بلوچستان کے مسائل اور حکومت بلوچستان کی ذمہ داریاں

بلوچستان کے مسائل اور حکومت بلوچستان کی ذمہ داریاں
 بلوچستان کے مسائل اور حکومت بلوچستان کی ذمہ داریاں
کیپشن: kashif

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جناب من !بلوچستان جو رقبہ کے لحاظسے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر معاشی اعتبار سے اس کی حالت یہ ہے کہ یہاں کے باسیوں کو روزگار کی عدم فراہمی اورعلاج ،تعلیم ،خوراک اور پانی جیسی بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی نے بے چین اور بے کل کردیا ہے ۔شروع ہی سے یہ صوبہ بین الاقوامی سیاست میں عالمی استعمار کی سازشوں کی نذر ہو گیا اور دانستہ طور پر اس کے ترقیاتی انفراسٹرکچر کے قائم کرنے میں اس لئے تجاہل عارفانہ سے کام لیا گیا کہ مبادا سوویت یونین (جو کہ افغانستان تک آگیا تھا )گرم پانیوں تک رسائی حاصل کر لے اور یہ بات امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ پھر اس کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ شروع ہی سے یہ علاقہ مار دھاڑسے بھرپور رہا ہے،جنگوں اور باہمی لڑائیوں کی ایک پوری تاریخ اس خطہ کی موجود ہے کہ” پیغور “جو کہ انتقامی شاعری اس خطہ کی مقبول رہی ہے بین القبائل جنگ وجدل کے شعلوں کو ہوا دیتی رہی ہے اور آج تک قبائل کے درمیان روایتی دشمنیاں جو نسل در نسل چلی آتی ہیں برقرار ہیں جس کی بھینٹ یہاں کے غریب لوگ چڑھتے ہیںجسکی ایک مثال پچھلے ماہ بگٹی قبیلے کے ہزاروں افراد کا کشمور میں اس بات پر دھرنا دینا ہے کہ انھیںڈیرہ بگٹی میں داخل نہ ہونے دیا گیا کہ کلپر قبیلہ اور دوسرے کئی لوگ نہیں چاہتے کہ شاہ زین بگٹی وغیرہ وہاں جا بسرام کریں۔

یہ بات تو طے ہے کہ جس گھر میں لڑائی جھگڑا شدت اختیار کر لے وہاں معاشی خوشحالی کا خواب محض خواب ہی رہتا ہے اور یہی حال اس وقت بلوچستان کا ہے کہ باہمی ناچاقی ،تعصب اور نفرت کے شعلوں نے غریب اور غیور بلوچ عوام کو بھسم کردیا ہے ۔وہاں کے سرداروں، جاگیرداروںاور وڈیروں نے وفاق سے اربوں روپے بٹورے مگر مفلس لوگوں کی بد حالی میں کوئی کمی نہ آئی اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ سرداری نظام میں ایک سردار کبھی پسند نہیں کرتا کہ عام لوگ علم و شعور کی دولت سے مالا مال ہوں اور کل کلاں سردار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں ۔اس لیے ذات پات ،رنگ و نسل کے امتیاز کو برقرار رکھنا اور عوام کودبائے رکھنا انکا مطمح نظر رہا ہے۔اس لیے بلوچ عوام کو بجائے پنجاب اور وفاق کو گالی دینے کے یہ سوچنا ہوگا کہ وہ کون سے مقامی عناصر ہیں جو انکی محرومیوں کا سبب ہیں اور اس ضمن میں بلوچستان کے صحافیوں کو جابر سلطان کے آگے کلمہ حق کہنا ہوگا اور ان سرداروں اور بد نیت جاگیر دارو ں کی خامیوں کو طشت ازبام کرنا ہوگا کہ جو نہیں چاہتے کہ عوام میں شعور اور ترقی ہو۔اس لئے وہ صوبائیت کے نام پر پنجاب سے آنے والے نہتے لوگوں کو خاک و خون میں نہلا دیتے ہیں کہ مبادا ان میں ایسے لوگوں کے میل ملاپ سے رجعت پسندی کے خلاف جذبات پیدا ہو جائیں اور وہ اپنے حقوق ہی مانگنا شروع ہو جائیں ۔اس لیے بلوچستان کے ہر باشعور باشندے کا فرض ہے کہ ایسے جاگیر داروں کی نشان دہی کریں اور ظلم کے خلاف نعرئہ ©© ”ہو“ بلند کریں ۔بقول رشید قیصرانی :
خموش کیوں ہے قلندروں کا مسکن رشید
کوئی تو وجد میں آئے ،کوئی تو ہو بولے

