شہید ملک سعد کی تیرہویں برسی

شہید ملک سعد کی تیرہویں برسی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

27جنور
ضیاء الحق سرحدی پشاور
ziaulhaqsarhadi@gmail.com
مدتوں روتی رہیں گی بستیاں در بستیاں
روز کب پیدا ہوتی ہیں ایسی عظیم ہستیاں
پشاور شہر جو کہ پھولوں کا شہر کہلایا جاتا تھا جبکہ امن کی صورتحال کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے صوبہ خیبر پختونخوا ملک بھر میں اپنی مثال آپ تھا لیکن 13برس قبل صوبہ کہیں جگہوں سے خون آلودتھا اور اس کے باسی گزشتہ کئی سالوں سے شدید المناک اور دُکھ بھرے غم میں مبتلا تھے جبکہ اس سانحے میں شہادت کا عظیم رُتبہ پانے والے شجاعت کے جذبے سے معمور جوانوں اور قومی سپوتوں سے محروم ہونے پر شہرِ پشاور ماتم کناں تھا انہی سپوتوں میں شہید ملک سعد (سابق سی سی پی او پشاور) کا نام بھی درج ہے جنہیں ہم سے بچھڑے ہوئے تیرہ برس بیت چکے ہیں لیکن آج بھی ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ یہی کہیں ہمارے بیچ موجود ہوں انہوں نے 27جنوری 2007ء کو ڈھکی نعلبندی میں ہونے والے خودکش دھماکے میں جام شہادت نوش کیا جس میں ان کے ساتھ ساتھ ڈی ایس پی خان رازق،ناظمین محمد علی صافی، میاں افتخار حسین،آصف باغی اور دیگر قیمتی جانیں بھی شہادت کا رتبہ پاتے ہوئے وطن عزیز کیلئے قربان ہوگئیں۔ملک سعد ایک دلیر، ملنسار، بے تکلف، نہایت قابل،ایمانداراورفرض شناس پولیس آفیسرتھے ان کی انہی خوبیوں اور اچھائیوں کی وجہ سے ہر کوئی ان کا شیدائی تھاجبکہ ملک سعد شہیدایک ایماندارپولیس آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے صوبے کو سپورٹس میں نمایاں مقام بھی دلایا۔شہید ملک سعد کا پورا نام ملک محمد سعد خان تھا، وہ بہزادی چکر کوٹ کوہاٹ کے باشندے تھے، ملک سعد 19مئی1959ء کو ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے، ان کے والد بزرگوار کا اسم گرامی ملک محمد اشرف خان تھا جو پیشے کے لحاظ سے سول انجنیئر تھے،ان کے دادا کا نام ملک عطاء محمد خان تھا جو نامی گرامی شخصیت تھے، اسی طرح آپ کے نانا ڈاکٹر صاحبزادہ شریف نور کا تعلق خوست افغانستان سے تھا۔ ملک سعد بنگش خاندان کے چشم و چراغ تھے، ان کی ماں بولی پشتو تھی تاہم انہیں اردو، انگریزی اور ہندکو پر بھی دسترس حاصل تھی۔ ملک سعد نے اپنے والد صاحب کی ملازمت کی وجہ سے تیسری جماعت تک تعلیم گیریژن سکول بنوں میں حاصل کی، اس کے بعد سینٹ میریز سکول پشاور سے میٹرک کی سندحاصل کی، کیڈٹ کالج کوہاٹ سے ایف ایس سی پاس کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 1982ء میں انجنیئرنگ کالج پشاور سے انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا شمار ذہین طالب علموں میں ہوتا تھا، وہ نصابی وہم نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے تھے، کھیلوں میں خصوصی دلچسپی تھی۔