شاہی تاج پہننے کے شوقین

شاہی تاج پہننے کے شوقین
شاہی تاج پہننے کے شوقین

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بڑے دنوں بعدحجامت کی غرض سے ایک حجام کی دکان پر جاپہنچا،مُجھ سے پہلے ایک دوکسٹمرموجودتھے ، مَیں اپنی باری کے انتظارمیں بینچ پربیٹھ گیا، حجام سفید ریش ہے ،مگرشوق جوانی اس سے بال کالے کرواتاہے ، آج اس کی داڑھی آدھی سے زیادہ سفیداورتھوڑی کالی دکھائی دے رہی تھی ،رنگین ٹیلی ویژن پروہ مختلف چینل دیکھتا ہے ،خبریں سنتاہے ،مگرجونہی ٹی وی کے اینکر اور اینکرنیاں کہتی ہیں کہ ایک بریک کے بعد ملتے ہیں ، ہمارے ساتھ رہئے ....وہ فوراً ریموٹ اسی ہاتھ سے گھماتا ہے، جس میں اس نے قینچی اورکنگھی تھام رکھی ہوتی ہے، مجھے یوں لگا جیسے اسے کمرشل اشتہارات سے چڑہے یا وہ انہیں فضول خیال کرتا ہے۔مَیں نے اس سے ایسا کرنے پر کوئی سوال نہیں کیا،مگرجونہی ایک صاحب اپنی دانش فروشی کی دکان سجانے لگے ،تووہ حجام توجہ سے سننے لگا،ہم بھی اس کی دانش فروشانہ لغویات سے دل تھام کررہ گئے، ہم نے اس کی گفتگوسننے کے فوراً بعداپنابے لاگ تبصرہ داغ دیا،اس سے رہانہ گیا،اس نے کہاکہ کیوں مولوی صاحب! اس نے کوئی غلط بات تونہیں کہی ۔یہ صاحب میاں نوازشریف کے دورحکومت کوغلط ثابت کررہے تھے اورعمران خان سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے۔دانش فروش صاحب نے کہا!کہ نواز شریف آزمائے ہوئے ہیں ،انہیں دوبارہ کامیاب نہیں کرواناچاہئے ،نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مومن ایک سوراخ سے دوبارنہیں ڈساجاتا۔نوازشریف نے اپنے دورِحکومت میں ”قرض اتاروملک سنوارو“ کے نعرے لگائے ، کروڑوں روپے جمع کئے ،مگران کاآج تک پتہ نہیں چلاکہ وہ کہاں گئے ؟کوئی اس ورق کوپلٹنے والا نہیں ہے۔نوازشریف نے کارگل کے محاذ پر کیاگل کھلائے ، نواز شریف نے عدالت عظمیٰ کے ساتھ کیاسلوک کیا؟ نواز شریف نے فوج کے ساتھ کیاکیا؟نوازشریف کے دورمیں ڈالرکاریٹ بلندہوناشروع ہوا،غرضیکہ وہ دانش فروش صاحب اپنی دکان کے پھیکے پکوان ٹی وی سکرین پربیچتے دکھائی دے رہے تھے،جونہی ان کے ارشادات ختم ہوئے تو مَیں نے تجاہل عارفانہ کے تحت تبصرہ شروع کردیا۔مجھے حجام نے ٹوکتے ہوئے کہا:کیوں جی !کوئی بات اس نے غلط تونہیں کہی ؟ اگر اس نے جھوٹ کہا تو آپ بتائیں، مَیں بھی خاموش ہو گیا، اس کی بات کا مَیں جواب نہیں دے سکا،کیونکہ جو گاجریں کھاتے ہیں، انہی کے پیٹ میں مروڑبھی اُٹھتے ہیں، مَیں نے روئے سخن دوسری طرف موڑتے ہوئے کہا: جناب! ان موجودہ حکمرانوں سے توٹھیک تھا،ان کے دورمیں کئی بار ہم آپ کی دکان سے حجامت کروائے بغیرچلے گئے کہ جی! ابھی لائٹ چلی گئی ہے،آپ کل آئیں ، مَیں نے کہا: آپ بتائیں کہ ایساہواکہ نہیں ہوا؟