سترہویں قسط، سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان

سترہویں قسط، سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان
سترہویں قسط، سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شہنشاہ اکبر کے دین الٰہی کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی،سلسلہ و خانواد ۂنوشاہیہ کی خدمات

جناب سید محمدطاہر شاہ ابرار نوشاہی بیان کرتے ہیں کہ پاکستان میں ایک بہت بڑے کاروباری شخص شیخ نذیراینڈ سنز گزرے ہیں۔ ان کا لاہور میں بہت بڑا صنعتی و تجارتی ادارہ آج بھی موجود ہے۔ وہ جہلم کے رہنے والے تھے۔وہ حضرت سیّد نا برقؒ کے مرید تھے۔ نہایت سادہ اور دھوتی کرتہ پہنتے تھے ۔ایک روز حضرت برق ؒ کا دریائے فیض موجز ن تھا۔ آپ نے کہا’’شیخ نذیر تم ہماری بہت خدمت کرتے ہو۔ مانگو کیا مانگتے ہو۔۔۔‘‘

سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان۔ ۔ ۔ سولہویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
شیخ نذیر نے جھٹ سے کہا’’غریب آدمی ہوں۔ بس یہ دنیا دے دیں‘‘
’’دیکھ لو شیخ تم نے دھن دولت کا سوال کیا ہے۔پھر سوچ لو‘‘آپؒ نے کہا
’’ہاں سرکار مجھے دولت چاہیے‘‘شیخ نذیر نے پھر کہا تو آپؒ نے اسکے لئے دعا کی۔ آج شیخ نذیر کی اولاد بھی حضرت سیدنا نوشہؒ کے جانشین قطب المشائخ حضرت پیر سید ابو الکمال برق نوشاہی قادری کی دعا اور کرامت کا پھل کھا رہی ہے۔ آپؒ سے معروف ہے اگر آپؒ مٹی کو ہاتھ میں پکڑتے تو فرماتے یہ سونا ہے تو وہ سونا بن جاتی تھی۔ آج آپؒ کے مزار شریف پر انوار کی بارش ہوتی ہے اور دنیا بھر سے لوگ جھولیاں بھر کر نعمتیں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ آپؒ نے دنیا اکٹھی نہیں کی بلکہ مبلغانہ،دریشانہ انداز زندگی اختیار کیا۔
آپ کے صاحبزادے سید محرم شاہ کمال نوشاہی کا کہنا ہے کہ حضرت سیدنا برقؒ نوشاہی قادری اپنے مریدین کو کلمہ طیبہ کا ورد کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ ایک روز ایک بے تکلف مرید نے فرمائش کر دی’’حضور کلمہ طیبہ کے علاوہ بھی کچھ ذکر عطاء کر دیجے‘‘
آپؒ نے برق نگاہی سے اسے دیکھا تو وہ بے چارہ لرز کررہ گیا۔
’’تو ابھی کلمہ طیبہ کا حق پورا نہیں کر سکا ، آگے کیا پڑھے گا‘‘ آپؒ نے موقع کی مناسبت سے مریدین کو سمجھایا’’میرے جدامجد حضرت سید نوشہ گنج بخش جن کی خاک کا میں سُرمہ ہوںؒ ،نے اپنے مریدین اور سلسلہ نوشاہی کے پیرو کاروں کو نماز فجر کے بعد کلمہ طیبہ کا ذکر کثرت سے کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کیا تم جانتے ہو میرے جدامجد نے کلمہ طیبہ کثرت سے پڑھنے کا حکم کیوں دیا؟۔تم اس کی حقیقت سننا چاہتے ہو تو سنو اور یاد رکھو کہ کلمہ طیبہ میں فلاح نجات ہے اور لوح تقدیر سے ملاپ و مشاہدہ کے لئے یہ کلمہ طیبہ کتنے روحانی فیوض عطا کرتا‘‘۔
