منتخب صدر حاضرہو گئے!
سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے آئندہ تاریخ سماعت پر خصوصی عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ 16جنوری کو خود عدالت میں آئیں گے۔یہ اطلاع ان کے وکلاءکی طرف سے دی گئی ہے، جن کے دلائل سہ رکنی خصوصی عدالت کو قائل نہ کر سکے اور عدالت نے پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ پر بحث سننے کے بعد ہی یہ قرار دیا کہ ان کی حالت ایسی نہیں کہ وہ عدالت میں پیش ہونے سے قاصر ہوں، اس کے علاوہ وکلاءپینل کی طرف سے بھی اس سے پہلے استثنیٰ کے لئے کوئی درخواست نہیں دی گئی صرف زبانی کہا گیا تھا کہ وہ ہسپتال میں داخل ہیں، لہذا جنرل(ر) پرویز مشرف 16جنوری کو پیش ہوں، اگر وہ نہ آئے تو عدالت قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔عدالت کا یہ حکم وکلاءنے ان کو ہسپتال میں سنایا اور پھر مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ وہ پیش ہوں گے، اس روز ممکنہ طور پر ان کے خلاف آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کے الزام میں فرد جرم عائد کی جائے گی اور پھر باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہوگا۔امکان ہے کہ یہ سلسلہ چلے گا، تاہم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آئینی جادوگر شریف الدین پیرزادہ کی زیر قیادت وکلاءکی ٹیم خصوصی عدالت کے احکام اور بعض دوسرے آئینی نکات کے حوالے سے اپیلیں دائر کرتے رہیں گے، ان کی طرف سے ایک نظرثانی کی اپیل پہلے ہی دائر کی جا چکی ہوئی ہے،جسے سپریم کورٹ کی فل کورٹ کے سامنے پیش کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کی حد تک یہ تو طے ہو گیا، لیکن یار لوگوں کا کیا کیا جائے جنہوں نے ان کی عدالت میں حاضری کے حوالے سے سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ موازنہ شروع کردیا ہے۔یہ اتفاق ہے کہ احتساب عدالت راولپنڈی نے آصف علی زرداری کو پولوگراﺅنڈ ریفرنس میں 9جنوری کے لئے طلب کیا ہوا تھا اور وہ اس مقصد کے لئے خصوصی طور پر راس الخیمہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد پہنچ گئے اور پھر احتساب عدالت میں پیش بھی ہو گئے، آصف علی زرداری کے خلاف بھی فرد جرم عائد ہونا تھی، لیکن ایسا نہ ہو سکا کہ ان کے وکیل فاروق اے نائیک نے ایک درخواست دائر کی کہ آصف علی زرداری کے خلاف مقدمہ خارج کیا جائے ان کے خلاف نہ کوئی ثبوت ہے اور نہ کوئی گواہ پیش ہوا، بلکہ اس ریفرنس میں جو شریک ملزم تھے وہ سب بری ہو چکے ہوئے ہیں، عدالت نے درخواست سماعت کے لئے منظور کرلی۔ فاروق اے نائیک کے مطابق پہلے اس پر فیصلہ ہوگا اور اس کے بعد عدالت جب بھی طلب کرے گی۔سابق صدر پیش ہوں گے۔اس درخواست پر بحث بھی 16جنوری ہی کو ہونا قرار پائی ہے اور اسی روز جنرل (ر) پرویزمشرف کو بھی طلب کیا گیا ہوا ہے۔یہ اتفاق ہی ہے کہ اس روز وہ پیش ہوں گے اور ان کے خلاف فرد جرم عائد ہوگی یا نہیں، یہ اسی روز معلوم ہوگا،دوسری طرف آصف علی زرداری کی بریت کے لئے درخواست ضرور زیربحث آئے گی۔
اب آصف علی زرداری اور محترمہ شہید کے بچے بڑے خوش ہیں اور برقی پیغام چلا رہے ہیں کہ ایک منتخب صدر پیش ہوگیا کہ ہم سب عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور انصاف کے طلبگار ہیں خوفزدہ نہیں،اور ایک وہ ہیں جو کہتے تھے ”مَیں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں“، لیکن پیشی ٹل نہ سکی تو سیدھے ہسپتال پہنچ گئے۔
جہاں تک سابق صدر آصف علی زرداری کا تعلق ہے تو واقعی عدالت ان کے لئے نئی نہیں، وہ کاملاً آٹھ سال تک جیل میں رہے اور جیل ہی میں پیشیاں بھگتا کرتے تھے۔ان کے خلاف ریفرنس یا مقدمات کی نوعیت ایسی تھی کہ ان کو کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں عدالتوں کے سامنے پیش ہونا پڑتا تھا، چنانچہ وہ زیرحراست ملزم کی حیثیت سے آیا کرتے تھے۔ایک سیاست دان ہونے کی حیثیت سے وہ جیل میں ہوتے ہوئے بھی سیاست سے دور نہیں رہتے تھے، ان کی تاریخ پیشی سے قبل ہی ان کی جماعت کے رہنماﺅں کی طرف سے ملاقات کے لئے درخواستیں دی جاتیں اور وہ ملاقاتیں کرتے تھے۔بعض لوگوں کے لئے خود آصف علی زرداری درخواست کرتے تھے۔
لاہور میں آنا ہوتا تو پارٹی کے رہنما ان کی پسند کے کھانے پکواتے اور سوغاتیں لے کر جاتے تھے، لاہور کوٹ لکھپت جیل میں جو کھانا جاتا اور جیل ڈاکٹر کی چیکنگ کے بعد ان تک جاتا تھا تو سب حاضر محفل اس میں شریک ہوتے تھے۔آصف علی زرداری کبھی ملول نظر نہیں آئے ہمیشہ ہنستے مسکراتے ملتے اور جب مجلس جمتی تو سنجیدہ گفتگو ایک طرف رہ جاتی اور ہنسی مذاق شروع ہو جاتا، آصف علی زرداری کی ایک عادت اور بھی تھی ان کو لوگ یاد رہتے تھے، اکثر وہ پوچھ بھی لیتے کہ فلاں صاحب کہاں ہیں وہ کیوں نہیں آئے۔وہ اپنی وابستگی ظاہر کرتے لیکن یار لوگ اسے حاضری سے تعبیر کرتے تھے، بہرحال آصف علی زرداری کی اسی ثابت قدمی کی وجہ سے محترم مجید نظامی نے ”مردِ حُر“ قرار دیا تھا، یوں تو آصف علی زرداری کے خلاف پانچ سے زیادہ ریفرنس بنائے گئے اور ان کو قتل کے مقدمات میں بھی ملوث کیا گیا ان میں تو وہ بری ہو گئے لیکن ریفرنسوں میں سے کسی ایک کا بھی فیصلہ نہیں ہوا اور نہ ہی ان کے خلاف شہادتیں پیش ہو سکیں، اگرکسی ریفرنس میں کوئی شہادت ہوئی تو وہ بھی ان کی حمائت ہی میں گئی تھی، بالآخر ان کی ہر ریفرنس میں ضمانت ہوگئی اور تاحال ضمانت پر ہیں،2008ءکے انتخابات کے نتیجے میں صدر منتخب ہوئے تو استثنیٰ کی وجہ سے ان کے خلاف ریفرنسوں کی کارروائی روک دی گئی تھی جو ان کی صدارتی میعاد پوری ہونے کے بعد پھر سے شروع ہوگئی کہ اب وہ سابق صدر ہیں۔
ان کی جماعت والوں اور بچوں نے جو موازنہ کیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف گھر سے عدالت کے لئے روانہ ہوئے، راستے میں ان کو سینے میں درد ہوا اور وہ سیدھے امراض قلب کے فوجی ہسپتال پہنچ گئے، اب تک زیر علاج ہیں اور ڈاکٹروں کی رپورٹ نے موقع دیا کہ ان کی صحت کو بہتر کہا جائے، بہرحال اسی بہانے ان کے ٹیسٹ ہوگئے اور امراض کا پتہ چل گیا اب علاج ان کی صوابدید پر ہے، فی الحال تو شدید علالت کے باعث بیرون ملک علاج کرانے کی خبریں بھی پس منظر میں چلی گئی ہیں، آئندہ سماعتوں پر مزیدمعلومات ملیں گی۔٭