’’کی مرے قتل کے بعد اس نے جفاسے توبہ ‘‘ خورشید شاہ کی نواب زہر سے معذرت
تجزیہ:قدرت اللہ چودھری
قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بلوچستان میں نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت گرانے پر ان سے معذرت کی ہے، یہ معذرت شاہ صاحب نے اس وقت کی جب جام مدد علی کے صاحبزادے کی شادی میں ان کا سابق وزیراعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری سے آمنا سامنا ہوا۔ شاہ صاحب کی معذرت پر نواب صاحب نے زبانی تو کچھ نہیں کہا لیکن وہ اگر غالب کا سہارا لیتے تو کہہ سکتے تھے۔
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر بھی اس پر معذرت کر چکے ہیں اچھی بات ہے کہ سیاست میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی ریت پڑ گئی ہے۔ اگرچہ اس پر معذرت کی ضرورت تو خود آصف علی زرداری کو تھی جنہوں نے اس شطرنج کے مہروں کی پوزیشن قائم کی تھی اور جب توڑ جوڑ اور محلاتی ساز باز کے ذریعے نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت ختم ہوگئی تو انہوں نے بھرے جلسے میں نوازشریف کو للکارا تھا کہ ہم حکومتیں گراتے بھی ہیں اور بناتے بھی ہیں، دیکھ لو ہم نے کہا تھا کہ بلوچستان میں تمہاری حکومت گرا دیں گے اور ہم نے گرا کر دکھا دی۔ زرداری صاحب کی بات بھی ا گرچہ سچ تھی لیکن پروین شاکر کے الفاظ میں’’بات تھی رسوائی کی‘‘ لیکن سیاست دوراں میں اسے رسوائی نہیں سمجھا گیا تھا عین کامیابی خیال کیا گیا تھا کیونکہ نواب ثناء اللہ کی محض حکومت گرانا مقصود نہ تھا ایک بڑا مقصد سینیٹ کے انتخابات میں نواز شریف کی جماعت کو بلوچستان میں کامیابی سے روکنا بھی تھا۔ چنانچہ یہ مقصد بھی حاصل کرلیا گیا۔ تیسری کامیابی صادق سنجرانی کو چیئرمین بنانے کی شکل میں ملی جو نواب کی حکومت گرائے بغیر ممکن نہ تھی۔ یہ تین مقاصد تو وہ تھے جو منصوبہ سازوں نے براہ راست حاصل کئے یا یوں کہہ لیں کہ ایک تیر سے تین شکار کئے لیکن اس کے کئی ضمنی فائدے بھی ہوئے، بلوچستان میں نواب ثناء اللہ کو ان کے اپنے ساتھیوں کی مدد سے محروم اقتدار کردیا گیا اور ان کی جگہ عبدالقدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ ایک نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے وجود میںآئی، عجیب اتفاق ہے کہ یہ جماعت آج ایک مرتبہ پھر بحران سے دو چار نظر آتی ہے۔ جام کمال کو وزیراعلی تو بنا دیا گیا لیکن اب ان کی اپنی جماعت ہی ان کے اقتدار کے درپئے ہے۔ دیکھیں اب کی بار یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے تو ہم بات کر رہے تھے جناب آصف علی زرداری کے اس دعوے کی کہ انہوں نے حکومت گرا کر دکھادی، اس کے ضمنی فوائد دو ہوئے ایک تو یہ کہ سینیٹ کے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے اپنی قوت سے زیادہ حصہ حاصل کرکے اپنی پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین بنوالیا اور ایم کیو ایم کے کئی ارکان کے نہ صرف سینیٹ کیلئے ووٹ حاصل کئے بلکہ اس رگڑے جھگڑے میں ایم کیو ایم کی قوت کو بھی پاش پاش کردیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد کے حالات کی وجہ سے ایم کیو ایم دوبارہ وفاق کے اقتدار میں حصہ دار بن گئی اور دو اہم وزارتیں اس کے ارکان کے نام لکھ دی گئیں۔ بلوچستان کی حکومت گرانے اور سینیٹ کے الیکشن میں کامیابی کے بعد آصف علی زرداری نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ عام انتخابات کے بعد وہ دوبارہ حکومت بنائیں گے لیکن وہ یہ دعوی سچ ثابت نہ کرسکے، کیونکہ پنجاب میں ان کی پارٹی بری طرح پٹ چکی تھی البتہ اتنا ضرور ہے کہ وہ سندھ کی حکومت بچانے میں کامیاب ہوگئے، حالانکہ مسودے کے مطابق چلا جاتا تو پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بھی نہیں بن سکتی تھی لیکن گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو اپنے نام کی مناسبت سے گرینڈ کامیابی نہ مل سکی اور اس کے ٹکٹ پر صرف 14ارکان ہی سندھ اسمبلی پہنچ سکے۔ اس سے زیادہ نشستیں تو میجک باکس کی کرامت سے تحریک انصاف لے گئی جس پر ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی شور ہی مچاتی رہ گئیں کہ یہ وعدے کی خلاف ورزی ہے، کیسا وعدہ اور کون سا وعدہ ۔۔۔ وعدہ تو جنرل ضیاء الحق نے الٰہی بخش سومرو سے بھی کیا تھا کہ آپ کو وزیراعظم بنایا جا رہا ہے انہوں نے حیرت و استعجاب سے پوچھا حضور یہ کیسے ہوگا تو جواب تھا ایساہی ہوگا آپ اپنے دوستوں کو بھی بتا دیں۔ الٰہی بخش سومرو نے بتا تو دیا لیکن اگلے روز وزارت عظمی کا ’ہما‘ اڑ کر محمد خان جونیجو کے سرپر بیٹھ گیا اور الٰہی بخش سومرو کہہ مکرنیوں کا اندازہ کرتے ہی رہ گئے۔ زرداری صاحب نے اپنی سیاسی غلطی کی تلافی اس طرح کرنی چاہی تھی کہ صادق سنجرانی کو ان کے منصب سے ہٹا دیا جائے لیکن یہ کام وہ اکیلے نہیں کرسکتے، مسلم لیگ ن کو ساتھ ملا کر ہی یہ کام کیا جاسکتا تھا لیکن اس نے فی الحال اس نئے کھیل کا حصہ بننے سے معذرت کرلی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نہ تو صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد لانے کے حق میں ہے اور نہ ہی وفاق اور پنجاب میں کوئی ایسا کام کرنا چاہتی ہے۔ شایداس کی وجہ یہ ہوکہ دونوں جماعتوں کے درمیان فاصلے ابھی قربتوں میں نہیں بدلے۔ جون ایلیا کس وقت یاد آئے
میں نے سب راستوں کو ناپا ہے
تم سے بس چاند تک کی دوری ہے
قائد ایوان (وزیراعظم) اور صدر کے انتخاب کے موقع پر پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ(ن) کا ساتھ نہیں دیا تھا حتی کہ شہباز شریف کو بھی ووٹ نہیں دیا جو اس ووٹ سے جیت تو نہیں سکتے تھے لیکن یہ تاثر ضرور ملتا کہ حزب اختلاف کی یہ دو جماعتیں اکٹھی ہیں صدارتی انتخاب میں آصف علی زرداری نے یکطرفہ طور پر اعتزاز احسن کو اپنا امیدوار بنا دیا اور آخر تک اپنے اس فیصلے پر ڈٹے رہے۔ اگرچہ یہ مظاہرہ ’’قول مرداں جان دارد‘‘ کا عملی اظہار تھا لیکن سیاست میں اس طرح کے بے لچک رویوں کی قیمت کسی نہ کسی شکل میں ادا کرنا پڑتی ہے۔جو اب ادا کی جا رہی ہے چلئے یہ بھی غنیمت ہے خورشید شاہ جیسے جہاندیدہ سیاست دان نے ایک سال بعد ہی سہی، ثناء اللہ زہری سے معذرت تو کی۔