ملک سعد شہید اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہو گئے، نومبر 1998ء میں پولیس میں بحیثیت اے ایس پی ملازمت اختیار کی۔ملک سعدباغ و بہار شخصیت کے مالک تھے جبکہ کوہاٹ کے سابق ضلعی ناظم ملک اسد،سابق کلکٹر کسٹم پشاور ملک سلیم (مرحوم) اورملک محمد سعید (سابق ممبر پلاننگ کمیشن) کے چھوٹے بھائی اورسابق آئی جی پولیس صوبہ خیبر پختونخوا ملک نویدخان اور ملک کے ممتاز یورالوجسٹ ڈاکٹر ملک محمد آصف کے چچا زاد بھائی تھے۔ملک سعد شہید نیک نیت اور صاف گو انسان تھے سامنے بات کرتے تھے،دل میں کوئی بات نہیں رکھتے تھے جب مرحوم کو چیف کیپیٹل پولیس آفیسر کے عہدے پر تعینات کیا گیاتو شہریوں نے ملک سعد سے بڑی اُمیدیں وابستہ کر رکھی تھیں کیونکہ پشاور میں امن و امان کی بگڑی ہوئی صورتحال کومدنظر رکھتے ہوئے اور اس کو سدھارنے کی ذمہ داری ملک سعد کو سونپی گئی تھی مرحوم نے ہمیشہ پشاور کے شہریوں کی عزت کی اور جہاں کہیں پولیس اور کسی شہری کا مسئلہ آیا وہاں انہوں نے شہریوں کا ساتھ دیا۔مرحوم کی یہی بعض خوبیاں ان کی جان کی دشمن بن گئیں اور ماتحت اہلکاروں پر اعتماد کرنے کی بجائے ہر جگہ اور ہر مقام کا خود معائنہ کرنے کی عادت ان کی شہادت کا باعث بنی۔ملک سعد شہید کی فرض شناسی اور ایمانداری کی ایسی دھاپ تھی کہ جرائم پیشہ افراد ملک سعدکے نام سے خائف رہتے تھے حالانکہ مرحوم سی سی پی او کے عہدے پر ایک ماہ اور کچھ دن ہی گزار سکے لیکن ان تھوڑے ہی دنوں کے دوران جرائم کی شرح میں کمی آناشروع ہو گئی تھی اورامن و امان کے ساتھ ساتھ انہوں نے شہر میں ٹریفک کے نظام بہتر بنانے کا بھی تہیہ کر رکھا تھا۔علاوہ ازیں سابق گورنرخیبر پختونخواسید افتخار حسین شاہ کے دور میں جو سخت اقدامات اٹھائے گئے تھے ان میں مرحوم نے ہی ان کا ساتھ دیتے ہوئے تجاوزات کے خاتمہ کیلئے کامیاب تاریخی مہم چلائی تھی اور اس میں کسی سیاسی دباوٗ کو قبول نہیں کیا تھا وہ ان سخت اقدامات میں واحد مردِ آہن کی حیثیت سے ڈٹے رہے گو ان کا تعلق کوہاٹ سے تھا تاہم پشاور کیلئے انہوں نے بطور پولیس افسر، ڈائریکٹر جنرل سی ڈی اینڈایم ڈی اورایڈمنسٹریٹر میونسپل کارپوریشن میں ذمہ دار افسر کی حیثیت سے جو کارنامے سرانجام دئیے وہ پشاور کے اپنے سپوت بھی سرانجام نہ دے سکے۔ملک سعد شہید سے راقم کی پہلی ملاقات ان کے بڑے بھائی ملک محمد سلیم شہیدجوکہ محکمہ کسٹم میں کلکٹر پشاورتھے کے توسط سے ہوئی تھی اس وقت ملک سعد طالب علم ہوا کرتے تھے یہاں پر میں قارئین کرام کویہ بھی بتاتا چلو ں کہ ملک محمد سلیم شہید، ملک سعد مرحوم کے وہی بڑے بھائی تھے جو کہ 1991 ء کے دوران کراچی میں بطورڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس تعینات تھے اور ڈیوٹی کے دوران48 سال کی عمر میں دہشت گردوں کی وحشیانہ گولیوں کا نشانہ بنے اور ملک قو م کی خاطر قربان ہو گئے تھے کیونکہ مرحوم ملک سلیم بھی سمگلنگ،رشوت