اس روززمرمہ فیض رواں تھا۔حضرت سید نا برق ؒ کے چہرے پرانوار کی بارش ہو رہی تھی۔لہجہ دھیما مگر الفاظ کی آنچ تیز تھی۔ اس لمحے ساعتوں کو وقت کی مٹھی میں قید کرنا دشوار تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے دربار نوشاہیہ میں ہر سننے والے کے دل کی سماعتیں کھل چکی ہیں اور ان پر کلمہ طیبہ کے روحانی فیوض کے اسرار و بھید اور خواص کھلتے جارہے ہیں۔حضرت سیدنا برقؒ کہہ رہے تھے۔
’’میرے دوستو۔۔۔یہ کلمہ طیبہ تو ازل کی نشانی ہے۔ یہ وجہ کائناتؐ سے مالک کون و مکاںﷺ کی بے کراں محبت و عشق کا مظہر ہے۔ یہ کلمہ ہی ہے جو بشر کو نور بنا دیتا ہے۔یہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے جھگڑے ختم کی واضح دلیل ہے۔جب محب و محبوب ایک ہیں اور رب ذرالجلال اپنے سے جدا کرکے اپنے محبوبﷺ کا ذکر نہیں کرتا۔۔۔تو پھر ہم۔۔۔ اور تم کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کلمہ طیبہ زبان سے ادا ہوتا حلق سے اترتا ہوا معدے میں نہیں جاتا بلکہ اسکے انجذاب کا مرکز یہ قلب ہے۔۔۔‘‘حضرت سید ابو الکمال برقؒ نوشاہی قادری نے وفور جذب وعقیدت سے اپنے دل کے مقام پر دایاں ہاتھ پھیرتے ہوئے سلسلہ کلام جاری رکھا۔’’اے اللہ کے بندو جب لا الہ الاللہ سانس کے ساتھ دل کے نہاں خانوں اور خون کی گزر گاہوں تک پہنچتا ہے تو خون میں پرورش پانے والی مخلوق میں حرارت پیدا ہوجاتی ہے اور جب محمد الرسول اللہ کہتے ہوئے بندۂ محب سانس باہر نکالتا ہے تو خون تیزی سے پورے بدن کے مساموں میں خیروبرکت ،راحت جاں کا پیغام لیکر پہنچ جاتا ہے۔ یہ کلمہ طیبہ روح کی پاکیزہ ترین آکسیجن ہے۔اس سے تازگی وروانی ملتی ہے ۔اب تم کہو گے یہ تازگی کیا ہوتی ہے۔۔۔کیسے حاصل ہوتی ہے۔۔۔ تو میرے ساتھیو۔۔۔روح کی تازگی حاصل کرنے کا ایک قرینہ ہے۔ ذرا تم سب میرے ساتھ مل کر کلمہ طیبہ کا ذکر ایسے کرو جیسے میں کررہا ہوں‘‘ یہ کہتے ہوئے آپؒ نے کلمہ طیبہ کو ایک لَے کی صورت میں دو حصوں میں پڑھ کر سنایا۔ حاضرین محفل نے آپؒ کی تقلید میں کلمہ طیبہ پڑھا توانہیں عجیب سا سرور حاصل ہوا،سب بے ساختہ پکار اٹھے’’سبحان اللہ ،یا حضرت ذرا پھر سے‘‘ آپؒ نے ہلکا سا تبسم فرمایااورلَے کے ساتھ کلمہ طیبہ پہلے کی نسبت ضرب لگا کر پڑھا تو دربار نوشاہی میں موجود ثنا خوان کلمہ اپنی نشستوں سے جیسے تڑپ اٹھے۔ آپؒ نے ساتھیوں کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا ’’میرے جدامجد حضرت سیدنا نوشہ گنج بخشؒ نے کلمہ پاک کو پڑھنے کا جو طریقہ بتایا ہے، سن لواے نوشاہیہ والو۔۔۔ اس طریقے کو اپنالو تو تمہارا باطن کھل جائے گا۔ تمہاری منزلیں مرادیں آسان ہو جائیں گی۔ دنیا کی ہوس اور اس کا فریب کم اور ختم ہو جائے گا اور وہ تمام ساتھی جو سلوک کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں وہ اس راہ میں لذت و راحت حاصل کرلیں گے۔‘‘
