منشیات کا عفریت: بنی نوع انسان کو درپیش سنگین خطرہ
پانچ فروری 2014ءکو ملک کے ایک نہایت معتبرادارے "Hamdard Thinkers' Forum" (شوریٰ ہمدرد)نے راقم الحروف کواپنے ماہانہ اجلاس میں "منشیات کا عفریت : بنی نوع انسان کو درپیش سنگین خطرہ " کے موضوع پر اظہار خیال کی دعوت دی ۔ شوریٰ ہمدر د کے بانی حکیم محمد سعید شہید تھے، جبکہ آج کل اس کی روح رواں اور صدر حکیم صاحب کی بیٹی محترمہ سعدیہ راشد ہیں ۔شوریٰ ہمدر دکے اراکین میں ملک کے چوٹی کے دانشور ، اہل علم و اہل قلم ، اعلیٰ سول و فوجی افسران، وکلاء، علماء، پروفیسر، ڈاکٹر، غرض ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اہم ترین لوگ شامل ہیں ۔نامورقانون دان اور سیاست دان ایس ایم ظفر شوریٰ ہمدر د کے سپیکر ، نامور قلم کار، شاعرہ اور سیاست دان بشریٰ رحمان اس کی ڈپٹی سپیکر اور سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی اور معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر پروفیسر رفیق احمد اس کی سبجیکٹ کمیٹی کے کنوینر ہیں ۔ پانچ فروری کے اجلاس کی صدارت محترمہ بشریٰ رحمان نے کی، جبکہ محترمہ سعدیہ راشداس اجلاس میں شرکت کے لئے بطور خاص کراچی سے تشریف لائیں ۔اجلاس میںشریک ہونے والے دیگر نمایاں افراد میں ڈاکٹر ایم اے صوفی، بریگیڈئر (ر)حامد سعید اختر،بریگیڈئر (ر) اشفاق احمد ،مولانا احمد علی قصوری، ابصار عبدالعلی ، ممتاز شفیع، راشد حجازی ، نورالحسن ، مجیب الرحمن انقلابی ، ایم آر شاہد، اکمل اویسی پیرزادہ، ڈاکٹر نیاز محمدہمدانی ، رانا امیر احمدخان ، عمرظہیرمیر ، شعیب مرزا،پروفیسر نصیر اے چودھری ،میجر(ر) صدیق ریحان، کامران ، اور اُن جیسے بے شمار لوگوں نے شرکت کی۔اس فورم میں مَیں نے موضوع کی مناسبت سے ملٹی میڈیا پر جو پریذنٹیشن دی ،اس کا ماحاصل کچھ اس طرح ہے ۔
آج دنیا کو دو قسم کی دہشت گردیوں نے اپنے خونخوار جبڑوں میں جکڑ رکھا ہے ۔ ایک دہشت گردی وہ ہے، جس میں گولیا ں چلتی ہیں،راکٹ اور بم گرتے ہیں، خودکش جیکٹیں پھٹتی ہیں، جسموں کے پرخچے اُڑتے ہیں ، اور انسان دل دہلادینے والی ہولنا ک مو ت مرتا ہے ۔ دہشت گردی کی دوسری قسم وہ ہے، جس میں نشہ آور شربت، پاﺅڈر،گولیا ں ، کیپسول اور انجکشن چلتے ہیں اور انسان سسک سسک کر ، ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ، ذلت آمیز اور درد ناک موت مرتا ہے۔ ان دونوں قسم کی دہشت گردیوں نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور دنیا کا ہر ملک اس سے بچنے کے لئے ہاتھ پاﺅں مار رہا ہے ، لیکن افسوس یہ ہے کہ دنیا نے دوسری قسم کی دہشت گردی، یعنی منشیات گردی کو وہ اہمیت اور توجہ نہیں دی، جتنی اُس نے پہلی قسم کی دہشت گردی کو دے رکھی ہے ۔
اگست 1945ءمیں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر امریکہ نے دو ایٹم بم گرائے ،جس کے نتیجے میں ہیروشیما میں ایک لاکھ اور ناگا ساکی میں ساٹھ ہزار سے زائد انسان لقمہ اجل بن گئے ۔ عالمی ضمیر ِبلبلا اُٹھا، اس کے بعد مرنے والے ، مارنے والے اور دیکھنے والے سب متحد ہوگئے ، پھراقوام عالم کے اس اتحاد نے 1945ءسے 2014ءتک کوئی دوسرا ایٹم بم نہیں پھٹنے دیا ۔ کوئی ملک ایٹم بم بنانے یا استعمال کرنے کا سوچے بھی تو تمام ملک اس کے درپے ہو جاتے ہیں ، اُس کا ناطقہ بند کر دیتے ہیں ، لیکن اُسے یہ کام نہیںکرنے دیتے ، لیکن افسوس کہ منشیات کا ایٹم بم پھٹ جانے دیا گیا اور اس کے نتیجے میں ہر سال اُس سے کہیں زیادہ انسان ہلاک ہو جاتے ہیں، جتنے دو ایٹم بموں کے پھٹنے پر ہوئے تھے،لیکن عالمی ضمیر میں کوئی بلبلاہٹ نہیں ۔
