سلام بر مسعود شریف مرحوم
جب دانش، جرات اور خلوص سے عاری لق و دق معاشرے کی تپتی دھوپ میں میں کسی مختلف، مخلص اور ممتاز شجرِ سایہ دار کی بات ہو تو یہ دل و دماغ کو جھنجھوڑنے لگتی ہے اور کہتی ہے، “ قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ مرگِ انبوہ کا جشن ہو تو قحط ، حیاتِ بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔ ایک عالم موت کی نا حق زحمت کا ، دوسرا زندگی کی نا حق تہمت کا۔ ایک سماں حشرکا دوسرامحض حشرات الارض کا”۔
جب اینٹلیجنس بیورو کے سب سے نمایاں اور نامور ڈائیریکٹر جنرل، میجر (ر) مسعود شریف خان خٹک، کی موت کی اطلاع ملی تو یہ چار جملے پھر جاگ اٹھے اور سینہ کوبی کرنے لگے۔ اس ناگہانی موت کی اطلاع پر شدید رنج کے ساتھ دورِ قحط الرجال میں زندگی کی ارزانی کا احساس شدت اختیار کر گیا۔
مسعود شریف کا سب سے اہم اور قابلِ ذکر کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے بلا مبالغہ اینٹلیجنس بیورو کو اپنے وڑن، جرات اور شبانہ روز محنت سے نئی رفعتوں سے روشناس کرایا۔ آئی بی ڈیڑھ سو سال پرانا ادارہ ہے۔ انگریز کے زمانے سے وجود میں آیا۔ پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو فوج اور باقی شعبوں کی طرح یہ بھی تقسیم ہوا۔ پاکستان کی سیکیورٹی میں اسکا اہم کردار رہا۔ بہت عرصے اس کو نظر انداز رکھا گیا اور بڑے بڑے افسران اسکو اپنی پوسٹنگ کے لئیے استعمال کرنے کے علاوہ اس میں کوئی خاطر خواہ بہتری اور جدیدیت نہ لائے۔
مسعود شریف پہلے آئی بی چیف تھے جنہوں نے اس میں انقلابی تبدیلیاں کیں۔ اسکو بطور قومی اینٹلیجنس ادارہ انتہائی فعال بنایا اور اسکے افسران کو نئے اعتماد سے مالا مال کیا۔ ان کے دور میں ہی آئی بی کو تحصیل لیول تک پہنچایا گیا اور جدید سہولیات سے آراستہ کیا۔ ہر افسر اور اہلکار کو نئی گاڑی اور موٹر سائیکل دی تاکہ اینٹلیجنس کا کام بہترین طریقے سے ہو سکے۔ یہ سونے کا چمچہ دیا مگر پھر شیر کی نگاہ سے دیکھا بھی۔ اگرچہ چند مفاد پرستوں نے انہیں گھیر لیا مگر وہ کام کرنے والوں کی کسی نہ کسی طرح حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ان کاوشوں میں انہیں بہت مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جنہیں وہ حوصلہ مندی سے عبور کرتے رہے۔ انہوں نے جمہوری حکومت کا بھرپور دفاع کیا جسکا ایک منہ بولتا ثبوت “آپریشن مڈ نائٹ جیکال” تھا۔ اس میں طاقتور عناصر کو بینظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے کی سازش کر بینقاب کیا۔ مگر ہر محبِ وطن افسر کی طرح انکا انجام یہ ہوا کہ حکومت کے بدلتے ہی گرفتار کر لئیے گئے اور مرتضی بھٹو کے کیس میں نامزد ہو کر سالہا سال کراچی کی جیل میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے۔