’’سرکار آپ بجا فرماتے ہیں۔کلمہ طیبہ ہی سائلین کو راہ سلوک میں کامیابی دلوا سکتا ہے۔ ورنہ ایک سالک تو قدم قدم پر گمراہ ہو سکتا ہے‘‘ مجلس میں سے استدعا کی گئی’’حضور ایک سالک کے لئے آپ کیا تجویز کرتے ہیں‘‘
آپ نے کہا’’ساتھیو۔۔۔سالک تو وہ ہوتا ہے جو معرفت الٰہی کے لئے ایسے طریق کو اختیار کرتا ہے جس کی راہ میں اسے حواد ثات زندگی متاثر نہیں کرتے، وہ نفرتیں سمیٹتا مصائب جھلتا اور اپنے کردار پر انگلیاں بھی اٹھیں تو برداشت کر لیتا ہے۔ صبر و اسقامت کے ساتھ وہ چلتا رہتا ہے۔ مرشد تگڑاہے تو اسکی منزل اور تکالیف آسان ہو جاتی ہیں اور بالآخر سالک کو امر الٰہی سے باطنی مشاہدوں کا شرف حاصل ہو جاتا ہے‘‘پھر آپ نے اہل سلوک کے لئے اپنے یہ معروف اشعار پڑھتے ہوئے ہدایت کی۔
خودی تکبر توں نفع کی اے ہستی اپنی نوں ذرا گال کے رکھ
کالی رات ناسوت تاریکیاں دی شمع عشق عرفان دی بال کے رکھ
اس وادی پرم دے وچہ آکے قدم قدم تے قدم سنبھال کے رکھ
تشنہ کام میخوار مجبوراً تے ساغر عشق دا برق اچھال کے رکھ
حضرت سیدنا برقؒ کو حضرت سیدنا نوشہؒ کے صوفیانہ کلام کی وراثت بھی بطور خلافت حاصل ہوئی تھی۔ آپؒ حضرت سلطان باہوؒ ،میاں محمد بخش ؒ اور بابا بلھے شاہ ؒ کی طرح قادرالکلام صوفی شاعرتھے۔ آپؒ نے بیسویں صدی میں سلسلہ نوشاہیہ کو بام عروج تک پہنچا دیا تھا۔ آپؒ کی تبلیغی مصروفیات کے ساتھ ساتھ روحانی و علمی خوبیاں بھی ہر ایک پر آشکار تھیں۔آپ حضرت سید نوشہ گنج بخشؒ کی سجادگی اور خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے والوں میں واحد ہستی تھے جنہوں نے طریقت کے مشکل ترین اسلوب اور منازل طے کیں۔ آپؒ مجاہدات و ریاضت کرنے میں بے مثال تھے۔ یہی وجہ ہے حضرت سیدنا نوشہ گنج بخشؒ و بزرگان نوشاہیہ کی باطنی تربیت آپؒ کو برابر ملتی رہی۔ اگرچہ آج سلسلہ نوشاہیہ میں حضرت سیدنوشہ گنج بخشؒ کی نسبت سے سجادگی اور خلافت کے بہت سے دعوے دار ہیں اور ہر ا یک اپنے طور پر دلائل رکھتا ہے تاہم حضرت سیدنوشہ گنج بخشؒ کے حوالے سے معروف ہے کہ آپؒ نے اپنی حیات میں ہی سجادگی و خلافت اپنے صاحبزادے سید ہاشم دریا دلؒ کو دے دی تھی۔ حضرت سید ابوالکمال برقؒ نوشاہی اور حضرت سید معروف حسین عارف نوشاہی قادری کا سلسلہ نسبت ۸ویں پشت میں حضرت سید ہاشم دریا دلؒ سے جا ملتا ہے۔
حضرت پیر سید ابوالکمال برق نوشاہی قادری کو بار گاہ الٰہی سے اولیائے اللہ کے منصب پر متمکن کرنے کی منظوری مل گئی تھی لہٰذا آپؒ بچپن سے ہی شب بیدار اور صلوم و صلوۃ کے پابند تھے۔ آپؒ ذکر اذکار میں کوتاہی نہ کرتے اور اپنے والد گرامی سے نہایت اشتیاق کا اظہار کرکے اسم ذات کے ذکر کو جاری رکھنے کی اجازت طلب کرتے۔کم عمری میں اسم ذات کا ذاکر بن جانا اور اسکے مجاہدے کرنا ایک بہت ہی غیر معمولی صلاحیت کا متقاضی فعل ہے۔
