بلوچستان کے نئے وزیر اعلٰی کے لئے جوڑ توڑ شروع ، اکثر یتی امید واروں کی حمایت کریں گے : اپوزیشن

بلوچستان کے نئے وزیر اعلٰی کے لئے جوڑ توڑ شروع ، اکثر یتی امید واروں کی حمایت ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کوئٹہ ، ڈیرہ بگٹی،اسلام آباد(ایجنسیاں ،مانیٹرنگ ڈیسک) بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع کا کہنا ہے کہ حکومت وزیراعلیٰ کے لیے متفقہ طور پر امیدوار سامنے لائے کیونکہ اپوزیشن حکومت کا حصہ نہیں بنے گی۔ نواب ثنااللہ زہری کے وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہونے کے بعد نئے قائد ایوان کے لیے جوڑ توڑ شروع کردیا گیا ہے، مسلم لیگ (ن) نے اپوزیشن کو اپنا امیدوار لانے کی پیشکش کی تھی جسے اپوزیشن نے مسترد کردیا ہے۔ جان اچکزئی نے کہا ہے کہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار کی حمایت یا اپوزیشن میں بیٹھنے کے حوالے سے ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی۔ پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ بیٹھ کر مشاورت کرے گی کہ وزارت اعلیٰ کے لیے مشترکہ امیدوار میدان میں اتارا جائے یا پھر اپوزیشن میں بیٹھا جائے۔مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات مشاہداللہ خان نے کہا ہے کہ حکومت بلوچستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پارٹی باغی اراکین اسمبلی کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ قانون دانوں کی جانب سے پارٹی ڈسپلن کی کہاں خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اگر انہوں نے پارٹی کے وزیر اعلیٰ ثنااللہ زہری کے خلاف ووٹ دیا تو صرف اسی صورت میں ان کے خلاف پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کا سوال اٹھتا ہے ٗ ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ہم اسے مناسبت سے اپنا فیصلہ کریں گے۔سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہاہے کہ بلوچستان کے باغی اراکین اسمبلی کو اپنی شکایات پارٹی قیادت کے پاس لے کر آنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ہم انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کہ 15 سے 16 ووٹوں کے حامل یہ لوگ آنے والے دنوں میں کیا کرتے ہیں اور اسی حساب سے اپنی حکمت عملی طے کریں گے۔ ثنااللہ زہری کے مستعفی ہونے کی خوشی میں میر سرفراز بگٹی کے حامیوں نے ڈیرہ بگٹی میں مٹھائیاں تقسیم کیں ،قبا ئلی عمائدین کی بڑی تعداد میر غلام نبی بگٹی کی رہائش گاہ پر پہنچے ، قبائلی عمائدین اور سرفراز بگٹی کے کارکنوں نے ایک دوسرے کو مٹھائی کھلا کر مبارکباد دی ۔دریں اثنا ء متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے والی جما عتوں کی مدد کے بدلے قائد ایوان کے لئے جس رکن اسمبلی کو اکثریتی جما عتیں نامزد کریں گی ہم اسے مکمل تعاون فراہم کر یں گے اپوزیشن جما عتیں نئی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گی، اگر کسی بھی طرح جمہوری نظام کو پٹری سے اتار نے کی کوشش کی گئی ہم اس عمل کی بھر پور مخالفت کریں گے ،ہم حکومت میں اس لئے نہیں جارہے کیونکہ ہم اپنی اپوزیشن کی مد ت پوری کرنا چاہتے ہیں۔یہ بات مو لانا عبدالواسع ، اختر جان مینگل ،زمرک خان اچکزئی ، طارق مگسی ،سید احسان شاہ نے پر یس کانفر نس کرتے ہوئے کہی ،اس موقع پر حاجی عثما ن بادینی ، سینیٹر ڈاکٹر جہا نزیب جما لد ینی ، خلیل الرحمن دمڑ ،مولوی معاذاللہ ،میر ظفر زہری ،میر حمل کلمتی ،مفتی گلاب کاکڑ ودیگر بھی موجود تھے ۔ علاوہ ازیں سابق وزیراعلی بلوچستان کے مستعفی ہونے کے بعد وزیراعلی سیکرٹریٹ میں مکمل خاموشی کوئی بھی سابقہ وزراء یاارکان اسمبلی وزیرعلی سیکرٹریٹ نہیں گیا 6مسلم لیگی رہنماؤں نے آخر تک سابق وزیراعلی بلوچستان کا ساتھ دیا۔ وزیراعلی بلوچستان کے مستعفی ہونے کے بعد انکے وزراء ،مشیر اور پولیٹیکل سیکرٹری ،ایڈوائزر سب کے عہدے ختم ہوگئے ہیں بدھ کی روز سول سیکرٹریٹ میں بعض سابقہ وزراء نے اپنے اسٹاف کے ذریعے پرانی تاریخوں میں اپنے محکموں کی فائلیں نکالی جو زیادہ تر گھروں پر موجود رہے ۔نواب ایاز خان جوگیزئی نے دعوی کیا ہے کہ صوبے میں جو بھی نئی حکومت بنے گی وہ دو ہفتے سے زیادہ نہیں چل سکے گی ۔نواب ثناء اللہ خان زہری کا ساتھ مسلم لیگی جن ارکان نے دیا ان میں محمد خان لہڑی ،درمحمد ناصر ، انیتہ عرفان ،کشور جتک ،ثمینہ خان اور اظہار کھوسو شامل تھے جنہوں نے تحریک عدم اعتماد پر دستخط نہیں کئے تھے اور آخر تک سابق وزیراعلی بلوچستان کیساتھ دیتے رہے ۔ علاوہ ازیں مولانا عبدالواسع نے کہا کہ اپوزیشن حکومت کو گرنے نہیں دے گی، مثبت حکومت کے لیے تعاون کریں گے، ہم سب اس حکومت کی تائید میں ہیں۔ حکومت کو تبدیل کرکے حکومت میں نہ جانا اصول کی تابعداری ہے، ہم حکومت اور وزارتیں نہیں چاہتے، اقتدار کی نہیں اقدار کی سیاست کرتے ہیں۔ ایک مدت میں تین حکومتیں بدلنا بھی صوبے کے مسائل میں سے ہے، عوام کی جو مشکلات ہیں انہیں کم کرنے کے لیے اتحاد و اتفاق ضروری ہے۔اپوزیشن لیڈر کہنا تھا کہ بلوچستان میں کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوگا، اپوزیشن قائد ایوان کی نامزدگی کے سارے اختیارات اکثریتی پارٹی کو دے گی۔
بلوچستان

مزید :

صفحہ آخر -