اس نے کہا: کیا آپ کو اس بات کاعلم ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں بجلی گھرتعمیرکروانے کے منصوبے بنائے تھے، مگرآپ کے لاہوری بابونے آ کر اس کے سارے منصوبے روک دئیے تھے ،یہ اندھیرے انہی صاحب کے دور کے تحفے ہیں۔ مَیں سنتا رہا،مجھ سے رہا نہ گیا، مَیں نے کہا:جناب !آپ دیکھیں کہ لوگ سورہے ہوتے ہیں،مگر میاں شہباز شریف رات کو گلیوںمیں پہرہ دے رہا ہوتاہے ،وہ مفلرلپیٹ کر سڑکوں کا تعمیراتی کام دیکھ رہا ہوتاہے، وہ دن رات ایک کررہاہے ،وہ لوگ جتنا کر سکتے ہیں اتنا توکر رہے ہیں،جن کی آپ بات کر رہے ہیں، ان کے دور میں ہمیں تاریکیاں ملیں، گیس غائب ہو گئی ،مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے ،پورے ملک میں افراتفری انہی کے دم قدم سے ہے،قتل وقتال کی وارداتیں انہی کے سیاہ دور میں ہو رہی ہیں،ان کے دور میں کراچی جیسا روشنیوں کا شہر صرف ان کی بھتہ خوری کی نذر ہو رہا ہے۔ مَیں نے کہا:کہ جناب آپ کی باتوں سے اندازہ ہوتاہے کہ پھرمولویوں کوووٹ دیناچاہئے ،اس نے ترت سے کہا:کہ جی ! پرویز مشرف کے دورمیں لوگوں نے مولویوں کوووٹ دئیے تھے ،کے پی کے(صوبہ سرحد کا نیا نام) میں ان کی حکومت بنی تھی ،انہی کے دورمیں ملک میں تباہی آئی،موجودہ تباہی کاآغازانہی کے دور میں ہوا، اس کی اس حاضرجوابی پر مَیں ہکابکارہ گیا، وہ بھی میری اچھی خاصی کلاس لے رہاتھا۔ مَیںنے کہا: کہ آپ بتائیں کہ آج تک کس کی حکومت ٹھیک رہی ہے؟ اس نے جھٹ سے کہا:کہ جناب مجھے توجرنیلوں کی حکومت اچھی لگتی ہے ،کم ازکم آدمی روٹی توسکون سے کھاتاہے ،جرنیلوں کے زمانے میں سکون ہوتاہے ،مہنگائی کنٹرول میں ہوتی ہے ، افراتفری نہیں ہوتی ۔ حجام کی یہ جرا¿ت مندانہ اورانصاف پسندانہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کا ایک ورکر آ گیا، جس کی آمد پر اس نے کہا:لو!ایک اور آ گیا ہے ،ان کی گفتگو سے یوں لگ رہا تھا کہ ان دونوں کی آپس میں بے تکلفی ہے ،حجام کوشش کر رہا تھا کہ اب ہم اس موضوع کو ختم کر دیں ،جوکافی دیر سے جار ی تھا، وہ گفتگو کر رہا تھا تو مَیں خیالات کی دُنیا میں اپناکالم ترتیب دے رہا تھا۔ مَیں نے حجامت کی رقم ادا کی اور چچا حجام کو سلام کر کے واپس آ گیا اور راستے میں اس کی بے باکانہ گفتگو کو سوچتا رہا،حالانکہ میں جب جرنیلی دور پر نگاہ دوڑاتا ہوں تو مجھے اس دور میں ختم نبوت کے پروانوں پر لاہور کی شاہراہوں پرخون مسلم کی بہتی ندیاں ،چھلنی وجود اور بکھرتے گوشت کی بوٹیاں دکھائی دے رہی ہیں، پرویزمشرف نے جرنیلی وردی میں جوگل کھلائے، وہ خوابوں میں بھولنے والے نہیں ہیں ،اس کے دورعیاشی میں ماو¿ں اور بہنوں کے آنچل تارتارہوئے ،بہنوں کی عصمتیں پامال ہوئیں ،لال مسجدکاآنگن ،جامعہ حفصہ کی چاردیواری اسی جرنیل کے سیاہ اورکالے دورمیں خوںچکاں بنی۔ اس کی وردی کوسنبھالادینے والے ہمارے وہ علماءپیش پیش تھے ،جنہوں نے ایل ایف اوکے عنوان پراس کوحفاظتی حصارمیں لئے رکھا، اس نے لال مسجد کو ادھیڑ ڈالا،اس نے تہذیب اورتمدن کاجنازہ نکال دیا، اس نے امریکی غلامی کاحق ادا کر دیا تھا،اس نے ڈالروں کے عوض مسلمان بیٹیوں اور بیٹوں کو امریکہ کے ہاتھ فروخت کیا تھا،اس نے جہادی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں پر پابندی لگائی تھی۔آج قائدین خود سوچیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ہم روزانہ سن رہے ہیں کہ پی پی پی والے کہتے ہیں کہ آئندہ بھی حکومت ہم بنائیں گے، راجہ پرویز اشرف کی گفتگو سن کر اپنا سر دیوار سے مار کر پھاڑ دینے کا خیال آتا ہے کہ مولائے کائنات! ان ظالموں سے اب تو ہماری جان چھڑادے ،یہ ہمیں ،ہماری نسلوں کو تاریک راہوں پرڈالنے کے لئے سرگرم ہیں۔ جوں ہی انتخابات کے ایام قریب آتے ہیں تو ہمیں آس اور امید ہوتی جاتی ہے کہ اب سب ٹھیک ہوجائے گا، مگر ہمارا ہر آنے والا دن پہلے والے دن کی نسبت زیادہ پریشانی کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ ہم آ رہے ہیں ،سونامی خان کہہ رہے ہیں کہ ہم آ رہے ہیں ،مگر سوچیں کہ آپ لوگ آ کرکیا کریں گے ، حالات بہت ناگفتہ بہ ہیں ۔ پریشانیاں ختم ہونے کانام نہیں لے رہیں ، مہنگائی کا عفریت کسی سے قابو میں نہیں آ رہا، قتل وغارت گری کا گھوڑا بے لگام ہو رہا ہے،چوریاں ، ڈکیتیاں عام ہیں، حکمرانوں کی خرمستیاں بھی کسی سے مخفی نہیں ہیں، آپ سارے لوگ تاج شاہی سجانے اور اپنی کلغی بلند کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔تاج شاہی سرپرسجانے کاسب کوشوق ہے، مگر تخت شاہی پر بیٹھنے کے بعدیہ لوگ خواب خرگوش میں مست ہو جاتے ہیں، انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے کرنا کیا ہے؟ دیرپا اور دور رس منصوبے کیا ہوتے ہیں؟ ہمارے بعد آزاد ہونے والی ریاستیں اس وقت دُنیا پر چھائی ہوئی ہیں۔ہمارے ہاں موروثی سیاست چلتی ہے ، باپ کی ٹانگوں سے جب گودا ختم ہونے لگتا ہے تو اس کا بیٹا اس کا جانشین بن کر سیاست دان بن جاتا ہے۔ اسے کچھ پتا نہیں ہوتا کہ اس نے کرنا کیا ہے اورکیا نہیں کرنا؟ ملکی معاملات کو اس وقت سنبھالا دینے کی سخت ضرورت ہے، حالات سیاست دانوں کی گرفت سے نکلتے جا رہے ہیں، سب کے لئے ضروری ہے کہ اس ملک کے لئے ہمدردی سے سوچیں ،حکومتیں آنی جانی ہیں،لیکن ہمارے سیاست دانوں کو سوچ سمجھ کر سیاسی قدم اُٹھانے کی سخت ضرورت ہے ،پہلے سے زیادہ اس ملک کو پالنے پوسنے کی ضرورت ہے۔      ٭

مزید :

کالم -