بطورِ ڈائیریکٹر جنرل اینٹلیجنس بیورو ان کا اہم ترین اور کامیاب ترین کارنامہ کراچی میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنا تھا۔ جب کراچی میں روز درجنوں لاشیں گرائی جا رہی تھیں اور خوف نے شہر کو جکڑا ہوا تھا تو وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو نے قصور میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان چوہوں کو بلوں سے نکالیں گے۔ یہ اعلانِ جنگ تھا۔ لوگ اسکو سیاسی بیان سمجھ کر مزید گھبرا گئے کہ اب دہشت گرد مزید قتل و غارت کریں گے۔ لیکن جنرل نصیر اللہ بابر اور مسعور شریف اپنا انسدادِ دہشت گردی پلان وزیرِ اعظم سے منظور کروا چکے تھے۔ چار ماہ میں ہی دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی۔ اس موقع پر مسعود شریف نے مشورہ دیا کہ ایم کو ایم لیڈرشپ سے مذاکرات بھی شروع کر دئیے جائیں تاکہ جمہوری عمل جاری رہے۔
جب محترمہ بینظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے مصالحتی مذاکرات شروع کئیے تو مسعود شریف نے اصولی اختلاف کیا۔ اسکا اظہار بھی کیا۔ جب انکی بات نہ سنی گئی تو پارٹی سے استعفی دے دیا۔ انہوں نے اس خط کو جو محترمہ کو لکھا گیا تھا میرے ساتھ ای میل پر شئیر کیا۔ میں نے پوچھا کیا محترمہ نے استعفی منظور کر لیا ہے؟ اس پر انکا جواب آیا مجھے یہ بتائیں میں نے ٹھیک کیا ہے یا غلط؟ میں نے کہا اگر یہ آپکے ضمیر کی آواز ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ (وگرنہ میرا خیال تھا کہ یہ انتہائی قدم اٹھانے کی بجائے پارٹی کے اندر رہ کر ہی اختلاف کیا جانا بہتر تھا)
یہ ۸۰۰۲ کی بات ہے۔ آصف علی زرداری صدر بن چکے تھے۔ میں دبئی میں تعینات تھا۔ وہاں مقیم انکے لے پالک بھائی اویس مظفر ٹپی سے ایک کافی شاپ میں گپ شپ کرتے ہوئے مسعود شریف کا ذکر آ گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک اچھے انسان ہیں اور موثر افسر تھے مگر چونکہ وہ پارٹی سے استعفے دے چکے ہیں لہذا وہ کسی عہدے کے لئیے زیرِ غور نہیں۔ ظاہر ہے اب انکے لئیے پیپلز پارٹی کے دروازے بند کر دئیے گئے۔ یہ سراسر پیپلز پارٹی اور ملک کا نقصان تھا۔ اس کے بعد وہ کچھ عرصہ پی ٹی آئی میں بھی رہے مگر جلد ہی عمران خان کی سیاسی نا سمجھی سے متنفر ہو گئے اور پارٹی کو خیرآباد کہہ دیا۔
مسعود شریف جیسے نابغہ روزگار شخص کے جانے سے معاشرہ مزید تہی دست ہو جاتا ہے۔ بونے راج کرنے لگتے ہیں۔ اداروں میں تنزلی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ مسعود شریف کے بعد آئی بی میں دو تین نام ہی ایسے آئے جو انکی روایت اور راہ پہ چل سکے۔ طارق لودھی اور بریگیڈئیر اعجاز شاہ بطور ڈی جی آئی بی موثر رہے چونکہ وہ اینٹلیجنس کے آرٹ کو سمجھتے تھے اور اسکو استعمال کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ ان سے قبل بریگیڈئیر امتیاز بھی طاقتور آئی بی چیف گردانے گئے۔
اگرچہ مسعود شریف کی اچانک موت انکے چاہنے والوں کے لئیے ایک گہرا صدمہ ہے، یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ انکے لگائے ہوئے اور آبیاری کئے ہوئے چند اشخاص کی طرف سے دو حرفِ افسوس بھی سننے کو نہیں آئے۔ 1997 میں جب وہ کراچی جیل میں پابندِ سلاسل تھے تو میں ان سے ملاقات کے لئیے جیل گیا۔ وہ مل کر بہت خوش ہوئے اور گلا کیا کہ ان سے آئی بی کا کوئی افسر ملنے نہیں آتا۔ شاید یہ گلہ اب بھی ہو گا۔ خدا کرے آپکا آخری سفر پر سکون ہو، لحد نور سے معمور ہو۔ اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے اور انکو جنت الفردوس میں بہترین مقام عطا فرمائے۔