دنیا میں ہر سال دہشت گردی کے واقعات میں دس سے پندرہ ہزار انسا ن جان سے جاتے ہیں، جن میں عراق ، افغانستان اور پاکستا ن بھی شامل ہے۔ دنیا بھر کے ممالک ایک ہیجان میں مبتلا ہیںکہ اس دہشت گردی کو کیسے روکیں ؟ ملکوں کے آپس کے تعلقات دہشت گردی کے ان واقعات کی بنیاد پر بنتے اور بگڑتے ہیں ، لیکن دوسری طرف دنیا میںبے شمار ممالک ایسے ہیں، جن میں سے ایک میں ہر سال پندرہ ہزار سے کہیں زیادہ افراد منشیات کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتے ہیں، لیکن حکومتوں میںوہ ہیجان برپا نہیں ہوتا، جو پہلی قسم کی دہشت گردی کی صورت میں ہوتا ہے ۔اب صورت حال یہ ہے کہ منشیات کا بم پھٹ چکا ہے ۔ دنیا بھر میں ہر سال منشیات کے ہاتھوںلاکھوں لوگ مر رہے ہیں ، اگر اب بھی ہم سب نے سنجیدگی سے اس مسئلے پر توجہ نہ دی تو پھر مخلوق خدا کو ہلا ک کرنے کے لئے کسی عالمی جنگ ، کسی ایٹم بم یا کسی کیمیائی ہتھیارکو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ منشیات کے ہاتھوں انسانیت سسک سسک کر خود ہی اس کرئہ ارض سے نیست و نابود ہو جائے گی۔
دنیا بھر میں سب سے زیاد ہ استعما ل ہونے والی منشیات چرس، جسے حشیش، گانجااورمیری جوانا بھی کہتے ہیں۔ افیون اور اس سے بنے ہوئے مرکبات، ہیروئن، کوکین اور ایمفاٹمین قسم کی محرک ادویات، جو گولیوں ، کیپسولوں اور انجکشنوںکی صورت میں دستیاب ہوتے ہیں، بنائی اور استعمال کی جاتی ہیں اور یہ ساری منشیات اور مرکبات دنیا بھر کے صرف آٹھ دس ممالک اُگاتے یا بناتے ہیں ، پھر یہ دنیا کے اڑھائی سو سے زیاد ہ ممالک میں قانونی اور غیر قانونی طریقوں اور راستوں سے پھیلا دیئے جاتے ہیں۔ اگر عالمی برادری ان آٹھ دس ملکوں پر دباﺅ ڈال کر، اُن کا بائیکاٹ کر کے ، اُن کا ناطقہ بند کرکے اُنہیں مجبور کردے کہ وہ یہ منشیات نہ اُگائیں یا تیار کریں، جس طرح کہ عالمی برادری نے جوہری اور کیمیائی ہتھیاروں کے معاملے میں ایکا کیا ہوا ہے، تو مخلوق خدا کو منشیات کے خون آشام جبڑوں سے نجات دلائی جاسکتی ہے ۔
ان آٹھ دس ملکوں کے پھیلائے ہوئے منشیات کے عفریت نے دنیابھر میں پندرہ سال سے چونسٹھ سال کی عمر ، جو پڑھنے لکھنے اور کام کرنے کی عمر ہے، کے پینتیس کروڑ افراد کو اپنے خونخوار پنجوں میںجکڑ رکھا ہے اور ان میں ہر سال پچاس لاکھ سے ایک کروڑ کا اضافہ ہور ہا ہے ۔یہ پینتیس کروڑافراد اپنے گروپ کی آبادی کا سات فیصد بنتے ہیں ۔گویا لکھنے پڑھنے ،کوئی ہنر سیکھنے ،بعد ازاں کمانے اور ملک کی معاشی سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کرنے کی عمر کے ہر ایک سو میںسے سات اشخاص یا توناکارہ ہوچکے ہیں یا ہوجانے کی راہ پر گامزن ہیں ۔ ان پینتیس کروڑ میں اڑھائی کروڑ سے زیادہ وہ ہیں، جو منشیات کے زہر کوایک دوسرے کی استعمال شدہ گندی سرنجوں کے ذریعے اپنی رگوں میں اُتارتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان میں سے پچاس فیصد ہیپاٹائٹس سی، بیس فیصد ہیپاٹائٹس بی اور اٹھارہ فیصد ایڈز کا شکار ہوچکے ہیں، جبکہ باقی بارہ فیصد ان میں سے کسی ایک بیماری کوگلے لگانے کے لئے دیوانہ وار دوڑے جارہے ہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ اولاًعلاج معالجے کی طرف توجہ نہ کرنے اور ثانیاً دنیا بھر میں علاج معالجے کی انتہائی ناکافی سہولتوں کی وجہ سے منشیات کے عادی ان پینتیس کروڑ افرادمیں سے ہر سال کم وبیش پانچ لاکھ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جبکہ اس سے کئی گنا زیادہ نئے لوگ موت کی طرف جانے والے اس قافلے میں شامل ہوجاتے ہیں ۔منشیات کی پیداوار اور پھیلاﺅ کے ضمن میں سب سے زیادہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر کے منشیات کی روک تھام کرنے والے ادارے اور ایجنسیاں اپنی تمام تر کوششوں اور وسائل کے باوجود دنیا بھرمیں پیدا ہونے والی چرس کا صرف تیرہ فیصد، افیون او ر ہیروئن کا اُنیس فیصد اور کوکین کا تقریباً ساٹھ فیصد پکڑ پاتے ہیں، جبکہ باقی تمام منوں اور ٹنوں کے حساب سے پیدا ہونے والی منشیات بالا ٓخر منشیات کے متلاشیوں تک پہنچ جاتی ہے۔
