سیکولرازم، حجاب پر پابندی اور اللہ اکبر کی للکار  

سیکولرازم، حجاب پر پابندی اور اللہ اکبر کی للکار  
سیکولرازم، حجاب پر پابندی اور اللہ اکبر کی للکار  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آج امت مسلمہ کا سر فخر سے بلند ہو گیا جب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو ٹاپ ٹرینڈ رہی، جس میں واضح نظر آرہا ہے کالج انتظامیہ اور مظاہرین کرناٹک ریاست میں اوڈیپی ضلع کے کنڈا پور علاقے میں  بہادر بیٹی مسکان بنت محمد حسین کو حجاب کرنے سے روک رہی ہے امت مسلمہ کی بیٹی کالج انتظامیہ اور  انتہا پسند ہندؤوں کے ہجوم میں حجاب کے دفاع میں اللہ اکبر کی صدا بلند کرتی رہی۔ جس نے سیکولر ہندوستان اور گیارہ ویسے ممالک کے منہ پر طمانچہ مارا جس کی آواز پورے عالم میں سنائی دے رہی ہے۔ یہ ہندوستان میں پہلا واقع نہیں ہے اس سے پہلے بھی حجاب پر پابندی کے واقعات ہو چکے ہیں۔ کرناٹک کے بارے میں اکثر ماہرین کا ماننا ہے کہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا گڑھ سمجھا جانے والا یہ علاقہ ہندو قوم پرست پالیسیوں اور ہندووتا نظریے کی لیبارٹری ہے۔ واضح رہے کہ کرناٹک میں بی جے پی ہی برسر اقتدار جماعت ہے۔ آہستہ آہستہ حجاب پر پابندی کے واقعات پوری دنیا میں بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں جس پر امت مسلمہ کو مل کر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔


بھارت سے پہلے یورپ کے سیکولر ممالک میں پردہ کرنے والی مسلم خواتین کے لئے مسائل پیدا کئے گئے تاکہ سوشلزم، کمیونزم کی طرح سیکولرازم بھی صفحہ ہستی سے نہ مٹ جائے کیونکہ بے پردہ خواتین سیکولرازم اور آزادی کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ گیارہ سے زائد یورپی ممالک میں حجاب پر پابندی عائد ہے۔ اسلام میں پردہ کے احکامات کی بحث سے قطع نظر دنیا اسے اسلامی طرز زندگی کے طور پر جانتی ہے بلجیم، فرانس، ہالینڈ، اٹلی، اسپین، ڈنمارک،آسٹریا، جرمنی، روس، سوئٹزر لینڈ، ترکی میں پردے پر جزوی یا مکمل پابندی عائد ہے۔ اس پابندی کا آغاز فرانس 11 اپریل 2011ء کو عوامی مقامات پر پورے چہرے کے پردے پر پابندی عائد کر نے والا پہلا یورپی ملک بنا۔ 2016ء  میں خواتین کے لیے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنے والے تیراکی کے سوٹ ”برکینی“ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی، اس وقت کے وزیراعظم مینول والس نے برکینی کو عوامی مقام پر سیاسی اسلام کا اظہار قرار دیا تاہم بعد میں فرانس کی عدالت نے پابندی کو کالعدم قرار دے دیا۔ فرانسیسی سکولوں میں ہیڈ اسکارف کی اجازت نہیں ہے، ملک میں 50 لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں جو مغربی یورپ میں سب سے بڑی مسلم اقلیت ہے جن میں سے صرف 2ہزار خواتین مکمل پردہ کرتی ہیں۔ملک میں خواتین کے پردہ کرنے پر 150یوروجرمانہ ہے۔ سال 2015ء سے قانون کی خلاف ورزی پر 1550 سے ذائد کیسز پر جرمانے عائد ہوچکے ہیں۔ 2 جولائی 2014ء کو 24 سالہ فرنچ خاتون کی جانب سے پردے پر پابندی کو مذہبی آزادی اور اظہار پر قدغن کے مقدمے میں یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس نے اپیل مسترد کرتے ہوئے پابندی برقرار رکھی۔فرانس میں پردے اور مذہبی علامات پر پابندی کے فیصلوں کو بھر پور عوامی تائید حاصل ہوئی کیونکہ ملکی آئین  میں ریاست اور مذہب کو الگ رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔

بلجیم میں جولائی 2011ء سے پارکوں اور گلیوں میں شناخت میں رکاوٹ بننے والا کوئی کپڑا استعمال کر نے پر پابندی عائد کر دی گئی، دسمبر 2012ء میں بلجیم کی عدالت نے قرار دیا کہ پردے پر پابندی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، 2007ء میں جرمن عدالت نے سب سے بڑے 35 لاکھ آبادی والے صوبے نورڈائن ویسٹ فالن(جہاں ایک تہائی آبادی مسلمانوں کی ہے) میں اسکولوں کی اساتذہ کے لیے ہیڈ اسکارف پر پابندی برقرار رکھی۔ جرمن صوبے ہیسے میں اسکول اساتذہ کے ساتھ سرکاری ملازمین پر بھی ایسی پابندی لگا دی گئی ہے۔ 16 میں سے 8 جرمن صوبوں میں اساتذہ کے ہیڈ اسکارف پر پابندی لگا دی گئی، اٹلی کے کئی شہروں میں چہرے کو ڈھانپنے والے حجاب پر پابندی ہے۔ ایک اور صوبے لومباردیہ (جس کا دارلحکومت میلان ہے) میں جنوری 2016ء سے برقع پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ ستمبر 2013ء میں برطانوی وزیر داخلہ جریمی براؤن نے عوامی مقامات پر سکولوں میں اسلامی پردے پر قومی بحث کا آغاز کیا۔ 2014ء میں ”یوکے انڈیپینڈنس پارٹی“جس نے یورپی الیکشن میں 24سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، کے رہنماء  نائیجل فرائج نے کہا ”پورے چہرے کا پردہ تقسیم ہوتے برطانیہ کی علامت ہے، یہ خواتین پر ظلم اور سیکورٹی کے لیے خطرہ ہے۔“ برطانیہ میں اگست 2016ء کے ایک سروے کے مطابق 57فیصد برطانوی عوام نے ملک میں برقع پر پابندی عائد کر نے کی حمایت کی تھی، روس میں سب سے پہلے روسی علاقے اسٹاور و پول کرائی میں حجاب پر پابندی لگائی گئی،

جسے جولائی 2013ء میں روسی سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ چیچنیا میں حکام نے اسلامی لباس کے بارے میں روسی پالیسی مسترد کر دی۔2007ء میں صدر رمضان نے سرکاری عمارات میں خواتین کے ہیڈ اسکارف پہننے کے احکامات جاری کیے جو روسی قانون کی کھلی خلاف ورزی تھی لیکن اس پر آج بھی عملدرآمد کیا جاتا ہے بلکہ صدر نے ہیڈ اسکارف نہ پہننے والی خواتین کو پینٹ بالز سے نشانہ بنانے والے مردوں کی حمایت بھی کی۔ ترکی میں آج بھی عوامی مقامات اور سرکاری عمارات میں اسکارف پہننے پر قانوناً پابندی ہے لیکن 2 تہائی ترک خواتین بشمول صدر و وزیر اعظم کی بیویوں اور بیٹیوں کے سر ڈھانپتی ہیں۔ 85سال تک سیکولرازم ترکی کی پہچان رہی جہاں بانی مصطفٰے کمال اتاترک نے ہیڈ اسکارف کو  پسماندہ وضع قطع قرار دیا تھا۔ 2008ء میں تر ک آئین میں ترمیم کر کے یونیورسٹیوں میں پردے پر سخت پابندیوں کو نرم کرتے ہوئے ایسا ہیڈ اسکارف جو ٹھوڑی کے نیچے ڈھیلے طریقے سے باندھا گیا ہو، کی اجازت دی گئی تاہم گردن کو ڈھانپنے سمیت دیگر تمام طرح کے پردے پر پھر بھی پابندی عائد رہی۔ اکتوبر 2013ء میں ریاستی اداروں ماسوائے فوج اور پولیس میں خواتین کے ہیڈ اسکارف پہننے پر عائد پابندی اٹھا لی گئی۔

اگست 2016ء میں پولیس میں ملازمت کر نے والی خواتین کو ہیڈ اسکارف پہننے کی اجازت دی گئی۔ حکمران اے کے پارٹی کے مطابق پردے پر پابندی سے بہت سی خواتین تعلیم سے محروم رہی۔ دیکھا جائے تو حجاب کے خلاف عالمی مہم کے پیچھے جہاں سیکولر لابی کی جارحانہ پالیسی کار فرما ہے، وہاں سرمایہ دارانہ استعمار کے مفادات بھی وابستہ ہیں۔ میک اپ اور کاسمیٹک انڈسٹری جو صرف امریکا میں سالانہ 8 بلین ڈالر کماتی ہے۔ظاہر ہے کہ جو خواتین باحجاب گھر سے باہر نکلتی ہیں، وہ اپنی غیر معمولی تزئین و آرائش کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں۔ لہٰذا مغرب میں خواتین کے اندر تیزی سے پھیلتا ہوا اسلام اور حجاب کی مقبولیت، سرمایہ دارانہ استعمار کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی لگنے لگی ہے۔ اتنا تو سب جانتے ہیں کہ مغربی ممالک کے اندر حجاب کے خلاف کریک ڈاؤن سراسر غیر منطقی اور تعصب پر مبنی ہے۔ اسلامی تہذیب کا امتیاز ہی یہ ہے کہ یہ چودہ سو سال پہلے بھی جدید تھا اور آج بھی۔ اس تمام عرصے میں اسلام نے بے انتہا نشیب و فراز طے کیے، مگر حرم اور حجاب پر کبھی آنچ نہیں آنے دی۔ اس لیے کہ یہی حرم اور حجاب اسلامی تہذیب کی آخری پناہ گاہ ہے۔

مزید :

رائے -کالم -