قانون سازی کے طریقہ کار پر حکومت، اپوزیشن میں اتفاق، قومی اسمبلی میں زینب الرٹ سمیت 6قوانین منظور

قانون سازی کے طریقہ کار پر حکومت، اپوزیشن میں اتفاق، قومی اسمبلی میں زینب ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک،این این آئی)قومی اسمبلی میں قانون سازی کے طریقہ کار پر حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہوگیا، ایوان سے پاس کرائے گئے آرڈینسز واپس لے کر دوبارہ بل کی صورت میں پیش زینب الرٹ بل سمیت 6 بل منظور کرلئے گئے جبکہ حکومت کے اپوزیشن سے مذاکرات کے منٹس بھی ایوان کی کارروائی کا حصہ بنا دیئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کو قومی اسمبلی میں وزیر مملکت علی محمد خان نے ایوان میں تحریک پیش کرکے پہلے سے منظور کرائے گئے بلز واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ قانون سازی کے معاملے پر ہونے والے مذاکرات کے منٹس کو بھی ایوان کی کارروائی کا حصہ بنانے کیلئے سپیکر کو پیش کیے جبکہ واپس لئے گئے آرڈیننسز پروانہ انصرام تولیت و وراثت بل 2019 آرڈیننس، قانونی معاونت و انصاف اتھارٹی آرڈیننس، نفاذ حقوق جائیداد برائے خواتین کا آرڈیننس، اعلیٰ عدلیہ عدالتی لباس اور انداز مخاطب کا آرڈیننس،بے نامی کاروباری معاملات امتناع کا آرڈیننس اور قومی احتساب ترمیمی 2019 آرڈیننس کو بل کی صورت میں دوبارہ ایوان میں پیش کیا گیا۔ایوان نے زینب الرٹ بل سمیت 6 بلز منظور کرلئے۔جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے آرڈیننسز کی واپسی پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہم سلیکٹڈ نہیں، حکومت اور اپوزیشن نے ہمیں مذاکراتی عمل میں اعتماد میں نہیں لیا۔قومی اسمبلی اجلاس کے دوران مسلم لیگ(ن)کے رہنماء راناثناء اللہ نیمنشیات برآمدگی کیس میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کر دیا بطور شہری شفاف تحقیقات کا مطالبہ میرا حق ہے۔انہوں نے کہا یکم جولائی کو پارٹی میٹنگ کیلئے لاہور جا رہا تھا، سہ پہر 3 بج کر 35 منٹ پر مجھے روکا گیا، مجھے تھانے میں محبوس رکھا گیا، اس دوران مجھ سے کوئی گفتگو نہیں ہوئی، تفتیشی افسر مجھ سے ملا تک نہیں جبکہ کہا گیا مجھ سے منشیات برآمدگی کی ویڈیو موجود ہے۔رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا عدالت پیشی پر بتایا گیا مجھ سے 15 کلو ہیروئن برآمد ہوئی، انہوں نے 15 کلو ہیروئن اپنے گودام سے ڈالی ہے، تفتیشی افسر کی مجھ سے بات کرتے ہوئے فوٹیج دکھا دیں، جنہوں نے میرے ساتھ ظلم کیا ان پر اللہ کا قہر نازل ہو،25سال میں کسی منشیات فروش سے تعلق رکھا نہ سفارش کی، جیل میں اذیت دی گئی، کیس میں کوئی انکوائری اور تفتیش نہیں ہوئی۔لیگی رہنما کا کہنا تھا 60 سال پہلے چودھری ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ درج ہوا، آج تک بھینس چوری کا مقدمہ پاکستانی سیاست پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ وفاقی وزیرمراد سعید نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن رہنماؤں کے عدالت میں کیسز چلتے ہیں، اسمبلی اجلاس میں آکر وہ تقریریں جھاڑتے ہیں، رانا ثنااللہ پر بہت سے الزامات ہیں، کیا ہم سانحہ ماڈل ٹاؤن بھول گئے جس میں کئی افراد کو قتل کیا گیا۔مراد سعید نے کہا کہ رانا ثنا کا معاملہ عدالت میں ہے جس پرایوان میں بات کی جاتی ہے، دو موقف ہیں ایک رانا ثنا اللہ کا اور دوسرا انٹی نارکوٹکس فورس کا موقف ہے جو ریاستی ادارہ ہے، عدالت میں زیر التوا معاملات کو ایوان میں اٹھانا درست نہیں۔انہوں نے کہا کہ کیا ہم سانحہ ماڈل ٹاؤن بھول گئے، ماڈل ٹاؤن سانحہ بھی اس شخص کے احکامات پر پیش آیا۔ کیا ہم اس بچی کی فریاد بھول جائیں جو چیخ چیخ کرایوان سے سوال کر رہی تھی کہ میری والدہ کا کیاقصور تھا۔ یہاں پر قرآن اٹھا کر اپنا موقف پیش کر دیا گیا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم بھی حلف لیکر آئے ہیں، ایوان میں جوبات کی جاتی ہے وہ سچی ہوتی ہے، اگرایوان میں ہم سچ نہ بولیں توحلف کی خلاف ورزی ہوگی۔دوسری جانبقومی اسمبلی اجلاس میں رانا ثنااللہ کی تقریر کے دوران حکومتی اتحادیوں نے بھی رانا ثنااللہ کے موقف کی حمایت کا اعلان کر تے ہوئے کہا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اسلم بھوتانی، بلوچستان عوامی پارٹی کے خالد مگسی،جی ڈی اے کی سائرہ بانو،ایم کیو ایم کے اقبال محمد علی اور تحریک انصاف کے رکن ثنااللہ مستی خیل بھی لیگی رہنماء لے موقف کی تائید کرنیوالوں میں شامل تھے۔بعدازاں قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی شام 4 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
قومی اسمبلی

مزید :

صفحہ اول -