خطرناک اور نقصان دہ ادویات و اشیاءکے تناظر میں ایک او رالمیہ یہ ہے کہ انسانیت کو منشیات سے زیادہ تباہ کرنے والی دو اشیاء،شراب اور تمباکو نوشی، کو منشیات کی فہرست سے باہر رکھاجاتا ہے ۔ منشیات (حشیش، ہیروئن ، کوکین وغیرہ)کے ہاتھوں اگر پانچ لاکھ لوگ ہر سال ہلاک ہوتے ہیں تو شراب اور شراب سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ہاتھوں پچیس سے تیس لاکھ اور تمباکو نوشی، جس کی ایک صورت شیشہ نوشی ہے، کے ہاتھوں ہر سال ساٹھ لاکھ سے زائد لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس ضمن میںپاکستا ن کی صورت حال بھی دنیا کے دیگر ممالک سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ۔افغانستان جو دنیا بھر میں پیدا ہونے والی افیو ن اور ہیروئن کا نوے فیصد اور حشیش کا پینتیس سے چالیس فیصد پیدا کرتا ہے،اس کی ہمسائیگی کی وجہ سے پاکستان منشیات کی تباہ کاریوں کی براہ راست زد میں ہے ۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرائم (UNODC) ، وزارت انسداد منشیات اور شماریات ڈویژن ،حکومت پاکستان،کی طرف سے کئے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں نشہ کرنے والوں کی تعداد نوے لاکھ کے لگ بھگ ہے،جن میں سے اسی لاکھ کے قریب افراد کی عمر پندرہ سے چونسٹھ سال اور بیس لاکھ کی عمر پندرہ سے پچیس سال ہے ۔ان نوے لاکھ میں تیس لاکھ کے قریب عورتیں بھی شامل ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آہستہ آہستہ پاکستا ن کے معاشی اور معاشرتی دنیا سے کٹتے اور موت کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق نشہ بازوں کے اس گروہ میں کمی ہونے کی بجائے ہر سال تقریبا ً پانچ لاکھ کا اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔کمی ہوبھی کیسے سکتی ہے، جبکہ ملک بھر میں منشیات کے پھیلاﺅ اور شہریوں کو نشے کے استعمال سے روکنے اور نشہ بازوں کے علاج معالجے کے لئے حکومتی سطح پرکوئی جامع ، موثر اور مضبوط پروگرام نہیں ہے۔
وزارت انسداد منشیات اور اینٹی نارکوٹکس فورس اس ضمن میں کچھ نہ کچھ کرتی ہیں، لیکن اتنے بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لئے اُن کے پاس ذرائع اور وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کس قدر تشویش اور بد قسمتی کی بات ہے کہ اسی سروے کے مطابق پاکستان بھر میں پبلک اور پرائیویٹ دونوں سیکٹروں میںایک سال میں زیادہ سے زیادہ تیس ہزار نشہ بازوں کے علاج معالجے کی سہولتیں میسر ہیں اور بس۔ پاکستان سمیت دنیابھر میں منشیات کے پھیلاﺅ ، اُس کی تباہ کاریوں اور اُس سے نمٹنے کی کوششوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ایک واضح نتیجہ اخذہوتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف حکومتوں کے بس کی بات نہیں۔جب تک ملک کا ہر شہری اپنے خاندان ، اپنے محلے ، اپنے شہر اور اپنے ملک کو منشیات کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لئے اُٹھ کھڑا نہیںہوگا، منشیات کا عفریت اسی طرح پھلتا پھولتا اور انسانوں کا خون چوستا رہے گا ۔ اب خاموش رہنے کا وقت نہیں ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اچھے لوگوں کابرائیوں کو دیکھنا اور خاموش رہنا بُروں کے برے کاموں کے نتیجے میں لائی ہوئی تباہ کاریوں کے مقابلے میں زیادہ تباہی و بربادی لانے کا موجب بنتا ہے ۔