سانحہ ساہیوال ، مقتول ذیشان دراصل کون تھا؟ سابق ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی نے تہلکہ خیز دعویٰ کردیا
لاہور(ویب ڈیسک) سابق ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی نے جے آئی ٹی کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ ذیشان کا تعلق داعش سے تھا اور وہ کئی کارروائیوں میں سہولت کار بھی تھا۔سانحہ ساہیوال کیلیے بنائی گئی جے آئی ٹی کے سامنے سی ٹی ڈی کے ملوث اہلکاروں اور آپریشن کے دوران فون پر رابطے میں رہنے والے افسران کے بیانات قلمبند کرانے کاسلسلہ جاری ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سابق ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے طاہر جمعرات کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے، انھوں نے بتایاکہ ساہیوال آپریشن سے 2 روز قبل 17جنوری کو ذیشان کی گاڑی سیف سٹی اتھارٹی کی واچ لسٹ میں شامل کرا دیاگیاتھا۔انہوں نے بتایا کہ کہ 19جنوری کو صبح 9:30 بجے گاڑی نے مانگا منڈی کو عبور کیا توسیف سٹی کیمروں نے الرٹ جاری کردیا جس پر سیف سٹی انتظامیہ نے سی ٹی ڈی کو گاڑی شہرسے باہرجانے کی اطلاع دی، حکام نے بلاتاخیر لاہورسے ایک ٹیم ایس ایس پی جواد قمرکی سربراہی میں ان کے پیچھے روانہ کی جبکہ دوسری جانب ساہیوال میں بھی سی ٹی ڈی ٹیم کوسفید گاڑی سے متعلق آگاہ کیاگیا، جیسے ہی مشتبہ گاڑی نے ساہیوال ٹول پلازا کراس کیا تو سی ٹی ڈی ساہیوال کی ٹیم نے تعاقب شرو کردیا اور قادرآباد پہنچتے ہی گاڑی روکنے کیلیے ٹائروں پر گولیاں ماریں لیکن اس کے باوجود ذیشان نے گاڑی نہیں روکی۔
سابق ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ آپریشنل ٹیم کو خدشہ تھاکہ گاڑی میں موجود چاروں افراد دہشت گرد ہیں اور وہ تخریب کاری کیلیے خودکش جیکٹس اور دھماکا خیزمواد ساتھ لے جارہے ہیں، گاڑی کے بائیں جانب پچھلے دروازے کے شیشہ پرکالا رنگ ہونے کی وجہ سے اہلکاروں کو بچوں کی موجودگی کاعلم نہ ہوسکا، فائرنگ شروع ہوتے ہی اگلی سیٹ پربیٹھے مہر خلیل نے اپنی بیٹی منیبہ اور پچھلی سیٹ پر اس کی بیوی نبیلہ نے باقی دونوں بچوں عمیر اور ہادیہ کوفوری طورپر اپنے پیروں میں بٹھالیا، ان کے نیچے جھکنے کی وجہ سے آپریشنل ٹیم کو تاثر ملا کہ وہ بارودی مواد کی مددسے حملہ کرنے لگے ہیں جس کے فوری بعد اہلکاروں نے فرنٹ اسکرین پرفائرکیے، 2سے 3گولیاں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ذیشان کولگیں اور گاڑی دیوار سے جاٹکرائی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سی ٹی ڈی ٹیم نے شیشے ٹوٹنے کے بعد بچوں کو دیکھتے ہی فائرنگ روک لی اورانھیں گاڑی سے باہرنکالا، اس دوران اہلکاروں کو پچھلی سیٹ پر زخمی حالت میں بیٹھی اریبہ پرشک ٹھہراکہ اس نے خودکش جیکٹ پہن رکھی ہے، اسی خدشے کی وجہ سے بچوں کوگاڑی سے نکالتے ہی دوبارہ فائرنگ کرنا پڑی جس سے گاڑی میں موجود چاروں افرادکی موت واقع ہوگئی، آپریشن مکمل کرنے کے بعد سی ٹی ڈی ٹیم تینوں بچوں کو ساتھ لے کر ہسپتال چھوڑ آئی۔ذرائع کے مطابق ایڈیشنل آئی جی رائے طاہر مقتول ذیشان سے متعلق ملنے والی معلومات کی بنیادپر ابھی تک اسے دہشت گرد قرار دے رہے ہیں، ان کادعویٰ ہے کہ ذیشان کا تعلق کالعدم تنظیم داعش سے ہے اور وہ دہشت گردوں کیلیے بطور سہولت کارکئی کارروائیوں میں حصہ لے چکاتھا۔ سی ٹی ڈی کے سابق سربراہ رائے طاہر جے آئی ٹی کو مبینہ دہشت گرد ذیشان کی لاہورمیں عدم گرفتاری سے متعلق کوئی مناسب جواب نہ دے سکے۔