کُچھ باتیں، عام سی۔۔۔
آئیے آج آپ کو رمضان چاچا کی کچھ باتیں بتاتا ہوں۔ تھے بوڑھے لیکن ہمت اور حوصلہ کڑیل جوان تھا۔ کام انکا سبزی بیچنا تھا۔ رہتے تنہا، چھوٹے سے کچے گھر میں تھے لیکن ارادوں کے کمال پکے تھے۔ یہ ارادہ اور عزم ہی تو تھا کہ کہتے تھے کہ مرتے مر جاؤں گا لیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا منظور نہیں۔ اور ہوا بھی ایسا ہی۔ حال ہی میں خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ جب بیمار ہوئے تو سمجھ گئے تھے کہ اب وقت رخصت قریب ہے سو انہی دنوں اپنے ایک نیک دل پڑوسی کو پیسے سپر د کرتے ہوئے یہ گزارش کی میرے کفن دفن کا انتظام اس رقم سے باآسانی ہو جائے گا اور اگر کچھ بچ جائیں تو قریب کی مسجد میں وضو خانہ زیر تعمیر ہے اس میں ایصال ثواب کی نیت سے ملا دینا ……اور پھر بعد از انتقال، سارے انتظامات بھی باآسانی ہو گئے اور ایصال ثواب کی نیت بھی پوری ہوئی۔
رمضان چاچا جب سبزی بیچنے محلے میں آتے تھے تو اکثر سلام دعا ہوجاتی تھی۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تو تھے ہی، زندگی سے جڑے دیگر معاملات کو بھی احکام شریعت کے تابع رکھنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف رہتے تھے۔ ناجائز منافع خوری سے نفرت اور حصول رزق حلال کی کوششوں سے پیار تھا۔ ایک دن احمد کو اُ ن سے سبزی لیتے دیکھا، اور بحث کرتے ہوئے بھی (احمد میرے کزن عبیر کے بیٹے کا نام ہے، ہم ایک ہی محلے میں رہتے ہیں) احمد کو چاچا نے بتائے کسی سبزی کے 25 روپے تھے، لیکن اُس کا اصرار تھا کہ قیمت کم کرکے 20 روپے کر دی جائے۔ رمضان چاچااُسے بہت پیار سے سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اس کا اصرار تھا کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا …… پھر وہ کچھ دیر کو خاموش ہوئے اور احمد سے ایک گلاس پانی مانگا۔ گرمیوں کے دن تھے، سورج آگ برسا رہا تھا، احمد پانی لینے گیا تو انہوں نے جیب سے(کئی جگہوں سے پھٹا) رومال نکالا، چہرے پر آیا پسینا صاف کیا، اور کچھ دیر قریب بنے چبوترے پر بیٹھ گئے۔ پھر احمد پانی لے آیا ٹھیلا چونکہ گھر کے بالکل سامنے تھا شاید اسی لیے، وہ ننگے پاؤں ہی باہر آگیا تھا۔ رمضان چاچا نے پانی پیا، سبزی تولی، اور اسُے د ے دی (پیسے 20 روپے ہی لیے تھے)۔ ”سنو احمد۔۔۔ بیٹا چپل پہنے رکھا کرو، گلی میں پتھر اور کانچ وغیرہ پڑے ہوتے ہیں، چبھ گئے تو تکلیف ہوگی“ بس اتنا کہہ کر انہوں نے احمد کے سر پر ہا تھ رکھا اور دھیرے، دھیرے ٹھیلا بڑھاتے، آگے نکل گئے۔
پھر احمد گھر کے اندر گیا اور نہایت پرجوش انداز میں اپنے امی، ابو کو بتانے لگا کہ کیسے وہ پورے پانچ روپے بچانے میں کامیا ب ہوا تھا۔ امی، ابو کا یہ سننا تھا کہ لگے ہونے اس پر صدقے واری۔ ”یہ ہوتی ہے ہوشیاری اور چالاکی، آج بچائے گا تو کل کام آئیں گے نا،، شاباش بیٹا،، بس آج سے گھر کے سودے کی خریداری تمہارے ذمے“۔۔۔ پھر جب یہ باتیں ہو گئیں تو اسُی رات وہ لوگ ایک شاندار ہوٹل آئے۔ احمد اچھے نمبروں سے پاس ہوا تھا اس لیے خوشی میں رات کا کھانا باہر کھانے کا پروگرام بنا تھا۔ کامیابی کے افق پر ستاروں کی گنتی کا پیچھا کرتے اُس 3 اسٹار ہوٹل میں قیمتوں کو بھی چاند چڑھے تھے۔ تین لوگوں کے کھانے کا بل ہزاروں میں بنا تھا، جسے نہایت آرام سے بغیر کسی حیل وحجت ادا کر دیا گیا تھا (شاندار عمارت کے اُس پرُسکون ماحول میں بارگیننگ پر ہوئے کسی بحث و مباحثے کی گنجا ئش تھی بھی نہیں) جاتے، جاتے ویٹر کو بھی ”ٹپ“ کی مد میں اچھے خاصے پیسے تھما دئیے گئے تھے۔
پتہ نہیں ہمارے یہاں ایسا کیوں ہوتا ہے۔ جہاں بچت ہوسکتی ہو وہاں خوب لُٹایا جاتا ہے اور پھر بچت ہی کے نام پر کسی کی ”حق تلفی“ کو نہایت آرام سے چالاکی اور ہوشیاری کا نام دے دیا جاتا ہے۔ بات صرف رمضان چاچا سے قیمت پر کی جانے والی تکرار اور مہنگے ہوٹل میں کھانا کھانے کی نہیں،، پورے ہفتے کے مختلف دنوں میں لگنے والے جا بجا بچت بازاروں میں دیکھیں کیا ہو رہا ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں ہونا تو اصولاََ یہ چا ہیے کہ خراب سامان تو ہر گز نہیں خریدنا چاہیے لیکن جب قیمتیں اگر کافی حد تک کم ہیں تو پھر معیار پر اس حد تک سمجھوتہ کہ آلو، سیب، ٹماٹر اور کینو چھوٹے، بڑے، درمیانے سب قبول کر لیے جائیں،، اس میں کو ئی مضائقہ نہیں، لیکن اب ہمارے یہاں اتنی ”گہرائی“ میں جائے کون!!
ایسا نہیں کہ قیمتوں پر بحث و تکرار ہونی نہیں چاہیے۔۔۔ ضر ور ہونی چاہیے!! لیکن اگر حق تلفی سے جڑے مسئلے کو پیش نظر رکھ کر یہ کام ہو تو پھر کیا خوب ہو!! خرید وٖفروخت کے معاملات میں جہاں خریداروں پر ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں وہیں فروخت کنندگان بھی بری الذمہ نہیں۔ بے ایمانی، ناجائز منافع خوری، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی سب بدترین عمل ہیں ان سے اجتناب لازمی ہے۔ آئیے، ایک ایسے نظام کی تشکیل میں اپنا اپنا کردار ادا کریں کہ جہاں خریدنے اور بیچنے کے معاملات شرعی احکامات اور اصولوں کے عین مطابق ہوں۔