا طریقہ کار بحال کیا جائے اوریہ تمام مراحل حاجی کیمپوں میں ہی انجام دئیے جائیں- لاہور سمیت جن شہروں میں مستقل حاجی کیمپ موجود نہیں وہاں ان کا قیام عمل میں لایا جائے اور ان حاجی کیمپوں کو سارا سال حاجیوں کے تربیتی مرکزکے طور پر استعمال کیا جائے-  گزشتہ دو سالوں میں ’پہلے آئیے پہلے پائیے‘ کی بنیاد پر گورنمنٹ حج سکیم کے لئے درخواستیں وصول کرنے کا تجربہ کامیاب رہا ہے - اسے اس مرتبہ بھی جاری رکھا جائے تا ہم شفافیت برقرار رکھنے کے لئے تمام بینک گورنمنٹ سکیم کے تحت ہر روز وصول ہونے والی درخواستوں کی روزانہ کی بنیاد پر ہی ڈیٹا اینٹری کر یں- اس مقصد کے لئے وہی فارمیٹ بنایا جائے جس کے تحت ان درخواستوں کی وزارت مذہبی امور میں ڈیٹا اینٹری کی جاتی ہے- نامزد بینکوں کی تمام شاخیں ایک دن میں وصول ہونے والی درخواستیں آن لائن طریقے سے اپنے مرکزی بینک کو ارسا ل کردیں جہاں سے ہر ر وز ملک بھر سے وصول ہونے والی درخواستوں کو آن لائن طریقے سے ہی وزارت مذہبی امور کو ارسال کر دےا جائے -اس طرح ہر روز شام کو ملک بھر میں جمع کروائی جانے والی درخواستوں کی تعداد سامنے آجائے گی جسے عازمین حج کی معلومات کے لئے میڈیا کے ذریعے بھی مشتہر کیا جا ئے -اس طریقے سے شفافیت یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے وصول ہونے والی حج درخواستوں کو اکٹھا کر کے وزارت مذہبی امورمیں ان کی ڈیٹا اینٹری کے لئے صرف ہونے والے تین سے چار ہفتوں کا وقت بھی بچایا جا سکتا ہے-گورنمنٹ سکیم کے عازمین حج کو رہائش کی گرین کیٹیگری کے نام پر سبز باغ نہ دکھائے جائیں بلکہ گرین اور وائٹ کیٹیگری کا فرق ابھی سے ختم کر دیا جائے کیونکہ حرم شریف کے قریبی علاقوں میں واقع عمارتیں تیزی سے مسمارہونے کے باعث آئندہ چند برسوں میں ایساکرنا ناگزیر ہو جائے گا-تمام حاجیوں کو حرم کی حدود کے اندر حر م شریف سے چار سے چھ کلومیٹر کے درمیانی علاقوں میں رہائشیں مہیا کر کے فری ٹرانسپورٹ کی سہولت کی فراہمی یقینی بنائی جائے - اس مقصد کے لئے ٹرانسپورٹ کا باقاعدہ نظام وضع کر کے اس کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کی جائے - پاکستانی حاجیوں کے لئے استعمال کی جانے والی بسوںمیں اردو بولنے والے ڈرائیور متعین کئے جائیں- یہ بسیں حاجیوں کو ان کی رہائش گاہوں سے لے کر حرم شریف سے نزدیک ترین جگہ پر اتاریں جہاں سے پیدل راستہ کسی بھی طرح ایک کلومیٹر سے زیادہ نہ ہو- مکہ مکرمہ کے مختلف علاقوں میںپاکستانی حاجیوں کے لئے رہائش گاہیں مستاجروں کی بجائے اصل مالکوں سے طویل المعیاد لیز کی بنیاد پر20یا30سال کی مدت کے لئے حاصل کی جائیں -اس طرح مڈل مین کی طرف سے کئے جانے والے استحصال کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا اور پاکستانی حاجی کافی حد تک ہر سال کرایوں میں اضافے سے پڑنے والے بوجھ سے محفوظ رہ سکیں گے-اس مقصد کے لئے اکا دکا عمارتیں حاصل کرنے کی بجائے ایک ہی محلے یا گلی میں واقع متعدد کثیر المنزلہ عمارتیں حاصل کی جائیں یعنی ان عمارتوں کے گروپ لیز پر حاصل کئے جائیں تا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مقامات پاکستانی حاجیوں کی رہائش کی معروف