اسم ذات اللہ جل شانہ کا صفاتی نام ہے۔یہ جلالی بھی جمالی بھی، بزرگان دین اور معرفت الہہ کے طلب گاروں نے ہمیشہ اسم ذات کو حرزجاں بنایاہے۔ جسے اسم ذات یعنی اسم ربیّ’’ اللہ‘‘ کے ذکر میں رضا حاصل ہو گئی۔وہ باطنی نور سے منوّر ہو گیا۔ اسم ذات کے ذاکرین پر دنیا ہیچ ہو جاتی ہے۔ یہ اسم ذات کا اعجاز ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اسکا ثنا خواں ہے۔ معجزے ،کرامات، کارنامے، کرشمے،مرقبے سب اسم ذات کے مرہون منت ہیں ۔مگر عام ذاکر اسم ذات کی ریاضتوں اور مجاہدات تک کم ہی پہنچ پاتے ہیں۔ جو جتنا پہنچا، اسے بھی پھل مل گیا ۔ جب اللہ کا ایک ولی راہ طریقت پر رشد و ہدایت کا فرض اپنے کاندھوں پر اٹھا کر نکلتا ہے تو اسم ذات اسکی مکمل راہنمائی کرتا ہے۔ اسم ذات کے ذاکرین اسکی ادائیگی کے آداب سے آشناہوں اور مرشد کریم کی راہ نمائی میسر ہو تو باطنی منازل کی کٹھنائیاں کم ہو جاتی ہیں۔میرا ذاتی تجربہ ومشاہدہ ہے کہ بہت سے سلاسل میں اسم ذات کا ذکر مختلف انداز میں کرایا جاتا ہے اور ہر کوئی اسکے آداب و اذکار کے طریقے کے مطابق تربیت کے مراحل طے کرتا ہے ،یوں ذاکر کی شخصیت ایک خاص سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ یہ نہایت حساس معاملہ ہے جس کی وضاحت آگے کی جائے گی۔تاہم اسم ذات کے ذاکرین جو اپنے شیوخ کی راہنمائی میں اصولی آداب کے مطابق پڑھتے ہیں انہیں نہ دل کا عارضہ ہوتا ہے۔نہ خشیت الٰہی کے علاوہ کوئی خوف جانگزیں ہوتا ہے۔ بزرگان معرفت کا کہنا ہے کہ اسمائے الٰہی پر مختلف فرشتے مامور ہوتے ہیں۔ اسم ذات چونکہ تمام مبارک صفاتی ناموں کا مجموعہ ہے لہٰذا اس اسم پاک پر حضرت جبرائیل امین، حضرت اسرافیل، حضرت عزرائیل ، حضرت میکائیل جسے مقرب ملائکہ مامور ہیں۔ اس سے ایک ذاکر پر اسم ذات کی فضلیت و اثرات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
حضرت برقؒ نے اسم ذات کا ذکر اپنے والد گرامی حضرت پیر چراغ محمد شاہ نوشاہی کی نگرانی میں کیا اور منازل طے کیں، اس وقت آپ بارہ سال کے تھے۔ آپ اسم ذات کے ذکر اور نوافل میں رات بسر کرتے اور تہجد کے بعد نماز فجر ادا کرتے۔کم عمری میں ہی آپؒ کو کوہ ہمالیہ کے دامن میں ریاضت کرنے کی ہدایت ہوئی۔ آپؒ نے روزہ کی حالت میں اس ریاضت کو طے کیا۔ آپ سحری کے وقت صرف ایک کپ چائے لیتے اور ایک عدد کھجور سے افطاری کیا کرتے تھے۔ ریاضت کے دوران آپؒ تلاوت قرآن مجید کرتے اور نوافل و ا ذکار میں شب و روز گزارتے رہے۔
1940ء میں آپؒ نے باطنی علوم کی مزید منازل طے کرنے کے لئے چک سواری کی مسجد سے ملحقہ حجرہ میں چالیس روز تک مجاہدہ کیا ۔ان دنوں آپؒ صرف دودھ میں مصری ملاکر نوش فرماتے تھے۔ 1959ء میں آپؒ کو اپنے مرشد کریم سے باطنی طور پرہدایت ملی تو آپؒ نے سات ماہ تک وادی سون سکیسر میں مجاہدہ کیا۔
جاری ہے۔ اٹھارہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں