قصور میں انسانیت شرمسار
کالم لکھنے بیٹھا تو سوچا آج بلوچستان میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی پر کچھ لکھوں پھر خیال آیا کہ نہیں نواز شریف نے شیخ مجیب الرحمن کو حب الوطنی کا جو سرٹیفکیٹ دیا ہے، اُس پر لکھا جائے، تب دھیان وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پر چلا گیا کہ اگر سپریم کورٹ نے ان کے عدلیہ مخالف بیان کا نوٹس لے کر انہیں بقول خالد رانجھا گھر بھیج دیا تو کیا ہوگا۔
یہ سب موضوعات ذہن میں چل رہے تھے کہ بیٹی نے ٹی وی آن کردیا، بریکنگ نیوز تقریباً ہر چینل پر چل رہی تھی کہ قصور میں معصوم بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرکے اس کے گھر کے قریب گلی میں پھینکنے کے واقعہ پر اہل قصور مُشتعل ہوگئے ہیں اور انہوں نے پورا شہر بند کرادیا ہے،کچھ لوگ ڈی سی او اور ڈپٹی کمشنر آفس میں گھس گئے ۔
توڑ پھوڑ کی ہے دونوں افسران میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور مظاہرین کو کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں، پولیس کی فائرنگ سے تادم تحریر چار افراد رخمی ہوئے ہیں، جن میں سے دو کی حالت نازک ہے، میں سوچنے لگا یہ کس جنگل میں ہم رہ رہے ہیں، جہاں بڑے سنگین واقعات رونما ہوتے ہیں اور انہیں ڈیل کرنے والے ادارے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں، یہ قصور آخر لاہور سے کتنی دور ہے، یہ کس پنجاب کا حصہ ہے کہ جہاں سے قانون کا خوف رخصت ہوچکا ہے اور درندے دندناتے پھرتے ہیں، یہ قصور کا ڈی پی او اور ڈی سی او کیا کاٹھ کے آلو ہیں ۔
کیا انہیں اتنی عقل نہیں کہ انتہائی حساس واقعات کیا ہوتے ہیں، کیا زینب کی گمشدگی جب پانچ روز پہلے ہوئی تھی تو انہوں نے اس کا کوئی نوٹس لیا تھا، کیا متعلقہ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کے کان کھڑے ہوئے تھے کہ بچی کی گمشدگی کسی غیر معمولی المناک واقعہ کا باعث بھی بن سکتی ہے، اکثر گمشدگی کی رپورٹس لکھ کر پولیس والے غفلت کی نیند سو جاتے ہیں، مجال ہے کہ کسی تفتیش کا آغاز کریں۔
عموماًلواحقین کو ہی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے عزیز و اقارب میں گمشدہ بچے کو تلاش کریں، کوئی سراغ ملے تو ہمیں بتائیں، جب تک کسی گمشدہ کی نعش نہیں مل جاتی پولیس والے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اس واقعہ میں بھی یہی کچھ ہوا۔ غفلت کا یہ عالم ہے کہ قاتل بچی کی نعش کو گھر کے پاس ہی پھینک کر چلا جاتا ہے، مگر پولیس سمیت کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔
میں تو یہ سن کر سر پیٹنے تک پہنچ گیا ہوں کہ صرف ایک سال کی مدت میں 12 سے زائد ایسے واقعات صرف قصور میں ہوچکے ہیں، جن میں معصوم بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا اور ان کی لاشیں گھروں کے قریب پھینکی گئیں، کیا اتنی تعداد میں واقعات کے بعد بھی کہا جاسکتا ہے کہ قصور میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہے، بتایا جارہا ہے کہ پولیس ابھی تک بیشتر واقعات کے ملزموں کو گرفتار تک نہیں کرسکتی، حالانکہ وزیراعلیٰ شہباز شریف زیادتی کا شکار ہونے والوں کو دلاسہ دینے قصور جا کر ملوث درندوں کی گرفتاری کا حکم بھی دے چکے ہیں یہ صورت حال عوام میں عدم تحفظ اور غم و غصہ پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔
لوگ آخر کب تک صبر کرسکتے ہیں اور کب تک انہیں لیپاپوتی جیسے اقدامات سے بہلایا جا سکتا ہے، جبکہ دوسری طرف حالت یہ ہو کہ معصوم بچیاں درندگی کا نشانہ بن رہی ہوں اور ان کی بریدہ لاشیں کوڑے کے ڈھیر پر پھینکے جانے کا سلسلہ جاری ہو۔
یہ قصور آخر ہے کون سی زیر عتاب جگہ کہ جہاں درندے ناچتے پھرتے ہیں اور قانون ان کے سامنے بے بس تصویر بنا ہوا ہے۔ اس شہر میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے اَن گنت واقعات ہو چکے ہیں اور ان پر شور بھی بہت مچا، پھر معاملہ دب گیا۔ اب معصوم بچوں کے ساتھ تسلسل کے ساتھ واقعات ہو رہے ہیں، مگر درندے ہاتھ نہیں آ رہے۔
کیا یہ معمولی بات ہے جسے ہم نظر انداز کر دیں۔ کیا ہم اس کے باوجود پنجاب میں گڈگورننس کاراگ سنتے رہیں۔افسروں کی اہلیت کا معیار کون چیک کرے گا ؟کب اس کے اندر فرض کی وہ آگ بھری جائے گی جو جرائم پیشہ افراد کو ڈھونڈنے اور کیفر کردار تک پہنچانے میں اس کے کام آ ئے گی ۔ فی الوقت تو یوں لگتا ہے پولیس ایک لاتعلق سا محکمہ ہے جو مجرموں کے خلاف سرگرم ہونے کی بجائے اس بات کا انتظار کرتا ہے کہ کب وزیراعلیٰ کسی واقعہ کا نوٹس لیں اور کب وہ اپنا فرض انجام دے ۔
دنیا بھر میں نفسیات دانوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ معاشرے میں سب سے زیادہ خوف و ہراس بچوں کے خلاف جرائم سے پھیلتا ہے۔ کسی معاشرے کو بے یقینی و خوف میں مبتلا کرنا ہو تو وہاں بچوں کے خلاف جرم کو عام کر دیا جائے۔ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ہمارے دور دراز پہاڑی مقامات میں خرکار کیمپ ہوتے ہیں، جہاں بچوں کو اغوا کرکے رکھا جاتا ہے اور اغوا برائے تاوان کے تحت بھتہ وصول کرکے بچے لوٹائے جاتے ہیں، اکثر ان کی لاشیں ہی واپس ملتی ہیں۔
ایران، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور اردن میں تو بچے یا بچی کے ساتھ زیادتی کے ملزم کو چند دن بعد سرعام پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ وہاں اسے سب سے بڑا جرم سمجھا جاتا ہے، جس میں ملوث ملزم کسی رعایت کا مستحق نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں یہ واقعات کبھی کبھار ہی رونما ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ واقعات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔
قصور میں بارہ واقعات کا صرف ایک سال میں رونما ہونا خطرے کی گھنتی بجا رہا ہے۔ آپ سوچیں کہ قصو رکی مائیں اپنی بچیوں کے بارے میں کس قدر خوفزدہ ہوں گی۔ ان کے لئے انہیں سکول بھیجنا گلی میں دکان سے سودا لانے کا کام سونپنا کس درجہ مشکل ہو چکا ہوگا۔ ریاست کیا کررہی ہے اور کیسے معاشرے کو چلایا جا رہا ہے۔
