سنگ و خشت کا پنجاب
ہم شہباز شریف کے پنجاب کا مقدمہ لڑتے ہوئے نہیں تھکتے کہ اس شخص نے صوبے کا چہرہ بدل دیا ہے مگر یقیناًوہ اپنے صوبے کادل نہیں بدل سکے۔درست کہا گیا کہ سنگ و خشت بھی اہم ہیں مگر سنگ و خشت سے نئے جہاں کب پیدا ہوتے ہیں، جہان تازہ کی ہے افکار تازہ سے نمود، جب تک ہمارے ذہن اور ہمارے روئیے نہیں بدلیں گے تب تک ہم چاہے اپنے چہروں پر لاکھوں کا میک اپ چڑھا لیں، ہم بھی نہیں بدلیں گے۔ بھلا یہ کبھی ہوا کہ کوڑھ کا مریض میک اپ سے صحت مند ہو گیا ہو۔ آٹھ برس کی معصوم زینب کے قتل نے دل کو نچوڑ کے رکھ دیا ہے اور میری سب سے پہلے تو ان تمام والدین سے گزارش ہے جو بچے پیدا کرتے ہیں تو پھر ان کی حفاظت بھی کیا کریں۔ اب وہ دن نہیں رہے کہ بچے گلیوں ، کھیتوں اور کھلیانوں میں کھیلتے رہیں، میں یہ نہیں کہتاکہ موبائل اور انٹڑنیٹ نے ہمیں شیطان بنا دیا ہے، انسان کے اندر ہوس ہر دور میں ہی موجود رہی ہے ،گیجٹ اس شیطانیت کو راہ دے رہے ہیں، آسان بنا رہے ہیں۔ وحشت ہی وحشت ہے اور دہشت ہی دہشت ہے،ہمیں اپنے بچوں کی خود حفاظت کرنا ہو گی، ان بچوں کی حفاظت کوئی شہباز شریف، کوئی مراد علی شاہ اور کوئی پرویز خٹک نہیں کر سکتا۔
حکومت کے لئے بحران در بحران ہیں۔حکمرانوں کے گھروں کے قریب ہسپتا ل کے باہر ایک عورت نے بچے کو جنم دے دیاتو شائد اسی تناظر میں گذشتہ روز دعوت ملی کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف رائے ونڈ روڈ پر ہسپتال میں ساٹھ بستروں کے اضافے کا افتتاح کر رہے ہیں۔ وہاں آنے کی دعوت دی گئی تو سوچاکہ اتنی دورصرف وزیراعلیٰ سے ہاتھ ملانے کے لئے نہیں جا یا جا سکتا اور وہ ہاتھ ملانا بھی رسک پر ہو۔ کسی بھی ہسپتال میں بستروں کا اضافہ اچھی بات ہے تواس کی کسی کالم اور کسی پروگرام میں تعریف بھی کر دیں گے کہ اسی دوران زینب کے اندوہناک قتل کا معاملہ گرم ہو گیا تو میں نے سوچا، کاش ہم سڑکیں اور عمارتیں بنانے کے ساتھ ساتھ انسان بنانے کے بھی کسی بڑے منصوبے پر کام کر تے۔ یہ دن بدن مشکل ہوتی ہوئی زندگی ہمیں انسانیت سے دور لے جا رہی ہے،حیوان بناتی چلی جا رہی ہے۔ جب آپ حکمرانوں تک بات ہی نہ پہنچا سکتے ہوں تو پھر ان کے دربار میں حاضری کی کوئی بھی ضرورت نہیں ہوتی کہ حکمران صرف تعریف پسند کرتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ انہیں صرف پنجاب اور پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام اور کرہ ارض کے ساتھ ساتھ پوری کائنات کا سب سے بڑا لیڈر تسلیم کر لیا جائے، ان کا ڈھول بجا دیا جائے۔
شہباز شریف کے پنجاب میں مادی طور پر بہت کچھ ہوا ہے مگرانسانی حوالوں سے بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اس پنجاب میں ان کے سیاسی مخالف بھی کسی قانون ،ضابطے اور اخلاقیات کے پابند نہیں، ان کے بہت سارے مخالفین کو محض ہنگامے اور، لاشیں درکار ہیں ورنہ میں نہیں جانتا کہ زینب کے قتل کے بعد کمشنر کے دفتر پر ہلہ بولنے کی کیا ضرورت تھی ، چلیں، عوا م میں غم و غصے کی توجیہہ پیش کی جا سکتی ہے اور اس امر کو بھی جواز دیا جا سکتا ہے کہ حکومت کا دشمن تو دشمن ہے، وہ اس موقعے کو کیوں ضائع کرے گا مگرپولیس کی طرف سے مظاہرین پرچلائی گئی سیدھی گولیوں کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس پولیس کو تو پہلے سے کہیں زیادہ محتاظ ہونا چاہئے تھا جو ابھی ماڈل ٹاون میں ہونے والے دس قتلوں کا حساب نہیں دے سکی،یہ نہیں بتا سکی کہ وہاں براہ راست فائرنگ کا حکم کس نے دیا تھا۔ مجھے کہنے دیجئے کہ اب آئی جی کی طرف سے تحقیقات کا اعلان بھی گونگلووں سے مٹی جھاڑنے کے سواکچھ نہیں ۔ یاد آیا چند روز قبل قربان لائنز میں سیف سٹی لاہور اتھارٹی کے زیر اہتمام لگائے گئے آٹھ ہزار کیمروں کی افتتاحی تقریب تھی۔ کسی نے بتایا کہ ہال میں نظر آنے والی ویڈیو وال دنیا کی سب سے بڑی ویڈیو وال ہے مگر لاہور میں لگنے والے کیمرے اور ویڈیو وال زینب کو نہیں بچا سکتے تھے ۔ میں نے اس موضوع پر لکھے کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ پنجاب کی روایتی پولیس کی محرومیاں اور شکوے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور مجھے اس واقعے میں نااہلی اور ناکامی کے ساتھ ساتھ محرومی اور مایوسی کا ہاتھ بھی لگتا ہے۔
میں ہزار بار توبہ کروں اگر پولیس گردی کا دفاع کروں، آپ کے تمام تر کیمرے، ویڈیو والز اور فرنٹ ڈیسک قصور میں کچھ نہیں کر سکے اور پھر پنجاب کے شہری سیدھی گولیاں چلاتے ہوئے مار دئیے گئے۔ کیا پولیس کو عوامی احتجاج سے نمٹنے کی کوئی تربیت نہیں دی گئی، کیا اسے نہیں بتایا گیا کہ اب وہ انگریز دور کی پولیس نہیں ہے جس کی بنیادی ذمہ داری برصغیر کے عوام کودبا کے رکھنے کی تھی چاہے وہ گالی سے دبائے جائیں یا گولی سے۔ کیا اسے یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اسے انہی عوا م کے خون پسینے کی کمائی پر لگے ہوئے ٹیکسوں سے تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ کیا اسے یہ نہیں سکھایا گیا کہ سب سے پہلے ان کے اعلیٰ افسران علاقے کی سیاسی اور غیر سیاسی معزز شخصیات کے ساتھ مل کر معاملہ حل کرنے کی کوشش کریں ۔ میں نے کراچی میں وزیراعلی ہاوس کے قریب بہت سارے احتجاج ہوتے دیکھے ہیں اور ہر چند روز کے بعد خبر آتی ہے کہ وہاں کی پولیس مظاہرین کو ہٹانے کے لئے پانی میں شرابور کر دیتی ہے۔ پولیس کے پاس ربر کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیل بھی ہوتے ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ پنجاب کی پولیس پنجاب ہی کے عوام پر فائر کھول دیتی ہے اور بار بار کھول دیتی ہے۔ اسی پولیس کے کچھ اہلکار چند روز قبل عوام کو باقاعدہ چھتر مارتے ہوئے پکڑے گئے تھے اور یہ رویہ اس کا ٹریڈ مارک بن چکا ہے۔
شہباز شریف نے کہا تھا کہ اگر وہ تھانہ کلچر نہ بدل سکے تو سیاست چھوڑ دیں گے اورقصور کے واقعے نے میری ان کی پولیس سے وابستہ تمام خوش فہمیاں ہوا کر دی ہیں۔یہ واقعہ اکیلا نہیں ہے کہ اس سے پہلے قصور کی پولیس ان تمام مجرموں کو بھی پکڑنے میں ناکام رہی ہے جنہوں نے اس شہر میں ایک برس میں ایسے گیارہ واقعات کئے۔ زینب کا قتل تو پولیس کی ڈوبتی ہوئی ساکھ کی کشتی میں�آخری بڑا اور بھاری پتھر تھا۔ میرے خیال میں وزیراعلیٰ پنجاب کو اپنی ناکامی کا عتراف کر لینا چاہیے کہ وہ کوڑھی کو میک اپ کر کے اپنے علاج کی تعریفیں کرواتے رہے حالانکہ انہیں اپنے میک اپ کرنے کی صلاحیت کے ڈنکے بجوانے چاہئے تھے۔ پولیس میں تبدیلی صرف وردی کا رنگ بدلنے اور لال نیلی بتیوں کے ساتھ سڑکوں پر گھومتی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں سے نہیں آ سکتی۔ عین ممکن ہے کہ شہباز شریف کی یہ پولیس فوری انصاف کے تقاضوں کوپورا کرتے ہوئے اس کے قاتل کو پکڑے اور جعلی پولیس مقابلے میں مار دے، اوریہ ہمارے کریمنل جوڈیشئل سسٹم کی مکمل ناکامی کا اعتراف اوراعلان ہو گا۔
آپ جب نظرئیے اور عقیدے کی بجائے اپنے معاشروں کی تعمیر پتھروں سے کرتے ہیں تو پھر پتھر تومحض پتھر ہوتے ہیں،ان کے سینوں میں دل ، جذبات اور احساسات نہیں ہوتے، یہ پتھرانسانوں کو کچل دیتے ہیں جیسے زینب کو مسل دیا گیا، جیسے احتجاج کرنے والوں کو کچل دیا گیا۔