انجن جیسے ہی گاڑی کو آخری اسٹیشن پر لا کر کھڑا کرتا ہے تو کسی گھر سے روٹھے ہوئے شوہرکی طرح گاڑی کو چھوڑچھاڑ کرسیدھا آگے کہیں چلا جاتا ہے

انجن جیسے ہی گاڑی کو آخری اسٹیشن پر لا کر کھڑا کرتا ہے تو کسی گھر سے روٹھے ...
انجن جیسے ہی گاڑی کو آخری اسٹیشن پر لا کر کھڑا کرتا ہے تو کسی گھر سے روٹھے ہوئے شوہرکی طرح گاڑی کو چھوڑچھاڑ کرسیدھا آگے کہیں چلا جاتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:36
بڑے اسٹیشنوں پر تو یہ ممکن ہے کہ انجن کا رخ مشین سے گھما کر موڑ لیا جائے، جو بہت ہی آسان طریقہ ہے۔ لیکن چھوٹے اسٹیشن پر یہ انتظام نہیں ہوتا۔ لہٰذا انجن جیسے ہی گاڑی کو آخری اسٹیشن پر لا کر کھڑا کرتا ہے تو وہ کسی گھر سے روٹھے ہوئے شوہرکی طرح گاڑی کو وہیں چھوڑچھاڑ کرسیدھا آگے کہیں چلا جاتا ہے۔لگتا ایسا ہی ہے کہ شاید اب وہ واپس نہیں آنے کا۔ مگر وہ کچھ دیر بعد ہی ایک بڑا سا لوپ بناتا ہوا مرکزی لائن کیساتھ والی پٹری پرنمودار ہوتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اب واپسی کے لیے اس کا رخ خود بخود تبدیل ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ اسٹیشن پر کھڑی ہوئی ریل گاڑی کے پہلو میں سے آگے نکل جاتا ہے اور وہاں سے الٹے قدموں واپس آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس دوران کانٹے والااس ریل کی پٹری کو دوبارہ مرکزی لائن سے منسلک کر دیتا ہے جس پر انجن دبے قدموں چلتا ہوا کھڑی ٹرین کے بفرز سے آ ٹکراتا ہے اور ساتھ ہی اس کے کل پرزے بھی کس دئیے جاتے ہیں۔اس جھٹکے کو دیکھ کر اور محسوس کرکے کچھ مسافر بہت محظوظ ہوتے ہیں اور بلند آواز میں ساتھیوں کو کامیابی سے انجن کے لگنے کی اطلاع دیتے ہیں۔ یوں گاڑی ایک بارپھرنئے مسافروں کو لے کر واپسی کی راہ اختیار کرتی ہے۔
یہ تو انجن کا رخ موڑنے کا ایک پیچیدہ اور قدرے فرسودہ سا طریقہ ہے۔ اب تو ایک برقی نظام کے تحت ایک چھوٹی سی جگہ پر ہی انجن اپنی سمت تبدیل کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے شنٹنگ یارڈ میں ہی ایک بہت چوڑا اور وسیع و عریض کنواں بنایا جاتا ہے، جس پر ایک مضبوط پلیٹ فارم بنا کر پٹری بچھا دی جاتی ہے۔ ایک خودکار ہائیڈرولک نظام کے تحت یہ پلیٹ فارم ایک بڑی موٹر کی مدد سے 360 ڈگری پر گھوم سکتا ہے۔ اس سارے نظام کو ریلوے کی زبان میں ٹرن ٹیبل کہا جاتا ہے۔ جیسے ہی کوئی انجن سمت تبدیل کرنے کے لیے آتا ہے تو اس کو کھینچ تان کر اس پلیٹ فارم پر بنی ہوئی اس پٹری ر چڑھا کر ہائیڈرولک موٹر چلا دی جاتی ہے۔ جس سے یہ پلیٹ فارم نصف چکر لگا کر دوبارہ اسی پٹری کے سامنے آ جاتا ہے جہاں سے چل کر یہ اس مقام تک پہنچا تھا لیکن اس بار اس کا رخ بدل چکا ہوتا ہے اور اب وہ اسی طرف واپس جا رہا  ہوتا ہے جدھر سے وہ آیا تھا۔ بس دو چار منٹ کی تو بات ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ موٹر کام نہیں کرتی تو وہاں کام کرنے والے ملازمین مل کر اس پلیٹ فارم کو گھما دیتے ہیں۔ ایسے کاموں میں پھر زور تو آخر لگتا ہے۔ اس ٹرن ٹیبل کا رابطہ مختلف اطراف کو جانے والی  پٹریوں سے بھی ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ہر سمت گھومتا ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -