اتوار کو ٹی وی دیکھنے حکیم صاحب کے گھر جاتے، ہمارے پاس نہیں تھا،”پاکیزہ“ فلم دکھا نے کا اعلان ہوا تو لاہور کی مارکیٹ میں ٹی وی کم پڑ گئے

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:77
ٹی وی کی عیاشی؛
اس دور کی سب سے بڑی عیاشی نیا نیا آیا ٹی وی تھا۔ابتداء میں لاہور اور کراچی میں پاکستان ٹیلی ویثرن کی نشریات 1969ء میں شروع ہو ئی تھیں اور ہمیں اس عیاشی کا پتہ لاہور آ کر ہی چلا تھا۔ ابتداء میں ہم اتوار والے دن ٹی وی دیکھنے حکیم صاحب کے گھر جاتے تھے کہ ہمارے گھر میں ٹی وی نہیں تھا۔ مجھے نہیں معلوم ابا جی افورڈ نہیں کرتے تھے یا وہ خریدنا نہ چاہتے تھے۔ میں نے 1974ء کی اسلامی سربراہ کانفرنس بھی حکیم صاحب کے گھر ہی دیکھی تھی۔ 74 میں ہی بھارت نے امرتسر ٹی وی سٹیشن کی نشریات کا آغاز کیا اور پہلے دن ہی”پاکیزہ“ فلم دکھا نے کا اعلان کیا۔ اعلان کا ہونا تھا کہ لاہور کی مارکیٹ میں ٹی وی کم پڑ گئے اور راتوں رات ان کی قیمت میں بھی بڑااضافہ ہو گیا تھا۔ ہر شخص کی خواہش تھی کہ اس کے گھر کی چھت پر لگا ٹی وی انٹینا کا رخ درست سمت ہو تاکہ تصویر کی کوالٹی صاف اور واضح ہو۔ ہر سیانا چھت پر کھڑا ہو تا، انٹینا گھو متا اور نیچے کھڑے گھر والے اونچی آواز میں اسے بتا رہے ہوتے؛”بس بس یہاں صاف ہے۔۔او او نہیں تم نے پھر ہلا دیا ہے۔۔ تصویر خراب ہو گئی ہے۔۔ گھما گھما۔۔ او کیا کر رہے ہو۔۔ انڈیا کی طرف رخ کرو۔۔ بس بس یہیں رہنے دو۔۔ بس ٹھیک ٹھیک۔۔”پاکیزہ“ فلم جب ٹی وی پر لگی تو بازار اور سڑکیں سنسان تھیں۔جن کے گھر ٹی وی نہیں تھا وہ دیوانہ وار دوسروں کے گھروں میں جا کر فلم دیکھنے کے لئے بے تاب ہو ئے جا رہے تھے۔ہمیں ابا جی کی طرف سے اجازت ہی نہ ملی اور نہ ہی کوئی بحث کی جا سکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا؛”کس طرح دشمن ملک کی فلم کے لئے کوگوں میں اتنی بے تابی ہے۔ ابھی سقو ط ڈھاکہ کا زخم ہرا ہی ہے۔ بیٹا! یہ انڈیا اب کچے ذھنوں پر ثقافتی وار کر ے گا۔ جدید دنیا کا ایک اصول ہے اپنے دشمن کو اخلاقی لحاظ سے کھوکھلا کر دو اور باقی کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اخلا قی طور پر بدحال اور معاشی طور پر کنگال قوموں کا کوئی مسقبل نہیں ہوتا بیٹا۔ محکوم قوموں کے تو جانور بھی محکوم ہوتے ہیں۔تم سے ہندو اب یہی چال چلے گا۔“ 5 دھائیاں قبل میرے والد کی کہی بات2 دھائیاں قبل سچ ثابت ہو چکی۔
پاکستان ٹیلی ویثرن ڈرامے کا سنہری دور؛
میرے گھر میں آر جی اے کا بلیک اینڈ وائیٹ ٹی وی 1975 میں آیا۔ان دونوں پی ٹی وی کی نشریات کا دورانیہ پانچ چھ گھنٹے ہی ہوتا تھا اور رات 10 بجے ٹی وی کی نشریات اختتام پذیر دہو جاتی تھیں۔ ان دنوں mr chippe, bonanza, انگریزی کے مقبول پروگرام تھے جبکہ پاکستانی ڈرامے بہت مقبول تھے۔ اس دور میں سماجی برائیوں کو ہلکے پھلکے انداز میں ٹی وی کی مشہور اور مقبول سیریل ”الف نون“ کے ذریعے اجاگر کیا گیا تھا۔کمال رضوی نے اس سیریل کے ذریعے معاشرتی کمزریوں کی نشاندھی خوب کی۔1975ء میں لیا گیا بلیک اینڈ وائیٹ ٹی وی 76 میں بے کار سمجھا جانے لگا جب پاکستان ٹی وی نے اسی سال نومبر میں رنگین نشریات کا آغا ز کیا۔پی ٹی وی ڈرامہ کا سنہری دور شروع ہو چکا تھا اور 74میں بننے والی بلیک اینڈ وائیٹ سریل ”خدا کی بستی“ نے ہر طرف شہرت کے جھنڈے گارڈ دئیے تھے۔ روحی بانو نے اپنے کردارسے اس ڈرامے کو امر کر دیا تھا۔ شوکت صدیقی کے تحریر کردہ اس ڈرامے میں معاشرے کے ہر فرد کے مسائل کی اعلی انداز میں نشاندہی کی گئی تھی۔77 میں فلپس کا رنگین ٹی وی گھر آیا اور غالباً اسی سال سے پاکستان ٹیلی وثرن ڈرامے کے سنہری دور کا آغاز ہوا۔ اوپر تلے شاندار ڈرامے شاقین کو دیکھنے میں ملے۔ ان ڈراموں کے معیار، کہانی، فلم بندی، ڈرامائی تشکیل، ہدایت کاری، اداکاری نے برصغیر کی ڈرامہ انڈسٹری میں دھاک ہی نہیں بٹھا ئی بلکہ نئی جہت بھی دی۔ ایک سے بڑھ کر ایک شاہکار ڈراموں نے ڈرامہ انڈسٹری کواوج کمال پر پہنچا دیا۔ عوام کو ان ڈراموں کی قسط کا انتظار ہوتا اور لوگ اپنے ٹی وی کی سکرنیوں سے چپک کر بیٹھ جاتے تھے اور اپنے پسندیدہ ڈرامہ کی قسط والے دن کسی بھی تقریب میں نہ جاتے تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