مایوسی بڑھ رہی ہے؟
اب اسے ستم ظریفی کہیں یا شومی ئ قسمت کہ جس روز کراچی میں ایک غریب مزدور نے اس لئے خود کو زندہ جلا لیا کہ وہ اپنے بچوں کو سردی سے بچانے کے لئے گرم کپڑے نہیں دے سکا تھا، اسی روز وزیراعظم عمران خان نے یہ شاندار بیان جاری کیا کہ زندگی میں سکون کبھی نہیں ملتا، وہ تو صرف قبر میں آتا ہے۔ مَیں حیرت و مایوسی کے سمندر میں گم ہوں کہ میرے پیارے وزیراعظم کو کیا ہو گیا ہے، وہ تو ہمیشہ امید اور رجائیت کی باتیں کرتا تھا، وہ تو پاکستان میں زندگی کو اتنا خوبصورت اور پُرسکون بنانا چاہتا تھا،جس کے لئے بیرون ملک سے لوگوں نے پاکستان میں رہنے کے لئے آنا تھا۔وہ رجائی وزیراعظم اب موت کی باتیں کر رہا ہے، قبر میں سکون تلاش کرنے کی راہ دکھا رہا ہے……ایک کروڑ نوکریاں دینے والے کی یہ بات سینے پر تیر بن کر لگی کہ حکومت نوکریاں نہیں دے سکتی، بس ہنر مند بنا سکتی ہے۔ کپتان صاحب! آپ تو کہتے تھے انسان اس وقت ہارتا ہے، جب خود ہار مان لیتا ہے، کیا آپ نے ہار مان لی ہے، کیا آپ حالات کے ہاتھوں شکست کھا گئے ہیں، کیا آپ اعلیٰ خوابوں سے محروم ہو گئے ہیں، کیا آپ کو تاریکی کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ہے؟……یہ زندگی تو بہت خوبصورت ہے، انسان کو روزگار ملے، انصاف مہیا ہو، علاج معالجے کی سہولتیں ملتی رہیں تو یہی زندگی بڑے سکون سے گزرتی ہے۔ کیا دنیا میں ایسے ممالک موجود نہیں، جنہوں نے زندگی کو اپنے جنت نظیر نظام سے پُرسکون اور پُرامن بنا دیا ہے۔ کیا ضروری ہے کہ سکون صرف قبر ہی میں ملے، دنیا میں بھی تو انسانوں نے سکون کو ممکن بنایا ہے۔
کپتان صاحب!آپ تو مدینے کی ریاست کہتے نہیں تھکتے……مدینے کی ریاست میں تو سکون ہی سکون تھا، کوئی بھوکا نہیں ہوتا تھا، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی تھی، کوئی ناانصافی کا شکار ہو کر غم و آلام میں مبتلا نہیں ہوتا تھا۔ ایسی ریاست کا خواب لے کر آپ چلے اور اب مایوسی کی باتیں کررہے ہیں …… ایسا کیا ہوا ہے کہ سب کچھ ختم ہو رہا ہے۔ یہ یوٹرن تو اچھا نہیں، آپ سے عوام کو بڑی امیدیں ہیں، بڑی محبت سے وہ آپ کو اقتدار میں لائے، دو بڑی سیاسی جماعتوں کو پیچھے دھکیلا، ان کے دہائیوں پر مبنی اقتدار کا خاتمہ کیا،اس امید پر کہ آپ ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں گے۔ ایک روشن خیال، خوشحال پاکستان، جس میں خوشحالی کے ساتھ مساوات کے سنہری اصولوں پر معاشرہ استوار ہو گا۔
امیری غریبی انصاف کی راہ میں حائل نہیں ہو سکے گی،بنیادی حقوق سب کو ملیں گے، یہ سب دعوے بھی تو آپ نے کئے تھے، پھر ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں،ہمت ہار گئے ہیں، امید دلانے والے نہیں رہے، جرات مندانہ فیصلے نہیں کر رہے، مصلحتوں کا شکار ہو رہے ہیں، نیا پاکستان بنانے کا عزم ڈھیلا پڑتا جا رہا ہے، وہی دقیانوسی اقدامات اور وہی پرانے چہرے آپ کا مقدر بنے ہوئے ہیں …… میرے لئے تو یہ بات بہت عجیب اور مایوس کن ہے، مَیں نے تو آپ کو جی جان سے سپورٹ کیا، اپنی پوری امیدیں اور مستقبل آپ سے وابستہ کر لیا، آپ نے احتساب کا نعرہ لگایا تو پوری قوم آپ کے پیچھے آ کھڑی ہوئی، آپ نے جب بھی اسٹیج پر کھڑے ہو کر یہ کہا کہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا، ہمارا ڈھیروں خون بڑھ گیا، پھر یہ کیا ہوا کہ نیب کو آپ نے کمزور کر دیا، ڈیل اور ڈھیل نہ دینے کی باتیں کرتے کرتے کیا کچھ دے گئے۔ آج یوں لگ رہا ہے کہ ملک سے احتساب کی بساط لپیٹی جا رہی ہے۔
اپنے پیارے کپتان سے آج کل خود کلامی کے انداز میں میری طرح ہر وہ پاکستانی ہم کلام ہے، جس نے انہیں بڑے چاؤ سے 2018ء میں ووٹ دیئے تھے۔ آج کل وزیراعظم عمران خان نے 2020ء کو پاکستان کے اوپر اٹھنے کا سال قرار دے رکھا ہے۔ ہر تقریب میں تقریر کرتے ہوئے یہ دعویٰ ضرور کرتے ہیں، مگر ایک طرف یہ دعویٰ کرتے ہیں تو دوسری طرف کوئی ایسا فیصلہ کر دیتے ہیں کہ مہنگائی کا عذاب مزید سخت ہوجاتا ہے۔ یہاں تو یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ ڈالر نے اس سال 172روپے تک جانا ہے، کیونکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو چکا ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ گرمیوں میں بجلی 25روپے یونٹ ہو جائے گی، کیونکہ یہ بھی آئی ایم ایف معاہدے کا تقاضا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت عوام کو مہنگے بلوں کا عادی کرنے کے لئے سردیوں میں بھی ایف پی اے سرچارج لگا کر دوگنا بل بھیج رہی ہے، ان کی چیخیں نکلوا رہی ہے، جن کا علاج وزیراعظم نے یہ بتایا ہے کہ زندگی کوئی سکون کی جگہ نہیں،
سکون تو صرف قبر میں آ سکتا ہے۔ بظاہر یہ سب کچھ پاکستانی معیشت کی بہتری کے لئے کیا جا رہا ہے…… سوال یہ ہے کہ عوام کی قوت خرید بڑھائے بغیر معیشت کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟
پہلی حکومتیں سبسڈی دے کر عوام کو زندہ رکھتی تھیں، اسے بھی آئی ایم ایف نے معیشت کے لئے زہر قرار دے کر متروک کر دیا۔اب تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے، جس کے ذمے یہ کام لگایا گیا ہے کہ عوام کو مار کر، انہیں قبر کی راہ دکھا کر، ان کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ کر اپنا خزانہ بھرے، تاکہ ہمارا دیا گیا قرض مع سود محفوظ رہے۔ دنیا بھر کا اصول ہے کہ معیشت اس وقت مضبوط ہوتی ہے،جب عوام خوشحال ہوتے ہیں۔ ڈالروں سے قومی خزانہ بھرنے کا کوئی فائدہ نہیں،
اگر کراچی کا ایک شخص بچوں کو کپڑے نہ دینے کی وجہ سے جل کر خودکشی کر لے……آپ کو کیا ایک سرجن کے طور پر لایا گیا ہے، جس کے ہاتھوں چیر پھاڑ کروائی جا رہی ہے۔ آپ کا امیج تو ایک ایسے لیڈر کا تھا، جو عوام کو ریلیف دینے آیا ہے، ان کے دُکھوں کا مداوا کرنے کا عزم اس کی پہچان ہے۔ روزگار کے مواقع بڑھے ہیں، نہ کاروبار چل رہا ہے، بس ”مرے کو مارے شاہ مدار“ کی طرح بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ آٹا، چینی، ڈال، گھی، سبزیوں کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔ آمدنی بڑھی نہیں، اخراجات دوگنا سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں …… کیا پاکستان کے اوپر اٹھنے کی یہی علامتیں ہیں؟ میرے کپتان پاکستان بیٹھ رہا ہے، کیونکہ عام پاکستانی دل پکڑ کر بیٹھ گیا ہے۔ اسے اس معصومانہ بات سے کیسے بہلایا جا سکتا ہے کہ زندگی سکون کا باعث نہیں، سکون تو صرف قبر میں جا کر ہی آتا ہے۔
ہمارے پیارے وزیراعظم عمران خان ایک خوش قسمت انسان ہیں، انہیں حکومت اس وقت ملی ہے، جب اپوزیشن اپنی کرپشن اور لوٹ مار کے باعث عوام کی نظروں سے گر چکی ہے، وگرنہ یہ وہی ملک ہے،جہاں ذرا سی مہنگائی نے صدر ایوب خان جیسے مضبوط ڈکٹیٹر کو چند دنوں میں عوامی غیظ و غضب کا شکار کر دیا تھا۔ جہاں حکمران سب سے زیادہ عوامی ردعمل سے گھبراتے تھے، جو روزمرہ استعمال کی اشیاء مہنگی ہونے سے پیدا ہو سکتا تھا۔ اس لئے وہ عوام کی روٹی دال کا مسئلہ کبھی پیدا نہیں ہونے دیتے تھے، سبسڈی دے کر یامارکیٹ میں اشیاء کی فراوانی کرکے وہ قیمتوں کو عوام کی پہنچ میں رکھتے تھے، کیونکہ انہیں پتہ ہوتا تھا کہ عوام اس مسئلے پر سڑکوں پر آ گئے تو اسٹیبلشمنٹ ان کی بساط لپیٹ دے گی۔ آج تاریخ کی سب سے بڑی مہنگائی عوام کا جینا دوبھر کئے ہوئے ہے، لیکن وہ صرف کڑھ سکتے ہیں، ان کے لئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔ سیاسی جماعتیں بے دم ہیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کیا میرے کپتان کے لئے یہ کوئی اطمینان کی بات ہے۔ کیا وہ صبر و شکر کی تلقین کرکے عوام کے دکھوں اور محرومیوں پر مرہم رکھ سکتے ہیں۔کیا وہ اپنے معاشی منیجروں کے کہنے پر اسی طرح عوام کی زندگی مشکل بناتے رہیں گے یا انہیں کچھ اور بھی کرنا ہوگا؟یہ سوال اب ایسا نہیں، جس سے نظریں چرائی جا سکیں، اب اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کا وقت آ چکا ہے۔