جگہوں کے طور پر اپنی شاخت بنا سکیں یعنی یہ پاکستانی حاجیوں کے محلوں کے طورپر مشہور ہو سکیں اور حاجیوں کو بھی مکہ مکرمہ آنے سے پہلے ہی ان کے بارے میں علم ہو اور یہاں قیام کے دوران انہیں یہ عمارتیں تلاش کرنے میں آسانی رہے-مکہ مکرمہ میں ہر سال دنیا بھر سے آنے والے حاجیوں کے لئے سات ہزار سے زائد کثیر المنزلہ عمارتیں کرائے پر حاصل کی جاتی ہیں- بلدیہ مکہ مکرمہ نے ان رہائش گاہوں کا ایک معیار مقرر کیا ہے جس کے تحت ان عمارتوں میں ایک الیکٹریشن ‘ ایک پلمبر ‘ صفائی کرنے کے لئے اہلکار ‘ چار منزلہ سے بلند عمارت میں لفٹ کی موجود گی ‘ ایمرجینسی اخراج کے راستے اور دیگر ضروری سہولتوں کا دستیاب ہونا ضروری ہے -اس معیار کا خصوصی طور پر خیال رکھا جائے - پاکستانی حاجیوں کے لئے رہائشی عمارتوں کے چناﺅ‘ ان عمارتوں کی ظاہری حالت ‘ وہاں ضروری سہولتوں کی عدم دستیابی اور ان کی مرمت و دیکھ بھال سے غفلت برتنے کی شکایات اکثر سامنے آتی ہیں-اس سارے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے -معیاری عمارتوں کے انتخاب کے لئے سیاستدانوں یا بیورکریٹس کے ساتھ ساتھ پبلک ورکس یا بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ کے ماہرین تعمیرات کی خدمات بھی حاصل کی جائیں اور شکایات کی صورت میں انہیں جوابدہ بنایا جائے-عمارتوں کے کرایوں پر بھی نظر ثانی کی جائے ‘ حاجیوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے ‘ مڈل مین کا خاتمہ کیا جائے اور کمیشن مافیا کا قلع قمع کر کے حاجیوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے والوں کا ہاتھ روکا جائے-حکومت پاکستان ہر سال حاجیوں کی ویلفیئر کے لئے وسیع انتظامات کر تی ہے تاہم بہت سے حاجی ان سے آگاہ نہیں ہوتے- حاجیوں کومہیا کئے جانے والے شناختی کارڈ پر ان کی رہائش گاہ کے قریب ترین قائم پاکستانی ڈسپنسری اور حج مشن کے دفتر کا پتہ اور ٹیلی فون نمبر ضرور درج کیا جائے-اس کے علاوہ حاجیوں کی رہائشی عمارتوں میں ان اقدامات کی تفصیلات نمایاں طور پر چسپاں کی جائیں تا کہ حاجی ان سہولتوں سے استفادہ کر سکیں-  منٰی کے خیموں کے معاملے میں گورنمنٹ سکیم کے حاجیوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک نہ کیا جائے بلکہ منٰی کی قدیمی حدود میں واقع خیموں میں ان کاکم ازکم40فیصد کوٹہ لازمی طور پر مختص کیا جائے - معلمین کی طرف سے خیموں میں گنجائش سے زیادہ حاجی ٹھہرانے کا معاملہ سعودی وزارت حج کے نوٹس میں لایا جائے اور ایک خیمے میں حاجیوں کی تعداد کا تعین کر کے اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے -  مناسک حج کی ادائیگی کے پانچ دنوں میں حاجیوں کو کھانے پینے کی اشیاءکے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے- اس لئے ضروری ہے کہ پرائیوٹ سکیم کی طرح گورنمنٹ سکیم کے حاجیوں کو بھی کھانے کی سہولت مہیا کرنے کا انتظام کیا جائے - اس مقصد کے لئے وزارت مذہبی امور کی طرف سے منٰی کے خیموں میں کنٹین قائم کروانے کے علاوہ کھانے کی فراہمی کے لئے معلم کواضافی فیس کی ادائیگی کا بھی جائزہ لیا جائے تا ہم یہ اضافہ کم سے کم ہونا چائیے کیونکہ بڑی مقدار میں کھانا تیار