اور کرپشن کے سخت مخالف تھے سمگلروں کی تمام دھمکیاں بلائے طاق رکھتے ہوئے انہوں نے سمگلنگ کے تمام دروازے بند کر دئیے تھے جبکہ ملک سعد کا شمار بھی خیبر پختونخوا پولیس کے ان افسروں میں ہوتا تھا جو مصلحتوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور اپنے دامن پر رشوت اور کرپشن کے پھول سجانے کی بجائے شرافت دیانت اور ایمانداری کے پھول کندھوں پر سجانے کے حامی تھے قانون کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے رشتہ داروں سے بھی کبھی رعایت نہیں برتی،سرکاری قوانین کی خلاف ورزی نہ خود کی اور نہ ہی کسی اور کو اس کی اجازت دی، ایمانداری کا یہ عالم تھا کہ اپنی ملازمت کے دوران کبھی رشوت نہیں لی۔ اس خاندان نے ملک و قوم کیلئے بے حد قیمتی قربانیاں دی ہیں جن کو قوم ہمیشہ یاد کرے گی۔ راقم کا زیادہ گہرا بھائیوں جیسا تعلق کھیلوں کی ترقی کیلئے کئے گئے اقدامات کے دوران ان سے بناکیونکہ ملک سعد شہید ایک اچھے پولیس آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے بھی دلدادہ تھے۔ اور صوبہ خیبر پختونخوا کا نام کھیلوں کی دُنیامیں بھی بلند کرنے کیلئے ہراول دستے کا کردار ادا کیااور ان کے اسی ہراول دستے میں راقم بھی شامل تھا اورانہوں نے صوبہ خیبر پختونخوا کے کرکٹ اور ہاکی کے کھیلوں کو ترقی دلانے کیلئے کہیں ایونٹ اور ٹورنامنٹ منعقد کروائے، آپ نے اگرچہ کافی کھیلوں کی سرپرستی کی تاہم قومی کھیل ہاکی اور کرکٹ سے آپ کو بے حد لگاوٗ تھا اسی وجہ سے آپ کو چیئرمین پاکستان ہاکی فیڈریشن(پی ایچ ایف) صوبہ خیبر پختونخوا بھی مقرر کیا گیا تھا۔ملک محمد سعد فرنٹیئر گولڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کی آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے اور آپ کی خواہشات اور کوششوں کی بدولت پشاور اور نیو دہلی کرکٹ ایسوسی ایشن کے مابین ایک سمجھوتے کے تحت دونوں شہروں کے مابین خیر سگالی کے طور پر کرکٹ سیریز کا انعقاد کا سلسلہ شروع ہوا جس کے تحت ہم پہلی مرتبہ فرنٹیئر گولڈ کپ کرکٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے 2004ء میں بذریعہ پاک دوستی بس بھارت گئے تھے ہمارا یہ دورہ 9 دنوں (5-10-04تا13-10-04)پر مشتمل تھا جس میں خیبر پختونخوا کرکٹ ٹیم کے علاوہ ہم آفیشیل ممبران جن میں راقم ضیاء الحق سرحدی،چیف ڈی مشن ملک نوید(سابق آئی جی پولیس صوبہ خیبر پختونخوا)، ڈپٹی چیف ڈی مشن ملک سعدشہید،حبیب الرحمان مرحوم،عبدالعزیز، مظہر الحق، نواب خٹک اورسینئر صحافی امجد عزیز ملک شامل تھے اس دورے میں ہماری خیبر پختونخوا کرکٹ ٹیم نے انڈیا میں کل چار میچ کھیلے تھے جہاں پر ہم نے اکٹھے اس دورے کے دوران حضرت بختیار کاکی ؒ، حضرت نظام الدین اولیاء ؒ، مخدوم علاؤ دین احمدصابر پاک کلیئر شریف کے مزارات کی زیارت کرنے کے علاوہ تاج محل آگرہ اور جے پور بھی گئے تھے، وقت کی کمی کی وجہ سے اجمیر