خود میں بے اعتمادی، نااہلی اور عدم صلاحیت کا تمام تر الزام آپ ناانصافی کے سر تھوپ دیتے ہیں، دوسروں کی نظروں میں اپنی اہمیت کم نہیں دیکھنا چاہتے 

 خود میں بے اعتمادی، نااہلی اور عدم صلاحیت کا تمام تر الزام آپ ناانصافی کے سر ...
 خود میں بے اعتمادی، نااہلی اور عدم صلاحیت کا تمام تر الزام آپ ناانصافی کے سر تھوپ دیتے ہیں، دوسروں کی نظروں میں اپنی اہمیت کم نہیں دیکھنا چاہتے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:137
10:”اگر وہ شخص یہ کام کر سکتا ہے تو پھر میں بھی یہ کام کر سکتا ہوں“ پر مبنی رویہ اپنانے کے ذریعے آپ دوسرے شخص کے طرزعمل کے باعث اپنی نااہلی کو جائز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کا یہ رویہ، آپ کی طرف سے دھوکادہی، فریب کاری، چوری چکاری، دلی لگی، دروغ گوئی، کام کرنے میں تاخیر یا پھر دیگر اخلاقی کمزوریوں جو آپ کے شایانِ شان نہیں ہیں، کے ضمن میں ایک منطقی وجہ ثابت ہوسکتی ہے۔ شاہراہ پر ایک گاڑی سے اپنی گاڑی آگے نکال کر لے جانا، کیونکہ اس نے بھی ایسے ہی کیا تھا یا پھر گاڑیوں کی قطار کے آگے کھڑے ہو کر سست رفتاری سے گاڑی چلانا کیونکہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا، کے باعث آپ بھی واضح طو رپر خطرے میں مبتلا ہوسکتے ہیں، محض اس لیے کہ آپ کی طرف سے مطالبہئ انصاف کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ یہ طرزعمل تو ایسا ہی ہے کہ ”اس نے مجھے تھپڑمارا ا س لیے میں نے بھی اسے تھپڑ مار دیا۔“ عام طور پر یہ رویہ وہ بچے اپناتے ہیں جنہوں نے اپنے والدین کو اسی قسم کا رویہ اورطرزعمل اختیار کرتے ہوئے دیکھا۔جب اس قسم کا یہ عمل مضحکہ خیز اثباتی صورتحال اختیار کر لیتا ہے تو پھر لڑائی جھگڑا شرو ع ہوسکتا ہے۔
11:آپ بھی اسی قیمت کا تحفہ خریدتے ہیں جس قیمت کا تحفہ آپ کو وصول ہوا ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص آپ کے ساتھ نیکی کرتا ہے تو آپ بھی اس نیکی کا بدلہ چکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ تعلقات میں بہتری برقرار رکھنے کے بجائے تعلقات میں حساب برابر رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ”یہی تو انصاف ہے۔“
مندرجہ بالا حالات اور معاملات ایسے ہیں جن میں آپ انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں، بے انصافی ختم کرنا چاہتے ہیں، کسی کا احسان اپنے سر پر نہیں رکھنا چاہتے، دوسروں کی نظروں میں اپنی وقعت واہمیت کم نہیں دیکھنا چاہتے لیکن اندرونی طورپر آپ انتشا ر کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ فضول اور بے کار فقرہ آپ کے ذہن میں مسلسل گردش کرتا رہتا ہے کہ ہر طرف انصا ف کا بول بولا ہونا چاہیے۔
”انصاف ومساوات کا مطالبہ“ اپنانے کے نقصانات / اثرات
اس قسم کے روئیے اورطرزعمل کے باعث وہ نقصانات اور اثرات ظاہر ہوتے ہیں جو اس لحاظ سے آپ کے شخصیت کے لیے ضرررساں ہوتے ہیں کہ آپ حقیقت سے دور ہوتے جاتے ہیں اور خوابوں کی اس دنیا میں چلے جاتے ہیں جس کا کہیں بھی وجود نہیں ہے۔ ”انصاف ومساوات کے مطالبے“ کو اپنانے اور اختیار کرنے کی چند عمومی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
1:آپ خود کو قابل عزت و احترام سمجھنے کے باعث خودپسندی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک ایساطریقہ ہے جس کے ذریعے آپ خودکو برتر اور بہتر سمجھتے ہیں۔ جب تک آپ روایتی انصاف و مساوات کو ہر ایک کے لیے ضروری تصور کرتے ہیں اور آپ دوسروں کے ساتھ حساب برابر رکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ خود کو احساس برتری میں مبتلا کر لیتے ہیں اور اپنی زندگی کے موجودہ لمحات (حال) میں مؤثر زندگی گزارنے کے بجائے خود پسندی اور تکبر اختیا رکرتے ہیں۔
2:آپ دوسرے لوگوں اور واقعات و حالات کو ناانصافی کا ذمہ دار ٹھہرا کر اپنی زندگی کی ذمہ داری اپنے ہاتھ سے چھوڑ کر ان کے حوالے کر سکتے ہیں۔ خود میں بے اعتمادی، نااہلی اور عدم صلاحیت کا تمام تر الزام آپ ناانصافی کے سر تھوپ دیتے ہیں۔ اس طریقے کے ذریعے آپ اپنی ذات کی کمزوریوں اور خامیوں کی اصلاح اور انہیں تبدیل کرنے کے ضمن میں نہ تو محنت کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی خطرہ مول لیتے ہیں جب تک آپ اپنے مسائل و مشکلات کو ناانصافی کا سبب قرار دیتے رہیں گے، آپ کے یہ مسائل و مشکلات اس وقت تک دور نہیں ہو سکتیں جب تک ناانصافی ختم نہیں ہو جاتی اور بلاشک و شبہ یہ ناانصافی کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -