ہزارہ قبائل سے ہمدردی کے بول
تھوڑا یا زیادہ لیکن خدائے بزرگ و برتر کے پاک کلام کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس میں تعطل اور انقطاع نہ آئے اور ہر بار نئی سے نئی چیز دیکھنے میں آتی ہے۔ زیر نظر سطور قلمبند کرنے سے قبل حسبِ معمول قرآنِ کریم کھولا تو سورۂ دھر کی ابتدائی تین آیات پر میری نظر ٹھہر گئی۔ جس میں ارشادِ رب العزت ہے کہ کیا انسان پر وہ زمانہ نہیں گزرا جب کہ وہ کوئی قابل ذکر شے تھا ہی نہیں اور ہم نے اسے مادۂ حیات سے یعنی آب مخلوق سے پیدا کیا اور مقصدِ تخلیق یہ تھا کہ ہم (اللہ تعالیٰ) انسانوں کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ ہم نے اسے قوتِ سماعت اور طاقتِ بصارت بھی دے دی اور اس کی ہدائت کا انتظام بھی کردیا۔ اب یہ انسانوں پر منحصر ہے کہ یہ ہمارا شکر ادا کریں یا پھر ناشکرے بن جائیں۔انسان کو اللہ کریم نے اشرف المخلوقات کا اعزاز عطا کرکے عزت بھی بخش دی۔+
بچے کے شکم مادر میں آنے کے بعد نظر بہ نظاہر اس کے والدین بھی اسے دنیا میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ حتّٰی کہ توّلد کے بعد اس کی صفائی ستھرائی‘ کانوں میں اذان اقامت اس کے درجات کی بلندی کا ثبوت ہے۔ قارئین کرام! جس طرح دنیا میں انسان کو عزت و شرف عطا کیا گیا ہے اس کے دنیائے فانی سے کوچ کر جانے کے بعد بے مصرف ہو جاتا ہے تو بھی اسے بے یارو مددگار نہیں چھوڑا جا سکتا اور اس کے غسل و کفن اور اس کی تدفین احترام کے ساتھ کی جاتی ہے۔ جب انسان دنیا میں آتا ہے تو ایک ایک شخص پوری انسانیت کا نمائندہ ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اگر کسی نے ایک انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی اور اگر کسی نے ایک بھی انسان کو قتل کیا تو اس کا مطلب ما سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس نے پوری انسانیت کاقتل کیا۔
سطور بالا کے رقم کرنے کا مقصد خود کو فقیہہ یا کوئی دانشور ظاہر کرنا نہیں بلکہ یہ نوحہ ہے مچھ میں ہزارہ برادری کے 11بے گناہ اور معصوم شہداء کا جن کے بچوں، جن کی ماؤں بہنوں اور بہو بیٹیوں اور بوڑھے والدین کی آہ و فغاں اور دردناک چیخیں کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال رہی ہیں۔ دل و دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی ہیں۔
ہم جانتے ہیں وطنِ عزیز میں دہشت گردی کی لہریں وقتاَ فوقتاَ اٹھتی رہتی ہیں لیکن جو حالات بلوچستان بالخصوص ہزارہ برادری سے خاص ہیں انہیں دیکھ کر مزید زندہ رہنے کی حسرت ہی دم توڑ دیتی ہے۔ چُن چُن کر ان کے معصوم اور بے گناہوں کو شہید کرنا معمول بن چکا ہے۔ چند سال قبل بھی دہشت گردی کے ایک واقعے میں ہزارہ کے پورے ایک سو افراد رزقِ خاک بن گئے تھے۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ جب ان شہداء کی رسم چہلم ادا کی جارہی تھی عین اس وقت اسی طرح کا واقعہ رونما ہوا اور پھر سو کے قریب یا اس سے کچھ اوپر نیچے لوگ زندگی کی بازی ہار گئے وزیراعظم عمران خان اس وقت اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے ہزارہ برادری کی داد رسی کے بڑے بڑے بلند بانگ دعوے کئے تھے۔ ان سے بنفس نفیس جاکر اظہار افسوس کیا تھا اور زرداری حکومت کو سخت سست اور نہ جانے کیا کچھ کہا تھا۔ اب جب ان پر اچھا وقت ہے اور وہ اپنے تئیں خود کو ہمہ مقتدر وزیراعظم گردانتے ہیں وہ بڑی تاخیر
سے کوئٹہ پہنچے اس وقت جب ان کے مطالبے پر میتیں دفنا دی گئیں ہم سمجھتے ہیں کہ بیس بائیس کروڑ عوام کی خود کو حاصل تائید کے مدعی اور سپورٹس مین سپرٹ کے جذبے سے سرشار اپنی دُھن کے پکے وزیراعظم اس قدر کمزور‘ خوفزدہ‘ بے بس اور لاچار نہیں کہ محض اپنی جان کو کسی امکانی طور پر لاحق خطرے کے پیشِ نظر حالات کے معمول پر آنے کے منتظر رہتے۔ عوام یہ سوچنے پرمجبور ہیں کہ بات بات پر ہمارے سیاسی حکمران کتاب آئین سے چن چن کر اور تلاش کر کر کے ایسے آرٹیکلز ڈھونڈتے ہیں جو کسی بھی درپیش مسئلے کو اور خراب حالت کو درست سمت دینے میں فوج کی مدد پر دلالت کرتے ہیں۔ ماضی میں پاک فوج اور رینجرز سے مدد کی مثالیں حال کی باتیں ہیں۔
ہمیں یاد ہے ابھی کل ہی کی بات ہے جب کراچی کی ایک لسانی تنظیم کی طاقت کو پاک فوج اور رینجرز کی مدد سے کمزور کیا گیا جسے کچلنا سیاسی حکومتوں کے لئے گزشتہ پچیس تیس سالوں سے درد سر بنا ہوا تھا۔ وزیراعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی مرنے والے کے اعزہ و اقارب کے لئے نقد امداد کوئی معنی نہیں رکھتی‘ ہمدردی کے دو بول ہی کافی ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی پر قابو پانا اس قدر آسان نہیں اگر ایسا ہوتا تو ایک کے بعد دوسرا سانحہ رونما نہ ہوتا اور یوں بھی دہشت گردی اپنی ایک لمبی تاریخ رکھتی ہے اس کا سلسلہ شیطان کی آنت سے بھی کہیں زیادہ لمبا اور طویل ہے۔