آج ہی کی خبر ہے کہ شورکوٹ میں 4سالہ ارم کو نشہ پلا کے زیادتی کرنے والے ملزم غلام شبیر کو پولیس چوکی کی طرف لے جا رہی تھی کہ اس نے کانسٹیبل سے بندوق چھیننے کی کوشش کی، اسی کھینچا تانی میں گولی چلی اور وہ ہلاک ہو گیا۔ ایسی فرضی کہانیوں سے قانون کی دھاک بیٹھتی ہے نہ خوف طاری ہوتا ہے۔
میں آج کہہ رہا ہوں قصور میں جس درندے نے معصوم زینب کو قتل کیا ہے وہ پکڑا بھی جائے گا اور پولیس اسے مار کر کوئی فرضی کہانی بھی گھڑلے گی، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ کوئی اور واقعہ پھرہو جائے گا۔ جب تک آپ قانونی تقاضوں کو پورا کرکے کسی درندے کو سرعام پھانسی پر نہیں لٹکاتے، اس وقت تک قانون کی موجودگی کا احساس نہیں ہوتا۔
ایسے کیسوں کے لئے پراسیکیوشن سسٹم کو تیز تر بنانا ہوگا اور عدالتوں کو بھی فوری سماعت کے بعد فیصلے سنانے ہوں گے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ معصوم بچوں سے زیادتی اور انہیں قتل کرنے کے مقدمات میں اگر چند درندوں کو سر عام پھانسی کی سزا مل جائے، کسی کو جرأت نہیں ہوگی کہ وہ آئندہ اس قسم کا کھیل کھیلے۔
یہ درست ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے والدین پر بھی بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، خاص طور پر بچوں کے والدین کو کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
معصوم بچیوں کو سودا سلف لانے کے لئے نہ بھیجیں، یہ نہ ان کی عمر کا کام ہے اور نہ ان کی ذمہ داری، زینب کی جو فوٹیج سامنے آئی ہے، وہ قاتل کی انگلی پکڑ کر بڑے آرام سے اس کے ساتھ جا رہی ہے، اس سے دو شبہات اُبھرتے ہیں یا تو قاتل کو وہ جانتی ہے یا پھر اسے ورغلایا گیا ہے، کسی کھلونے یا کھانے پینے کا لالچ دیا گیا ہوگا۔
اب سوچنے کا نکتہ یہی ہے کہ وہ کیسے اتنی آسانی سے قاتل کے جھانسے میں آگئی۔ بچوں کے ذہن میں یہ بات راسخ کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کسی اجنبی سے کلام نہیں کرنا اور نہ کوئی چیز لینی ہے اول تو معصوم بچوں کو جن کی عمر دس بارہ سال تک کے درمیان ہو، اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنے کی کوشش ہی کرنی چاہیے۔
اکثر سننے کو ملتا ہے کہ بچی جب بہت دیر تک نظر نہ آئی تو اس کی تلاش شروع ہوئی۔ آخر اتنی دیر اس کے آنکھوں سے اوجھل ہونے کو نظر انداز کیوں کیا گیا؟یہ واقعات معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہیں، یہ ہمارے معاشرتی انحطاط کو بھی ظاہر کر رہے ہیں اور اس نجات کے بھی عکاس ہیں کہ ہمارے ہاں اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے، سوشل میڈیا نے بگاڑ کے کئی دروازے کھول دیئے ہیں، جنسی بے راہ روی کو عام کرنے میں اس کا بڑا ہاتھ ہے، اس وقت ہمیں زیادہ ہوشیار اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے، ایک طرف ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہے اور دوسری طرف انہیں بدی کی قوتوں سے محفوظ بھی رکھنا ہے۔ پولیس کو بھی خوف خدا کرنا چاہیے، کم از کم بچوں کی گمشدگی کے معاملے پر تو اس کے اندر ایک تڑپ پیدا ہونی چاہیے، تاکہ ایسے واقعات میں ملوث درندے اپنا گھناؤنا کھیل کھیلنے کے بعد نشان عبرت بنا دیئے جائیں۔