کروانے سے فی کس لاگت بھی کم آتی ہے- یہ کھا نا بے شک مرغاً غذاﺅں پر مشتمل نہ ہو تا ہم یہ متوازن او رحفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کردہ ضرور ہو اور اس کے بارے میں حاجیوں کو قبل از وقت بتا دیا جائے کہ فائیو سٹار کھانوں کی توقع نہ کریں‘ اس قیمت میں انہیں سبزی دال وغیرہ ہی دستیاب ہو سکے گی تا ہم یہ معیاری ہو گی -مناسک حج کے لئے حاجیوں کو منٰی سے عرفات ‘ وہاں سے مزدلفہ اور پھر واپس منٰی میں آنے کے لئے ٹرین کی سہولت مہیا کر دی گئی ہے جس سے ان کی مشکلات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے -تاہم حج کے لازمی رکن طواف زیارت کے لئے منٰی سے مکہ مکرمہ جانے کے لئے سعودی یا پاکستانی حکومت حتیٰ پرائیوٹ ٹور آپریٹرز کی طرف سے بھی کوئی باقاعدہ بندوبست نہیں کیا گیا جس کی بنا پر مقامی ٹیکسی اور ویگن ڈرائیورسینکڑوں ریالوں میں منہ مانگا کرایہ وصول کرتے ہیں-حکومت پاکستان اس معاملے کو بھی سعودی حکومت کے نوٹس میں لائے اور حج کے پانچ دنوں میںپرائیوٹ بس ‘ ویگن اور ٹیکسی ڈرائیوروں کے لئے زیادہ سے زیادہ کرائے کی حد مقر ر کر کے اس پر سختی سے عمل درآمد کروانے کے لئے ضروری اقدامات یقینی بنائے جائیں- خدام الحجاج کے نظام کو مربوط بنیادوں پر استورا کیا جائے -مکہ مکرمہ میں رضاکاروں کی بھرتی کے لئے باقاعدہ مہم چلائی جائے اور وہاں روزگار کے سلسلے میں مقیم تعلیم یافتہ پاکستانی پرفیشنلز کو اس جانب مائل کیا جائے-اس سلسلے میں پاکستانی قونصل خانے کے لیبر اتاشی اور کمیونٹی ویلفیئر اتاشی کے تعاون سے ان رضاروں کا ریکارڈ مرتب کر کے اسے باقاعدہ تنظیم کی شکل دی جائے تا کہ دو چار سال بعد حاجیو ں کی خدمت کے لئے تجربہ کار افراد دستیاب ہو سکیں -ہر سال مناسک حج مکمل ہونے کے بعد وطن واپسی کی پروازوں میں تاخیر کا شکایات تو سامنے آتی ہیں مگر ان شکایات کی وجوہات یا پھر ان کے تدارک کے لئے کئے جانے اقدامات پر کسی کی توجہ نہیں جاتی اور پی آئی اے جو بہر حال ایک قومی ادارہ ہے اسے اپنے حصے سے زیادہ تنقید کا نشانہ بننا پڑتاہے-معلمین کی طرف سے یا تو حاجیوں کو بروقت جدہ ائیر پورٹ نہیں پہنچایا جاتا یا پھر ائر پورٹ پر پاکستانی جہازوں کو بورڈنگ کے لئے سلوٹس بروقت مہیا نہیں کی جاتیں - دونوں صورتوں میں اذیت حاجیوں کو ہوتی ہے اور وہ حقیقی صورتحال سے واقفیت نہ ہونے کے باعث اس کا ذمہ دار قومی ائر لائن کو سمجھتے ہیں جس سے اپنے ہی ادارے پر عدم اعتماد میں اضافہ اور قومی سطح پر مایوسی اور نا امیدی کی پھیلناایک فطری امر ہے - چنانچہ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ان وجوہات کا تدارک کیا جائے -حاجیوں کے انتظار کی اذیت کم کرنے کے لئے قومی ائر لائن ائر پورٹ پر طویل انتظار کرنے والے حاجیوں کو اپنے خرچ پر کھانا مہیا کردے تو شاید اس پر کی جانے والی تنقید میں کمی واقع ہو سکے-پاکستان حج مشن کی جانب سے مکہ مکرمہ ‘ مدینہ منورہ اور مشاعر مقدسہ میں کئے جانے والے علاج معالجے اور ویلفیئر کے دیگر انتظامات کے بارے میں بھی حاجیوں کو آگاہی دی جائے تا کہ حاجی ان سے استفادہ کر سکیں اور ان کی مشکلات کم ہو سکیں -   (ختم شد)   ٭

مزید :

کالم -