مکہ مکرمہ:خوشی اور غم کے دو واقعات
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہی مسلمانوں کے ماویٰ اور ملجاہیں۔یہاں سے جڑی ہراچھی خبر مسلمانوں کو تسکین پہنچاتی اور ہربری خبر سے مسلمانوں کےدل دہل کررہ جاتے ہیں۔6فروری 2017کی رات 11بج کر40 منٹ پر حرم کعبہ میں ایک دل دہلادینے والا واقعہ پیش آیا۔جس کی بازگشت اگلے دن 7فروری کو پوری دنیا میں سنی گئی۔6فروری کی رات کو معمول کے مطابق دنیا بھر سے آئے زائرین بیت اللہ کے طواف میں مصروف تھے۔اس دوران ایک شخص بیت اللہ کے جنوبی مغربی کونے رکن یمانی کے پاس جا پہنچا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق رکن یمانی اورحجراسود دونوں جنت کے دروازے ہیں۔اس شخص کے ہاتھ میں پٹرول کی ایک بوتل تھی۔جسے اس نے اپنے کپڑوں پر چھڑک لیااورہاتھ میں پکڑے لائٹرسے خود کوآگ لگانے کی کوشش کی۔اس کے قریب کھڑے ایک شخص نے جب یہ منظر دیکھا تو فورا اسے دبوچ لیا اور زوردار چیخ ماری ۔آناًفاناً لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔اس دوران بیت اللہ کی حفاظت پر مامور پولیس والے بھی پہنچ گئے اورخودسوزی کرنے والے شخص کومطاف سے نکال کر لے گئے۔
اگلے دن صبح 7فروری کو سوشل میڈیا پر اس واقعے کی ایک ویڈیو وائرل ہوگئی۔دنیا بھر سے لوگوں نے اس افسوس ناک واقعے پر دکھ کااظہارکیا ۔سعودی انتظامیہ کےمطابق یہ خودسوزی کا واقعہ تھااورخودسوزی کرنے والاشخص ذہنی معذور تھا ،جب کہ بہت سے لوگوں نے اس واقعہ کو پلانٹڈ اورحرم کعبہ میں فساد مچانے سے تعبیر کیاہے۔کیوں کہ جس ویڈیو کلپ میں خود سوزی کرنے والےشخص کو دکھایا جارہاہے وہ حالتِ احرام میں تھااور مزیدبرآں ذہنی مریض کو پٹرول کی بوتل حرم کعبہ میں لے کرجانے اور عین رکن یمانی کے پاس خود سوزی کرنے کی بھلا کیا ضرورت پیش آئی۔بہرحال اصل حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے۔ہمیں سعودی انتظامیہ کی وضاحت اور تحقیق کےبعد حسنِ ظن رکھنا چاہیے۔ویسے بھی حرمین شریفین ایسے مقدس مقامات پر ادنیٰ سےفساد کاتصوربھی کوئی مسلمان نہیں کرسکتا، چہ جائےکہ وہ غلاف کعبہ کو جلانے کی مذموم جسارت کرے۔لیکن دہشت گردی،فرقہ پرستی اور سازشی عناصر کی بھرمار کے بعدآج کے دور میں محض حرمین شریفین کے تقد س کے اعتقاد پراعتماد کرنا یقیناًاچھا نہیں ہے۔
گزشتہ سال رمضان المبارک میں مسجد نبوی کے قریب خودکش دھماکے اور چند ماہ پہلے حوثی باغیوں کی طرف سے مکہ مکرمہ کی طرف فائر کیے جانے والے ناکام میزائل حملے سے یہ اندازہ لگانا قطعامشکل نہیں کہ سازشی لوگ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔یہ امرقابل ِذکر ہے کہ حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے سعودیہ انتظامیہ بھرپور توجہ دیتی ہے۔ لاکھوں لوگوں کے مجمعے کوروز سنبھالنا بغیر کسی ہتھیاروں ،دھکم پیل ،تلخی اوربداخلاقی وغیرہ کے آج کے دور میں یقینا ًایک بہت بڑا معجزہ ہے۔جس پر سعودی انتظامیہ واقعی داد کی مستحق ہے۔اگرچہ ممکنہ اورجدید حفاظتی وسائل اور تدابیرکوبھی سعودی انتظامیہ بھرپور طریقے سے استعمال کرتی ہے۔چنانچہ جدیدٹیکنالوجی میں حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے جگہ جگہ کیمرے لگائے گئے ہیں،جن کو مانیٹر کرنے کے لیے انتہائی چابکدست عملہ ہروقت موجود رہتا ہے۔جب کہ سادہ اور پولیس لباس میں ملبوس کثیر تعداد میں حفاظتی عملہ بھی حجاج کرام اور زائرین کی دیکھ بھال کے لیے ہمیشہ چوکنا رہتاہے۔ان احتیاطی اور حفاظتی امور کو بہرحال مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے،جن میں سیکورٹی چیکنگ کے لیے واک تھروگیٹس اور دیگر جدید ٹیکنالوجی کااستعمال شامل ہے۔دعا ہے کہ اللہ حرمین شریفین کی ہرشروفساد سے حفاظت فرمائے۔