شریف نہ جا سکے تھے سفر کے دوران ہمیں ملک سعد نے اک پل کیلئے بھی بور نہیں ہونے دیا وہ کبھی ہمیں غلام علی کی مشہور اور سدابہار غزلیں سنانے لگتے تو کبھی قہقہے لگانے پر مجبور کر دینے والے لطیفے سنانے لگتے اورہر موقع کی مناسبت سے دل کو چھو جانے والے ایسے اشعار کہتے تھے کہ اہلِ محفل دنگ رہ جاتے تھے جس کی وجہ سے ہم تو ہم بلکہ نیو دہلی کرکٹ ایسوسی ایشن کے ممبران اور کھلاڑی بھی ان سے کافی متاثر ہوئے اور ان سے بے پناہ محبت بھی کرنے لگے۔ہمارے اس دورے کے بعد 2005ء کو دہلی ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن نے اپنی کرکٹ ٹیم کے ساتھ خیبر پختونخوا کا دورہ کیا اور یہاں پر چار کرکٹ میچ پشاور، مردان، کوہاٹ اور ایبٹ آباد میں کھیلے جس کا سہرا فرنٹیئر گولڈ کپ کرکٹ ایسوسی ایشن اور اس کے رہنما مرحوم ملک سعد کے سر سجتا تھا کیونکہ ان ہی کی خصوصی محنت اور انتظامات کی وجہ سے یہ سب کچھ یقینی بنا تھا۔اسی لئے ان کی شہادت کے بعد ان کی کھیلوں کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی یاد میں ملک سعد شہید میموریل سپورٹس ٹرسٹ قائم کیا گیا ہے،ٹرسٹ کا مقصدجہاں ایک طرف صوبہ خیبر پختونخوا میں کھیلوں کو فروغ اور ترقی دینا تھا تو دوسری طرف شہدائے پولیس کی قربانیوں کو زندہ رکھنا بھی تھا۔ جو کہ امجد عزیز ملک سیکرٹری سعد (شہید) میموریل سپورٹس ٹرسٹ کی انتھک اور شب و روز محنت کا نتیجہ ہے اورراقم اس ٹرسٹ کا سابقہ میڈیا ڈائریکٹر بھی رہا ہے۔اب ٹرسٹ نے صحت اور تعلیم پر بھی ایک اہم پراجیکٹ بھی شروع کیا ہوا ہے جس کے تحت ہونہار طالب علموں کو سکالرشپ اور اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں جبکہ صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جا رہی اور اس کا تمام سہرا میرے چھوٹے بھائی امجد عزیز ملک کو جاتاہے۔ملک محمد سعد شہید میموریل سپورٹس ٹرسٹ کے پیٹرن انچیف گورنر خیبر پختونخوا جبکہ پیٹرن وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہیں۔آخرملک سعد جیسے قوم کیلئے مخلص اور دیانتدار افسران اس لئے تو نہیں ہوتے کہ دہشت گردی کے اندھیرے میں جھونک دئیے جائیں بلکہ یہ تو قوم کا سرمایہ ہوا کرتے ہیں، قوم کی ملکیت ہوتے ہیں،ان کا اثاثہ ہوتے ہیں، مسیحا ہوتے ہیں اور جب کوئی ملک سعد جیسی عوام کی بھلائی چاہنے والا افسرکسی دہشت گردی، کسی سفاکی، کسی ظلم کا شکار ہو جائے توقوم کا بہت بڑا نقصان ہو جاتا ہے ملک سعد شہیدکی شہادت ہم سب کیلئے ایک ایسا ہی بڑا نقصان ہے۔ان کی زندگی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ جو لوگ اپنے ملک و ملت کیلئے جامِ شہادت نوش کر لیتے ہیں وہ کبھی نہیں مرتے بلکہ عوام کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔
کون کہتا ہے کہ مجھ پر موت آئے گی
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاوٗنگا

مزید :

ایڈیشن 2 -