بہرحال موجودہ تناظر میں صورتحا ل کا طائرانہ نگاہ ہی سے جائزہ لیں تو یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ 2013ءکے انتخابات میں ڈاکٹر عبدالمالک کے برسر اقتدارآنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ بلوچستان میں خوشحالی اور آسودگی کا ایک نیا دور شروع ہو گا مگر صورت حال جوں کی توں ہے ، بد امنی اور لا قانونیت کے سائے مزید گہرے ہو گئے ہیں چنانچہ رواں سال کا آغاز بلوچستان کے لئے بہت سی بری خبریں لیکر آیا ہے، چنانچہ 21جنوری 2014ءکو بلوچستان کے ضلع مستونگ کے قریب درینگڑھ کے مقام پر ایران سے کوئٹہ آنے والی زائرین کی بس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور اس میں سو کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا جس کے نتیجہ میں 23معصوم جانیں راہی ملک عدم ہو گئیں جبکہ 40افراد زخمی ہوئے ۔اس حملے کی ذمہ داری کالعدم لشکر جھنگوی نے قبول کر لی۔اس ضمن میں ایک الزام بلوچستان حکومت پر یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ بلوچ علیَحدگی پسندوں سے نمٹنے کیلئے عسکریت پسندوں (لشکر جھنگوی)کی سرپرستی کر رہی ہے جس کے نتیجہ میں معصوم ہزارہ کمیونٹی کو لشکر جھنگوی کی طرف سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس لیے بلوچستان حکومت کو اس الزام کا جواب دینا چاہئے اور عملی طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت بلوچستان نے اگر تنگ نظری ،تعصب اورانتہا پسندی کی سوچ کو ختم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات نہ کئے تو اس کے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے اور فرقہ ورانہ تشدد اور فساد تو چیز ہی ایسی ہے کہ پورا ملک اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے اس لئے جو لوگ بھی فرقہ وارانہ شدت پسندی میںملوث ہوں انکو کیفرکردار تک پہنچاناوقت کی نا گزیر ضرورت ہے اوراگر اب بھی تغافل مجرمانہ سے کام لیا گیاتو آئندہ نسلیںکبھی بھی اسکو معاف نہیں کریںگی ۔

مزید برآںبلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہے چنانچہ سانحہ مستونگ کے اگلے دن ہی اسی ضلع میں ایک اور واقعہ پیش آیاکہ اسپین سے آنے والے سائیکل سوار سیاح کی حفاظت پر مامور چھ لیویز اہلکار دہشتگردی کا شکارہو کر جاںبحق ہو گئے ۔جوابی کارروائی پر ایک حملہ آور بھی مارا گیا ۔جس کے بارے میں ڈاکر مالک نے بتایا کہ یہ حملہ آور شکل سے ازبک لگتا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں غیر ملکی بھی موجود ہیں اور بھارت کی بلوچستان میں مداخلت بڑی پرانی بات ہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت سے ہی یہ کہا جا رہا ہے کہ چمن میں بھارتی قونصل خانہ پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو تربیت دیتا ہے، جبکہ جولائی 2009ءمیں مصر کے شہر شرم الشیخ میں غیر وابستہ ملکوں کی کانفرنس کے موقعہ پر اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا مسئلہ اٹھایا اور اس کے ثبوت ان کو پیش کئے۔ بہرحال بلوچستان میں شرپسند عناصر اور بلوچ علیحدگی پسند تحریکیں بہت زیادہ سرگرم عمل ہیں اور ان تمام عناصر کو بیرونی قوتوں کی سرپرستی حاصل ہے جو پاکستان میں انتشار اور بدامنی کی خواہاں ہیں اور اس ضمن میں لسانی، صوبائی اور فرقہ ورانہ تعصب اور نفرت نے بلوچستان کو تباہی کے گڑھے میں ڈال دیا ہے اور ڈاکٹر مالک نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں حکومتی رٹ ابھی تک قائم نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے ایف سی ،لیویز اور پولیس اہلکارکھل کر کام نہیں کر پاتے اس لئے انارکی (Anarchy)کی صورتحال پائی جاتی ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ پچھلے سال آنے والے زلزلے نے صوبے کے 31اضلاع کے باسیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے گویا کہ قحط سالی کی کیفیت طاری ہے جس کی وجہ سے جرائم میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جو بھی بلوچستان میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوں انکو کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے ۔پھر نظریاتی طور پر ناراض بلوچوں کو منانا بھی ضروری ہے اور ا س ضمن میں خان آف قلات ،براہمداغ بگٹی اور حیر بیار مری وغیرہ مذاکرات وقت کی ضرورت ہیں اور جتنے بھی نظریاتی لوگ ہیں انکے تحفظات اور شکایات کو دور کرکے انھیں اس بات پر قائل کیا جائے کہ وفاق سے تعاون کریں تا کہ حکومت کی رٹ مکمل طور پر بلوچستان میں قائم ہو اس ضمن میں یہ بات خوش آئند ہے کہ پاک فوج میں بلوچوں کی بھرتی اور پسماندہ علاقوں میں فوج کے رفاہی اور تعمیراتی اقدامات بھی بلوچوں کی شکایات میں کمی کا باعث بن رہے ہیں بہرحال ڈاکٹر مالک کی حکومت کو پہاڑ جیسے مسائل کا سامنا ہے اور اس کیلئے صرف نیک نیتی ہی کافی نہیں بلکہ فولادی عزم کی ضرورت ہے اس لئے اب تغافل شعاری کو ترک کرنا ہوگا اور زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے ۔
                                                            

مزید :

کالم -