اور اب اسلامی نظریاتی کونسل پر اعتراض!
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد حسین چودھری نے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی بے کار ادارہ قرار دے کر معنوی اعتبار سے اسے ختم کرنے کی رائے دی ہے۔اگرچہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس ادارے کو سکالرز اور اہل ترین حضرات کے سپرد کرنا چاہئے۔اس کے ساتھ ہی وہ یہ کہتے ہیں کہ اس ادارے نے اب تک مذہبی طور پر کوئی رہنمائی نہیں کی، اس پر کروڑوں روپے ضائع ہو رہے ہیں۔ فواد حسین چودھری ابھی دو روز قبل تک ”ٹک ٹاک“ میں اُلجھ کر میڈیا کے در پے تھے، ان کی ایک اینکر پرسن سے تازہ تازہ لڑائی ہوئی اور دونوں طرف سے اندراج مقدمہ کی درخواستیں بھی دی جا چکی ہیں۔اس سے قبل بھی وہ متنازعہ امور میں الجھتے رہے ہیں۔تاہم اب تو انہوں نے ایک ایسے ادارے پر سنگین نوعیت کا اعتراض کیا ہے، جو قطعی طور پر آئینی ہے اور آئین میں مندرج ہے کہ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنے گا،اسی لئے یہ کونسل بنائی گئی ہے،جس کی نمائندگی تمام مکاتب ِ فکر کے جیدّ علماء کرتے ہیں۔اس ادارے کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ نہ صرف مروجہ قوانین کو بتدریج اسلامی نظریئے کے مطابق ڈھالنے کی سفارش کرے،بلکہ حکومت کی طرف سے استفسارات کا بھی جواب دے۔اس سلسلے میں اس ادارے کی بہت زیادہ سفارشات ہیں، جن پر عملدرآمد بھی نہیں ہوا۔ یہ مسئلہ اس وقت پیدا کیا گیا جب کونسل نے نیب آرڈیننس پر غور کیا اور یہ قرار دیا کہ کسی عدالت میں جرم ثابت کئے بغیر ہتھکڑی لگانا اور عدالت سے اجازت کے بغیر حراست میں رکھنا، وعدہ معاف گواہ اور پلی بارگین کی دفعات خلافِ اسلام ہیں۔کونسل کے مطابق اس آرڈیننس کے مطابق استغاثہ کو جرم ثابت کرنے کی بجائے بے گناہی ثابت کرنا ملزم کی ذمہ داری قرار دینا بھی اسلامی نظریئے کے مطابق نہیں۔اس کے بعد ہی فواد حسین چودھری نے اعتراض داغ دیا، نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے جواب میں تحمل ہی کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ وزیر موصوف نے جلدی کی وہ ہم سے بات کر لیتے، تو مطمئن ہو جاتے۔ وزیر موصوف شاید ایسے اعتراض اپنی شہرت کے لئے کرتے ہیں،کیونکہ اب تک وہ جو بھی کہتے رہے اور جسے درست قرار دیتے رہے وہ صحیح کیا تو نہیں گیا۔البتہ ان کو شہرت مل جاتی ہے۔ یوں یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ”بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا“ ہماری ان سے درخواست ہے کہ وہ ایسے امور میں اُلجھنے اور ہر دم تنازعہ پیدا کرنے سے گریز کریں،وہ حکومت ِ وقت کے وزیر ہیں اگر ان کو اعتراض ہے تو وہ متعلقہ قوانین میں ترمیم کرا لیں۔نظریاتی کونسل بہرحال آئینی ادارہ ہے۔