مکہ مکرمہ میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعے کےبعدخوشی اورمسرت کااہم واقعہ بھی قابل ذکرہے۔ائمہ حرمین شریفین کے لہجوں میں تلاوت کرنے والے اور دنیا میں سفیر ِحرمین شریفین کے نام سےمعروف پاکستانی نژاد مولانا قاری محمد سعدنعمانی نے گزشتہ دنوں حرمین شریفین کے نگران اعلیٰ اور امام کعبہ شیخ عبدالرحمن سدیس سے ان کے دفتر میں خوشگوار ماحول میں ملاقات کی۔ امام کعبہ نے قاری محمد سعد نعمانی کو ائمہ حرمین کا تعارف اور قرآن پاک کا پیغام دنیا بھر میں عام کرنے پر خراجِ عقیدت پیش کیا۔ دوران ِملاقات امام کعبہ کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں لوگ حرمین شریفین کے چند مشہور اماموں کو جانتے ہیں۔ الحمدللہ اللہ نے آپ کو جس نعمت سے نوازا ہے آپ تو تمام آئمہ کا مجموعہ ہیں اس کے ذریعے آپ نہ صرف دنیا بھر میں قرآن پاک کا پیغام عام کررہے ہیں بلکہ لوگوں کو حرمین شریفین اور آئمہ حرمین سےبھی متعارف کروارہے ہیں،جس پر آپ واقعی داد کےمستحق ہیں۔امام کعبہ کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور دیگر ممالک کے سفر کے دوران انہوں نے اس کا خود مشاہدہ کیا ہے۔
اس دوران امام کعبہ نے قاری محمد سعد نعمانی سے اپنے لہجے میں تلاوت سننے کی فرمائش کی۔ قاری محمد سعد نعمانی نے شیخ عبدالرحمن السدیس کے سامنے ان کے مخصوص لہجے میں سورہ رحمن کی آیات سنائیں تو امام کعبہ ورطہ حيرت میں ڈوب کرکہنے لگے کہ ہم دونوں میں کون اصلى سدیس ہیں اور آپ مجھ سے کہیں اچھا پڑھتے ہیں۔ جواب میں قاری محمد سعد نعمانی کا کہنا تھا کہ یہ سب آپ کی بلند ظرفی اورمحبت کا کمال ہے ورنہ حقیقتاً آپ ہی اصلی سدیس ہیں ہم تو بس كوشش ہی کرلیتے ہیں۔ دوران ِتعارف استاذ الشیخ محمد عبدالماجد ذاکر رحمه الله کا جب تذکرہ ہوا تو امام کعبہ نے کہا کہ تب توآپ میرے ساتھی ہوئے کیوں کہ ہم دونوں نے ایک ہی استاد سے پڑھا ہے۔ شیخ محمد عبدالماجد ذاکرکے تلامذہ کی تعداد سینکڑوں میں ہیں، جن میں امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس سمیت امام کعبہ شیخ صالح بن عبداللہ بن حمید سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آل الشیخ اور پاکستان کے شیخ قاری محمد سعد نعمانی بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں قاری محمد سعد نعمانی نے امام كعبہ کے سامنے مختلف ممالک میں قرآن کریم کی ورکشاپس منعقد کرنے کا تذکرہ بھی کیا، جس پر امام کعبہ نے بھرپورداد دیتے ہوئے کہاکہ پاکستانی واقعی عظیم ہیں اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی لگایا اور اپنے معاون خصوصی سے قاری محمد سعد نعمانی كى مسجد نبوی شریف میں اعلی خدمات سے مستفید ہونے کا حكم بھی جاری کیا۔ آخرمیں امام کعبہ شیخ عبدالرحمن سدیس نے قاری سعد نعمانی کو ہدیتہً شیلڈ بھی پیش کی۔
قاری محمد سعد نعمانی کا شمار دنیا کے مشہور قراء میں کیا جاتاہے۔ دنیا میں یہ اعزاز صرف آپ کو حاصل ہے کہ آپ نہ صرف ائمہ حرمین شریفین کے لہجوں میں قرآن کریم کی تلاوت کرسکتے ہیں بلکہ دنیا کے دیگر مشہور قراء کے انداز میں ہو بہو تلاوت بھی کرسکتے ہیں۔ آپ کے اس خصوصی اعزاز کی وجہ سے دنیا بھر میں آپ کو قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور یورپ امریکا سمیت دنیا بھر سے آپ کے چاہنے والے آپ کواپنے ہاں دعوت دیتے رہتے ہیں۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ مدینہ منورہ کی مشہور مسجد مسجد الربیعان میں تراویح بھی پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہرسال مختلف ممالک میں قرآن کریم کی ورکشاپ بھی منعقد کرتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ قاری محمد سعد نعمانی کی ان خدمات پر دنیا بھر میں پاکستان کوبھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور ہرجگہ پاکستان کا نام اچھے لفظوں میں یادکیا جاتاہے۔یہ پاکستان کے لیے واقعی ایک اعزاز ہے کہ ایک پاکستانی دنیا بھر میں نہ صرف قرآن کا پیغام عام کررہاہے بلکہ حرمین شریفین کاتعارف بھی دنیا بھر میں کروارہاہے۔دعاہے کہ اللہ قاری محمد سعدنعمانی کی خدمات کوقبول فرمائے اور مزیدترقیات سے نوازے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